پولیس والا غنڈہ ۔۔۔ عزیز خان

پولیس اور عوام کے درمیان نفرت کی کہانی بہت پرانی ہے برصغیر پاک و ہند میں جب انگریز کی حکومت بن گئی تو اُسے لوگوں پر حکمرانی کے لیے غدار وطن جاگیرداروں کے علاوہ جنہیں سر کا اعزاز ملا ایک ایسی پولیس چاہیے تھی جن کے ملازمین کو تو ڈرا کے رکھا جائے مگر عوام کے لیے دہشت کی علامت ہوں۔۔

تھانہ کی عمارت بھی اس طرح کی بنائی جاتی تھی  کہ سُرخ رنگ بلڈنگ اندر  داخل ہوتے ہی دونوں طرف حوالات جس میں سے حوالاتیوں کے بدن سے اُٹھتی بدبو،گیٹ پر کھڑے سنتری صاحب کی بد تمیزی اور آخر میں محرر کی بے حسی۔۔ آدمی ویسے  ہی خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ایس ایچ اوکی خدمت میں پیش ہونے سے پہلے ہمت جواب دے جاتی ہے۔

چنانچہ مقابلے  کے امتحان کے نام پر اپنے انگریز افسران اور ماتحتوں ، مقامی افراد کو بھرتی کیا گیا اور اُنہی  سے ظلم کروائے جاتے تھے اور وہی پولیس  کا قانون  جو 1861میں بنا تھا آج بھی اُسی طرح موجود ہے۔

پولیس کی ملازمت سے پہلے بطور سٹوڈنٹ لیڈرجلوس میں پولیس کی مار بھی کھائی ،دوران ملازمت اور پہلے پاک فوج کے جوان کی عزت بھی دیکھی اور اُسی طرح پولیس کانسٹیبل کو بے عزت اور جوتے کھاتے بھی دیکھا۔اور سوچنے پر مجبور ہوا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک ماں جب کسی فوجی جوان کو دیکھتی ہے تو بولتی ہے وہ دیکھو بیٹا پاک فوج کا جوان اور اگر پولیس والا جا رہا ہو گا تو “ماما چھلڑ “جیسی آوازیں سُننے کو ملتی  ہیں ۔

جیسا کہ میں شروع میں لکھ چکا ہوں ،پولیس کو ہمیشہ دہشت کی علامت بنا کے پیش کیا گیا اور آج بھی وہی حالات ہیں۔۔۔سیاستدانوں نے ہمیشہ پولیس کو اپنے مکروہ کاموں کے لیے  استعمال کیا اور پھر پولیس نے بھی ساتھ ساتھ اپنے کام شروع کر دیے اور رشوت بازاری عام ہوگئی۔ہر کام میں پیسہ لینا ضرورت کے ساتھ عادت بھی بن گیا۔۔

پولیس ملازمین  کے نام ہلاکو خان، جابر خان ٹک ٹک ، ڈانگاں والا بھی رکھے گئے، جتنی زیادہ بڑی موچھیں اُتنی زیادہ دہشت اور مشہور ہوئے، انہیں ملازمین  کو پیسوں کی ریکوری جھوٹے مقدمات اور ناجائز قبضوں کے لیے استعمال کیا گیا۔

پولیس کے محکمہ میں کوئی بھی مقدمہ درج کروانا عام آدمی کے لیے  بہت مُشکل ہے آسمان سے تارے توڑنا آسان ہو گا پر عام آدمی مقدمہ درج نہیں کروا سکتا۔

اس کی ایک مثال میرے بڑے اچھے مہربان انصاری صاحب ہیں جن کی مجھے کال آئی کہ کُچھ دن قبل دوران نماز جنازہ میری جیب میں سے کسی نے میرا آئی فون  چوری کر لیا  سی سی ٹی وی  کے ذریعے میں نے چور بھی تلاش کر لیاایس ایچ او شاہ رکن عالم میرا مقدمہ درج نہیں کر رہا میں نے 8787 پر بھی اطلاع دی مگر کُچھ نہیں ہوا۔
میں نے ایس ایچ او کو کال کی تو اُنہوں نے بڑی عزت سے بات کی پر مقدمہ درج نہ  ہوا، میں نے حجت تمام کرتے ہوئے ڈی ایس پی نیو ملتان اور SP صاحب جو میرے بیچ میٹ ہیں کو بھی عرض کیا بڑی مُشکل سے دو ماہ بعد مقدمہ تو درج ہو گیا مگر آج تک نہ ملزمان گرفتار ہوئے نہ برآمدگی ہوئی۔

میں حیران ہوں اگر میرا یہ حال ہے جس نے اس محکمہ کو اپنی زندگی کے 37 سال دیے ایک مقدمہ درج کرانے میں دو ماہ لگ گئے تو ایک عام آدمی کی اوقات ہی کیا  ہے۔

اس بات کا مجھے انتہائی دُکھ ہے اور میں انصاری صاحب سے بھی شرمندہ ہوں ۔مجھ سے بھی اس محکمہ میں کوتاہیاں غلطیاں ہوئی ہوں گی ،پر پولیس ملازمین  کی اتنی بے حسی میں نے پہلے نہ دیکھی تھی

اقتدار میں سیاستدان کسی بھی ڈپارٹمنٹ کا کوئی آفیسر یا پولیس کا کوئی بھی عہدہ دار جب اپنی کُرسی پر برجمان ہوتا ہے تو خود کو فرعون سمجھتا ہے مگر اُسے نہیں معلوم یہ سب عارضی ہیں اقتدار کا نشہ ہے ہی ایسا جب اُترتا ہے تو احساس ہوتا ہے۔۔

سیاسیات میں پڑھا تھا انسان ایک معاشرتی حیوان ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے اس طرح یہ کرپٹ لوگ بھی ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے کرپشن کی اس زنجیر میں سب کڑیوں کی طرح ہے۔۔چوری ڈکیٹی کے مقدمات درج نہ کرنا کُچھ توڈی پی او کی پالیسی ہوتی ہے اور کُچھ ایس ایچ اواپنے علاقہ میں ہونے والے جرائیم میں اخفا کرتا ہے اور مقدمات درج نہیں کرتا تاکہ میٹنگ میں اُس کی بے عزتی نہ ہو۔آئی جی آفس اور اوپر تک سب اچھا کی رپورٹ جا سکے اور ان جعلی فگرز کو بنانے اور بنوانے میں سب ہی ملوث ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تمام ملازمین پولیس کے مسائل اپنی جگہ مگر تھانہ پر یا آفس میں آئے سائلین کو بے عزت کرنا اُن کی بات نہ سُننا غلط ہے، میرا اپنا تجربہ ہے کہ سائل کی صرف بات تسلی سے سُننے سے اُس کی تسلی ہو جاتی ہے۔اور پولیس والے نے مددگار بننا ہے، لوگوں کی مدد کرنی ہے اُن کے جان ومال کی حفاظت کرنی ہے۔۔۔غنڈہ نہیں بننا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply