• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حالات جاریہ پر اک نگہ جو بظاہر اک نگاہ سے کم ہے ۔۔۔۔ عثمان سہیل

حالات جاریہ پر اک نگہ جو بظاہر اک نگاہ سے کم ہے ۔۔۔۔ عثمان سہیل

ان دنوں درون خانہ تبدیلی کے سلسلہ میں مختلف امکانات کے بارے میں چہ میگوئیوں کا سلسہ جاری ہے۔ ان امکانات کے حقیقت میں بدلنے یا نہ بدلنے کے متعلق بہتر پیش گوئی کرنے کے لیے راز ہائے درون خانہ جاننا لازم ہے اور اس کے لیے با اثر حلقے جو فیصلہ سازی میں شریک ہوتے ہیں یا بربنائے عہدہ و تعلق کچھ دخل رکھتے ہیں، سے آشنائی چاہیے جو کہ راقم کی نہیں ہے۔ تاہم دل میں خواہش ہوئی کہ پاک سرزمین کے سیاسی حالات پر  عمومی خیالات پیش کرنے کے بہانے کچھ چوں چوں ہم بھی ضرور کریں گے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں، جمہوریت بذات خود کوئی خدائی یا انسانی تخلیق شدہ مجسم شئے نہیں ہے بلکہ یہ زبان کی تخلیق شدہ ایک شے ہے۔ چنانچہ اس کی نوزائیدگی کو نوزائیدہ انسان کے بجائے اس کو بروئے کار لانے والے/ والوں کی عمر، شخصی اوصاف، ذہانت، قابلیت و تجربہ اور معروف جمہوریت سے منسلک روایات و قوانین کے ساتھ اُن کے روئیے سے دیکھنا اور ناپنا چاہئیے۔

ہمارے موجودہ قائد ایوان عمر کے جس حصہ میں ہیں، اس میں انسان کے عادات و اطوار میں کوئی تبدیلی آنا ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر اگر خدا خوفی پیدا ہونی ہوتی تو اب تک ہوچکی ہوتی۔ واضح رہے کہ یہاں خدایان ارضی کا تذکرہ ہرگز مقصود نہیں۔ جیسا کہ آپ سب نے مجلس شورٰی کے حالیہ اجلاس کی رپورٹنگ پڑھی اور سُنی ہوگی کہ اس کا اولین مقصد کسی بھی قسم کی فوجی جارحیت یا مہم جوئی کی کوشش کے حوالے سے دشمن کو قومی یکجہتی کا پیغام دینا تھا۔ اجلاس میں ایک کم تجربہ کار بڑی سیاسی جماعت نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ دو تجربہ کار سیاسی جماعتوں کی طرف سے شورٰی کا طویل تجربہ رکھنے والے اراکین نے ایک دوسرے پر غداری کے الزامات کا پرجوش انداز میں اعادہ کرکے اپنی سیاسی بلوغت کا کماحقہ مظاہرہ کیا۔

ہمیں اس مظاہرے کو محض اس بناء پر قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ الزام بطور انکشاف سامنے آئے بلکہ اس وجہ سے کہ اس سے ہمیں صفر بٹہ صفر برابر ہے صفر کا نپا تُلا حسابی قانون جانچنے کا موقع ملا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ محدود قابلیت اور کم تر ظرف کے حامل افراد تا عمر اعلٰی دماغی صلاحیتوں سے اور اعلٰی ظرفی سے محروم ہی رہیں گی۔ اس موقعے پر قائد ایوان کا رویہ سب سے بڑھ کر غیر معقول تھا۔ جی ہاں، تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والی شخصیت، جن کو بطور رکن مجلس شورٰی گو ایک حلقہ نے چنا مگر وہ ایوان زیریں کے قائد اس ایوان سے منتخب ہوئے، چنانچہ اصولی طور ان کی جوابدہی دوہری یعنی قومی اسمبلی کے حلقہ انتخاب کے ساتھ ایوان کو بھی ہے۔ تاہم قائد ایوان خود کو ایوان نہیں بلکہ عوام کے سامنے جوابدہ ہونے کا مکلف بتاتے ہیں۔ بات تو بہت اچھی ہے لیکن عملی طور پر یہ کسی بھی قسم کی جوابدہی سے گریز ہی کا ایک چلتر ہے۔

دوبارہ سے مجلس شوری کے حالیہ مشترکہ اجلاس کی طرف نظر دوڑائیں تو قرارداد پاس ہونے کے وقت دو بڑے مظاہر سامنے آئے۔ اول سنجیدگی کا فقدان، دوم بیشتر اراکین شورٰی بمعہ ‘قائد ایوان’ کی غیر حاضری۔ اراکین کی عدم شرکت کی وجہ سمجھنا ہمارے لیے دشوار نہیں ہونا چاہیے۔ قائد ایوان جو کہ کاروبار مملکت پر اختیار رکھتے ہیں ان کی غیر موجودگی سے معاملہ زیر غور کی حیثیت کی اہمیت کمتر، بے وقعت اور غیر کارآمد ہونا مسلم ثابت ہوجاتی ہے۔ ستم ظریفی یہ بھی دیکھیے کہ مذکورہ اجلاس انہی کی طرف سے صدرمملکت کو بھیجے جانے والے مراسلے کے نتیجے میں منعقد ہوا تھا۔

اسی اجلاس کے حوالے سے یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ لیگی اراکین بمعہ قائد کی عدم شرکت کے بعد وہ دوسری پارٹیوں کو کس اخلاقی حیثیت سے عدم شرکت پر غیر سنجیدگی کا طعنہ دے سکتے ہیں۔ اس سرگزشت کا نچوڑ یہ ہے کہ منتخب ایوان میں نہ تو بامعنی مشاورت عمل میں لائی جاتی ہے، نہ ہی جوابدہی کا عمل ہوتا ہے جو اس ایوان کی بجز وزیراعظم کا انتخابی ادارہ ہونے کے کسی اور طرح سے ثمرآور ہونے پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔

بات یہیں نہی رکتی بلکہ ڈیماکریسی کے وجود اور اس کے مفید و کار آمد ہونے پر بھی سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یوروپین ڈیماکریسی کی تاریخ سے واقفیت نہ رکھنے والے قارئین کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دوسری جنگ عظیم کے اتحادی ممالک جرمنی اور اٹلی کے سربراہان حکومت بالترتیب اڈولف ہٹلر اور بنیتو مسولینی بھی سیاسی پارٹیوں کے قائدین تھے اور جمہوری عمل کے تحت منتخب ہو کر حکومت میں آئے تھے۔ حکومت سنبھالنے کے چند برس بعد ہر دو افراد نے ڈیماکریسی میں پائے جانے والے بامعنی مشاورت اور جوابدہی کے تصورات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شخصی آمریت کی بنیاد رکھی۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ دونوں شخصیات انتخاب سے پہلے فوج کے سربراہ یا جرنیل نہیں رہی تھیں۔

ہمارے ‘منتخب ‘ وزیر اعظم کی سیاست کا راقم جنرل ضیاءالحق کے دورسے مشاہدہ کر رہا ہے جسے مندرجہ بالا صورتحال سے ملا کر دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اطوار مائل بہ شخصی آمریت ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ ہٹلر قومی و ذاتی عظمت کے خبط میں مبتلا تھا جبکہ ہمارے رہنما کاروباری عظمت کے خبط میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں شمیم جے پوری کے دو شعر بطور سامان فکر ہمراہ لیتے جائیے
راہزن، رہنما، ہم سفر
الحفیظ، الاماں، الحذر
راہزنو لٹ نہ جانا کہیں
میں نے دیکھے ہیں کچھ راہبر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply