چوپال میں بیٹھی ہو ئی نیند۔۔۔۔۔احمد نعیم

کرنگوں کی کٹوریاں، روپا کے قریب ہی رکھی ہو ئی تھیں۔ سورج کی نرم نرم کرنیں، انہیں کٹوریوں کو چوم رہی تھیں۔ اور روپا، چٹکیوں میں رنگوں کو بھر کر، اپنے آنگن میں بیل بوٹے ، بکھیرے جا رہی تھی۔ منڈیر پہ بیٹھے کوّے، مسلسل کائیں کائیں کررہے تھے۔ مگر روپا ان آوازوں سے بے خبر، رنگوں سے ایک دلچسپ و انوکھا منظر بکھیرنے میں مگن تھی۔
’’ارے !روپا سُنتی ہو؟‘‘
روپا کے رنگ بھرے خیالات ،ماسی کی آواز سے ٹوٹ پھوٹ گئے۔ اس نے ماتھے پر آئے بالوں کو پیچھے کیا، تو جامنی اور گلابی رنگ ،اُس کے گالوں کا بوسہ لینے میں کامیاب ہو گئے اورپھر وہ دونوں رنگ مسکراکر، منڈیر پہ بیٹھے کوّوں کو تکنے لگے۔ روپا نے ہاتھ روک کر کہا۔
’’کیا ہو ا ماسی؟‘‘۔۔
“ارے دیکھتی نہیں! آج منڈیر پر کوّے کئی دنوں بعد کوئی سندیس لائے ہیں۔”
بوڑھی ماسی نے گوبر زمین پر لیپتے ہوئے ، روپا کی جانب مسکراکر کہا۔ ’’لگتا ہے۔۔ آج دیپک چھٹیاں لے کر، آہی رہا ہو گا۔”
روپا، دیپک کا نام سنتے ہی شرما سی گئی۔ گالوں پر لگا گلابی رنگ ،مزید گلابی ہو گیا۔
’’ارے میں تو کہتی ہو ں تو تیاری کر، اکثرجب کوّے ہماری منڈیر پرکائیں کائیں کر تے ہیں ، تو رات گئے یا پوپھٹنے سے پہلے ،دیپک آہی جا تا ہے۔”
’’ہا ں ماسی! یہ آپ نے سچ کہا۔‘‘روپا نے ایک خالی خانے میں ، سبز رنگ بھرتے ہو ئے کہا۔
روپا پھر ایک بار رنگوں کی کٹوریوں کی جانب مڑتی ہے اور خیالوں ہی خیالوں میں دیپک کو دیکھ کر،مسکرا اُٹھتی ہے۔ اب صرف اسی کی انگلیوں کا لمس رنگوں کو چھوتا اور دھیرے دھیرے دھرتی کے ایک چھوٹے سے حصّے پر، رنگ بکھیرتا چلا جا رہا تھا۔ اس کے خیالات کا سلسلہ تب ٹوٹا ،جب کٹوریوں سے رنگ ختم ہو گئے۔ اور دن ڈاکیے کے لائے ہوئے رسالوں اور چائے کی پیالیوں میں گُھل کر تمام ہو گئے۔
روپا بالکنی میں کھڑی تھی اور نظریں جامن کے پیڑ میں الجھ کر، رہ سی گئی تھیں۔ جامن کے پیڑ سے گرے ،کچھ رسیلے جامن ،زمین پر بکھرے پڑے تھے ، جن میں سے کئی اپنے ہی وزن سے پھٹ چکے تھے ،جس سے کئی جگہوں پر جامنی رنگ زمین پہ پھیل گیا تھا۔
روپا کی طبیعت کچھ بو جھل بوجھل سی تھی۔ اس لئے اس نے غسل کر لیا ۔
پھروہ اپنے گیلے بال لئے ، بالکنی میں کھڑی ہوکر، کنگھی کرنے لگی ، اسی دوران اس کی نظر ، بوڑھے برگد کے نیچے بیٹھے سوامی پہ جا ٹھہری۔ ان کے دائیں ہاتھ میں ، آج بھی وہی پرانی چلم موجود تھی۔ روزانہ کی طرح آج بھی ، وہ سرِشام ہی بر گد کے نیچے آ بیٹھے تھے ۔ انہوں ایک طویل کش کھینچ کر، چلم ختم کی اور آنکھیں موندلیں ۔اب ان کے لبوں  سے دھیرے دھیرے ، ایک دھیان کے ساتھ ، اوم م م ۔۔۔ ہری ۔۔۔ اوم م م ۔۔۔۔ ہری۔۔۔اوم نکل رہا تھا اور فضا میں آہستہ آہستہ بکھر رہا تھا۔
روپا نے عقیدت بھری نگاہ سے ان کی طرف دیکھا اور پھر بالکنی میں رکھی میز پرہی بیٹھ گئی۔ اس کے گیلے بالوں نے ، اس کی کمر کو بھگو کررکھ دیا تھا۔ اس نے ماسی کو آواز دی اور ایک کپ چائے لانے کو کہا۔ ماسی ، جو اس کے ہی پڑوس میں رہنے والی تھی ، لیکن دیپک کے شہر جانے کے بعد ، اب وہ روپا کے ساتھ ہی رہنے لگی تھی، جس سے اب تنہائی اور بوریت کا احساس، روپا کو نہیں ہو پاتا تھا۔ کئی برسوں سے یہاں رہتے ہوئے روپا نے ، ان منظروں کو پل پل بدلتے دیکھا تھا، لیکن آج نہ جانے کیوں ان ہی منظروں میں، اسے ایک نیا رنگ جنم لیتا ہوا،نظر آرہاتھا۔
اچانک فضا بلند ہوتی ،گائے ،بھینسوں کی آوازوں سے ،روپا کے خیالات کسی کٹی پتنگ کی مانند ٹوٹ کر ،بہنے لگے تھے۔ مادھونے، لالہ جی کے جانوروں کو، باڑے میں ہانک کر، لکڑی کے کواڑ کوکونڈ دیا اور روزانہ کی طرح ایک چبوترے پہ بیٹھ گیا، پھر اپنی کمر میں لگی بانسری کونکال کر، اس میں کچھ اس طرح سے پھونکیں مارنے لگا کہ جیسے اس میں کچھ پھنسا ہوا ہو ۔ پھر ہونٹوں کو زبان سے تَر کیا اور بانسری لبوں سے لگالی ۔اب بانسری سے ایک میٹھا سا سُر فضا میں بکھرنے لگاتھا ۔
روپا کی نظریں ، ارد گرد سے ہوتی ہوئیں ،اب ولی بابا کے مزار پر جا کر، اٹک سی گئیں تھیں ۔ جہاں گاؤں اورشہر کے کچھ لوگ سفیدی کر رہے تھے ۔ ابھی وہ کچھ مزید سوچتی ، اس سے پہلے ہی رتنا کی پائل اور کمر بند کے گھنگھرؤں کی آوازوں نے ،روپا کے خیالات کو اسکی طرف متوجہ کر دیا ۔ رتنا بے خیالی میں اپنی کمر پرمٹکی رکھے، پانی بھرنے ، تالاب کی سمت جارہی تھی ۔روپا کی نظریں بھی رتنا کے ساتھ ساتھ چلنے لگی ۔ رتنا بے خیالی میں مٹکی کے اندر سمائے پانی کو دیکھ رہی تھی ۔اوراس کے گالوں پرشرم کی لالی ، بار بار اُبھر رہی تھی ، ایک ایسی لالی ،کہ جب لڑکیاں اپنی سہیلیوں کے کانوں میں کچھ کہتی ہیں ، اور چہرے پرایک سرخ رنگ بکھر جاتا ہے ۔وہ من ہی من میں مسکرائی ،جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ رتنا کے وِیواہ ہونے میں، اب کچھ ہی دن باقی ہیں۔
رتنا نے پانی کی مٹکی کو اپنی کمر پررکھا اور ایک گیت اس کے لبوں سے پھسلتا ہوا ،ہواؤں میں رس گھولنے لگا ۔
“بالم کب گھر آؤ گے
بیتی جائے رے جالم عمریا
کا گا منڈیر پہ آوے جس دن اور تم ناہی آوے رے
کیسا جلم ڈھائے رے
بالم کب گھر آؤ گے ”
رتنا کی میٹھی آواز اُس کے لبوں سے نکلتی ، اس کےساتھ اس کے پیروں کی پائلوں اور کمربند کے گھنگھروں کی آوازیں بھی ،اس میں شامل ہوئی جارہی تھیں ۔دور مادھوکی بانسری کا سُر بھی اس میں شامل ہو کر، جدائی کے کرب کو بیان کرنے میں مدد کرنے لگا تھا ۔
اب شام چپکے سے رخصت ہوئی جارہی تھی ۔ اور رات دھیرے دھیرے دبے پاؤں داخل ہورہی تھی   کہ تبھی رات کے سیا ہ اندھیرے میں دل جلے اٹھے ۔ دل کیا جلے ۔۔۔ چراغ جلے اور جب چراغ جلے تو الاؤ بھی جلنے لگے اورالاؤ کے ساتھ ہی کہانیاں ، ہونٹوں سے جنم لینے لگیں ۔۔۔۔۔الاؤ  بجھے چراغ بجھے ۔۔۔اور چوپال میں سنّاٹا طاری ہو گیا ۔ اندھیرا گہرا اور پھر گھنا در گھنا ہو تا چلا گیا ۔
رات بھیگ چلی تھی ۔ روپا کی آنکھوں سے نہ جانے کیوں آج ،نیند روٹھی ہوئی تھی۔ روپا باربار نیند کو پکڑنے کی کوشش کرتی ، لیکن نیند تھی کہ کسی شرارتی بچے کی طرح اس کے ہاتھوں سے پھِسل پھِسل کر، چوپال میں جا بیٹھتی ۔آخر تھک ہار کر، روپا پھر بالکنی میں آکھڑی ہوئی ۔ چاند اپنی چاندنی کے جلوے بکھیر رہا تھا، اس کی روشنی میں جامن کے پیڑ میں لٹکی ہوئی جامنیں ، چمک چمک جاتیں ۔ اچانک روپا کی نگاہ نیچے اپنے آنگن میں جا ٹھہریں، دیکھا ۔ سنہرے ناگ ناگن کا ایک جوڑا ، ایک دوسرے میں لپٹے ہوئے تھے ،وہ دونوں ایک ایسی رسّی میں تبدیل ہوگئے کہ روپا کے ہاتھ بے اختیار اپنے بالوں کی چوٹی پہ جاٹھہرے اور وہ خیالات کی رو میں بہہ گئی ۔
اکثر دیپک ،روپا کی چوٹیوں کو کھینچ کر کہتا، ’’روپا! تمہاری یہ چوٹیاں دیکھ کر ، مجھے ناگ ناگن ایک دوسرے میں لپٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔” اور روپا جھٹ اک ادا کے ساتھ اپنے بالوں کو کھینچ لیتی۔
اب وہ ناگ ناگن، روپا کی بنائی ہوئی رنگولی پر رینگ رہے تھے۔ جس سے وہ اَن گِنت رنگوں میں رنگ گئے تھے، جبکہ تلسی کے پودوں کی پرچھائیاں باربار ان پر پڑ رہی تھیں۔ آوارہ ہوا کا ایک جھونکا ، روپا کے جسم کو چھوتا ہوا گذر گیا ۔ آج تلسی کے پودے کی بھینی بھینی مہک ،اس کے انگ انگ کو چوم رہی تھی۔
یاتریوں کی ملی جلی آوازوں کے شور سے ،روپا کے خیالات پھر ٹوٹے۔ دیکھا کہ گاؤں کے راستے سے یاتری ، اپنے اپنے ہاتھوں میں قندیل لئے ، دیوی کے درشن کو جارہے تھے۔اور اس گھنے اندھیرے میں جگنوؤں کا قافلہ ، یاتریوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ یاتریوں کے لبوں سے شبد ایک ساتھ پھوٹ رہے تھے
’’رام سے بڑا رام کا نام انت میں نکلا پرینام۔۔ رام سے بڑا رام کانام۔۔۔۔‘‘
روپا پھر اپنے کمرے میں آئی اور روٹھی ہوئی نیند کو منانے لگی۔نیند پھر شرارت کرتی چوپال میں جا بیٹھی۔ روپا اب اپنے جسم کے سرائے میں تبدیلی سی محسوس کرنے لگی تھی۔اور یہ تبدیلی اس کی رگوں میں بھی آہستہ سے شامل ہوگئی تھی۔ وہ بے چین بے چین سی ہورہی تھی ۔اسے خود نہیں معلوم تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ جسم کی رگیں ابلنے لگیں تھیں۔ چھاتیوں میں کساؤ سا محسوس ہو نے لگا تھا۔ اس کے کانوں میں منڈیر پہ بیٹھے کوؤں کی کائیں کائیں کا شور مسلسل سنائی دینے لگا ،وہ مسکرا اٹھی۔اور پھر آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر اپنے بدن کی بے قراری کو تلاش کرنے لگی اور پھرلا شعوری طور پر سیندور کی ڈبیہ سے چٹکی بھر سیندور کو، اپنی مانگ میں بھر لیا۔
اب وہ پھر بالکنی آکھڑی ہوئی ۔ چاندنی رات میں ولی بابا کا مزار خوب چمک رہاتھا ۔وہ پھر بستر تک آکرسونے کی کوشش کرنے لگی۔ بار بار کروٹیں بدلتی ،لیکن نیند ہے کہ چوپال میں کھڑے مست ،جھومتے پیڑوں سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔ بسترپر سینکڑوں سلوٹیں ابھر آئی تھیں۔ بدن اینٹھنے لگا تھا۔ بے قراری کی کیفیت بڑھتی ہی چلی جارہی تھی ۔آخروہ تھک سی گئی اور کئی گلاس ٹھنڈا ٹھار پانی اپنے  حلق سے نیچے اتارلیا ۔لیکن اسے محسوس ہوا کہ جسم میں آگ مزید بڑھ گئی ہو ۔ولی بابا کے مزارسے آتا آوازوں کا ریلا، روپا کی سماعت سے ٹکرارہا تھا ۔وہ پھر بو جھل بوجھل قدموں سے بالکنی میں آئی ۔اُسے محسوس ہوا ،جیسے چاندنی اُس کے جسم میں جذب ہو رہی ہو ۔ اُس کی نگاہ میز پہ رکھی  رنگوں کی پیالیوں پہ، جا ٹھہری۔ رنگ اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔ وہ آہستہ سے ان کی طرف بڑھی ۔ ایزل(easel) پہ لگا، بے داغ سا کاغذ، روپا کی طرح بے قرار ہوگیا تھا ۔اچانک اُس کی انگلیاں حرکت میں آئیں، بے داغ سے کنوارے کاغذ پہ آڑھی ترچھی لکیریں ابھرنے لگیں۔ روپا بس ایک بے قراری کی کیفیت میں برش کوآڑھا ترچھا کھینچے چلی جارہی تھی ۔ باربار اس کے برش رنگوں میں ڈوبتے اور رنگ کاغذ پہ منتقل ہوتے چلے جارہے تھے۔
اب روپا آخری ٹچ (Final Touch)تصویر کی آنکھ میں دے رہی تھی ۔ وہ تصویر کی آنکھ میں کتھئی رنگ کو اور گہرا کرنے لگی اور پھر دور ہوگئی اور بھرپور نظروں سے ، کاغذ پہ دیکھا ، بے داغ سے کاغذ پر اب ایک گھوڑا نمودار ہو چکا تھا۔
وہ تھک سی گئی اور بستر پہ لیٹ گئی۔ بابا ولی کے مزار سے مسلسل طبلے کی تھاپ اور آوازوں کا ریلا کمرے میں داخل ہورہا تھا۔
’’چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں ملائی کے
نیناں ملائی کے ہاں سپنوں میں آئی کے
بلی بلی جاوں میں تورے رنگ رسیا
دھانی چنر رنگ لی توہسے نیناں ملائی کے‘‘
اس نے بے قراری کی کیفیت سے تصویر کو دیکھا تو روپا کی نظریں گھوڑے کی کتھئی آنکھ میں اٹک کر رہ گئی۔
طبلے کی تھاپ مسلسل جاری تھی۔
دَھاگے – ناتی – -ناک- دِھِن
اُسے محسوس ہو رہا تھا ،جیسے گھوڑے کی کتھئی آنکھ میں، دیپک کی آنکھ اُگ رہی ہو۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھوڑا دوڑنے لگا۔ تیز ۔۔۔۔ اور تیز ۔۔۔۔اور۔۔۔ تیز ۔۔۔
طبلے کی تھاپ بھی مسلسل جاری تھی۔
دَھَا۔۔ گے۔۔نا۔۔تی۔۔ نک۔۔دِھن دَھَا۔۔گے۔۔نا۔۔تی۔۔ نک۔۔دِھن دَھَا۔۔گے۔۔نا۔۔تی۔۔ نک۔۔دِھن
اچانک جسم کی تمام رگوں نے اپنا منہ کھول دیا ۔اور جسم کے باندھ سے ایک شرارہ سا پھوٹ پڑا۔ پیالۂ ناف کے ذرا نیچے سفید سفید چاندی بہنے لگی ۔ باہر شبنم نے تمام ہی منظروں کو بھگو کررکھ دیاتھا۔اور نیند تبھی آنکھوں کے دریچوں پہ تھرتھرکانپتی ہوئی آئی۔
جب وہ پوری طرح بھیگ چکی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply