ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔رفعت علوی/قسط1

نوٹ: اس کہانی کا مرکزی خیال بچپن میں پڑھی گئی ایک کہانی سے لیا گیا ہے!

خونخوار ڈوئچے ڈوگے کی وحشیانہ غراہٹ اور بھونکنے کی آوازیں قریب آتی جا رہی تھیں ، برف کے ذرے چھوٹے چھوٹے سفید گولوں میں  گھومتے ہوئے آتے اور بالوں پر جم جاتے، حد نظر سفید برف  کی چادر  ہر طرف بچھی تھی، کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، آزادی، آرام سکون اور زندگی کو ہ  آلپس کے اس برف پوش کوہسار کے پیچھے تھی ،جہاں سرخ کھپریل والے گھر تھے، چمنیوں سے نکلنے والا گرم گرم کالا دھواں تھا، آتشدان سے گرم کمرے تھےاور بھاپ اڑاتی کالی کافی کی مہک تھی،۔۔

میں نے اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیری اور پھیپھڑوں میں ہوا بھر کر پوری قوت سے اندھادھند بھاگتے ہانپتے برفیلے ٹیلے پر چڑھنے کی کوشش کی۔۔ قریب ہی کہیں رائفل کھڑکھڑائی اور سیٹی کی آواز آئی،

میں اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ سیٹی کتوں کے سیدھی راہ پر لگ جانے کے موقع پر ان کے ٹرینر بجاتے ہیں، مشین گنز کی آواز پھر گونجی’ گولیاں میرے سر پر سے سنسناتی ہوئی گذر گئیں، میرے پیر لڑکھڑائے، سردی اور تھکان سے بے جان کپکپاتا میرا جسم کسی سخت چیز سے ٹکرایا، میرے منہ سے ایک کراہ نکلی اور میں ہزاروں فٹ اونچے پہاڑکی دوسری طرف عمیق گہرائی میں گرنے لگی۔۔۔۔۔

مجھے گرتے ہوئے بھی مشین گن کی گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور شیپرڈ کتوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی ۔ اور پھر میری آنکھ ایک سفید صاف ستھرے بستر پرکھلی۔۔ جہاں میں موت سے لڑ رہی تھی اور  زندگی سے کچھ دن اور مانگ رہی تھی، اس عالم میں مَیں نے گیبرائیل کے بارے میں سوچا جو ایک چھوٹی سی کلہاڑی سے جرمن شیپرڈ کتوں کے ساتھ لڑ رہا تھا، غنودگی اور بیہوشی کے دورانیے میں ٹھنڈے بھورے بادل میرے چاروں طرف پھیل رہے تھے، گھیر رہے تھے، میرے جسم پر کپکپی طاری تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیال خواب بن رہے تھے اور خواب بیہوشی!

ہم کسی خوفزدہ بھیڑ بکریوں کی طرح پکڑے گئے تھے اور تین دن کی برف باری اور سردی میں کھلے  ٹرکوں   میں  ٹھونس  کر رومانیہ سے پولینڈ کے عقوبت خانے میں ٹھونس دیے  گئے تھے، سفید دھند چار سو تھی، برفباری، بارش اور یخ بستہ ہواؤں کے طوفان کےباوجود ہم قیدیوں سے مزدوری کروائی جا رہی تھی، یہ پولینڈ میں جرمن نازیوں کا کنسٹرکشن کیمپ “اسٹالگ ۔ٹو۔ بی” تھا، ہمارے جسموں پہ پھٹے پرانے خستہ حال ناکافی کپڑے تھے اور زیادہ تر قیدیوں کے پیر چپل یا جوتوں سے محروم تھے، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے مشقت کے کام کرنے  کےبعد ہمیں  کیوبک نما ٹین کی چھتوں والے تاریک کمروں میں بند کردیا جاتا تھا، جہاں بدبودار پتلا شوربہ اور کھڑکھڑاتی سخت ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا  ڈنر کے طور پر ملتا، اجتماعی باتھ رومز، ٹھنڈا برفیلا پانی پینے کے لیے اور ہاتھ منہ دھونے کے لیے برف کے ڈھیلے، جو قیدی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ان کو عبرت ناک سزائیں ملتیں، ہم نے مائیکل، ایرک، اور بالشوک کو ایک ایک کرکے گسٹاپو کے فائرنگ اسکوائڈ کے سامنے تڑپتے اور جان دیتے دیکھا تھا، میں نے دل ہی دل میں اس عقوبت خانے سے فرار ہونے کا طے کر رکھا تھا اور اس کے لیے سوکھی روٹی اور پندرہ بیس دن میں ایک بار     ملنے والے خستہ حال پنیر یا  کولڈ بیف کے ٹکڑے جمع کر رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاہ جنگل ایک عفریت کی طرح چاروں اور پھیلا ہوا تھا اور میں  بھٹک رہی تھی، سرچ لائٹ کی روشنیاں ٹارچر کیمپ کے پہرے داروں کی سیٹاں، مشین گنوں کی تڑٹراہٹ اور خاردار تاروں کی باڑیں بہت پیچھے رہ گئے تھے۔۔ اور اب اس اندھے جنگل سے باہر نکلنے کا راستہ اندھیرے میں کہیں گم تھا، دور بہت دور بادل گرج رہے تھے اور میں جلد از جلد اس کیمپ سے بہت دور نکل جانا چاہتی تھی، صبح تک میرے فرار ہونے کی خبر پھیل جانی  تھی اور خو نخوار گسٹاپو کو میری تلاش میں نکل پڑنا تھا، دور کہیں سوکھے پتے چرمرائے اور کسی نازک ٹہنی ٹوٹنے  کی  آواز آئی، میں نے دم سادھ کر چیڑ  کے  گھنے  تناور  درخت کے پیچھے کھڑی ہو کر اس آواز پر کان لگا دیے، خاموشی اور جنگلی کیڑوں کی آوازیں،

پھر ایک ہلکی سی غصیلی آواز سنائی دی، کسی نے دھیمی آواز میں بلغاری زبان میں سوکھے پتوں کو برابھلا کہا، اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چاقو کے سرد دستے پر میری گرفت سخت ہوگئی، بھیگی ہوئی تاریکی میں ایک ہیولے کے آثار نمودار ہوئے،ایک طویل قامت چوڑے سینے والا شخص  ذرا لنگڑاتا  ہوا درخت کے پاس سے گزرا، وہ تیز تیز سانسں لے رہا تھا اور لمبے لمبے قدم رکھتا ہوا محتاط انداز سے چل رہا تھا،

میں سانس روکے کھڑی رہی، یہ کوئی جرمن فوجی نہیں ہو سکتا تھا، جرمن سپاہی کبھی بھی اکیلے نہیں بلکہ ٹولی کی شکل میں کیمپ سے بھاگے ہوئے قیدیوں کی تلاش میں نکلتے تھے، ٹارچ اور سدھائے ہوئے کتے ان کے ساتھ ہوتے تھے، تو  کیا یہ بھی میری طرح کیمپ سے بھگا ہوا قیدی تھا۔۔؟ میرا سانس تیز ہوگیا، میں نے اسے آگے جانے دیا ،یہاں تک کہ وہ میری نظر سے اوجھل ہوگیا!

اب میں بھی آگے بڑھی، تھکان اور بھوک سے میرے پیر بےجان ہو رہے تھے،پچھلے چھ گھنٹے سے میں بھاگ رہی تھی، آخر گھنے جنگل کے خاتمے کے آثار نظر آنے لگے، کچھ جنگلی جانور میرے قدموں کی آواز پر ڈر کر درختوں کے پیچھے غائب ہوگئے، درخت چھدرے ہوتے گئے اور اکا دکا پھولوں کے تختے میرے راستے میں آئے، آخر جنگل ختم ہوا اور ایک چھوٹی سی چڑھائی آئی جس پر ایڈیلویس کے سفید پھول پھیلے ہوئے تھے اور صنوبر کے لامبے درختوں کا سلسلہ دور تک چلا گیا تھا، خودرو ہری گھاس ہواکے جھونکوں سے لہرارہی تھی، اور سامنے سفید پوش آلپس مجھے آواز دے رہا تھا۔۔

میں بےدم ہوکر گھاس پر گرپڑی اور لیٹے  لیٹے پانی کی بوتل سے دو گھونٹ لیے، اچانک مجھے لگا کہ   میں یہاں اکیلی نہیں ہوں، گھاس سانس لے رہی ہے، دور بلند درختوں سے کوئی آنکھ میری طرف نگراں ہے، کوئی تو تھا!!!

میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر اندھیرے میں کوئی دکھائی نہیں دیا۔۔۔ اچانک دور صنوبر کے درختوں کے جھنڈ کے پاس کوئی ہلکے سے کھنکھارا، آواز بہت ہلکی تھی، میں اٹھ کر بیٹھ گئی اور وہ راستہ کاٹ کر دوسری طرف مڑ کر گھٹنوں کے بل چلنے لگی۔۔ مجھے چلنا ہی تھا ابھی آزادی خواب ‘تمنائیں’ میرا گھر اور میرے کھیت ۔۔بہت دور تھے اور دشمن سر پر تھا!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔۔

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply