ہم نے اپنا بچپن گاؤں میں گزارا۔ گاؤں کا تصور آتے ہی ایک سحر سا چھا جاتا ہے۔ چاند کی ٹھنڈی روشنی، ستاروں کی جگمگاہٹ، وہ نورانی صبحیں، چڑیوں کی چہچہاہٹ اور کانوں میں سیٹیاں بجاتی ہوئی کوئل کی آواز، لہلہاتے سرسبز کھیت، ان پر سورج کی روشنی میں موتیوں کی طرح چمکتے ہوئے شبنم کے قطرے، دور سے سنائی دیتی ہوئی بانسری کی آواز،سبحان اللہ! دل چاہتا ہے کہ یہ مناظر کبھی نظروں سے اور خیالوں سے اوجھل نہ ہوں۔
نہ کوئی فکر نہ فاقہ، سارا گاؤں اپنا۔ ساری زمینیں اپنی، شب و روز اپنے۔
یہ گاؤں کی حسین زندگی تھی جو سادہ اور بناوٹ سے عاری تھی۔ مگر انسان تو کہیں بھی مطمئن نہیں ہے۔ وہ گاؤں سے شہر، شہر سے بیرون ملک، آگے سے آگے جانے کی کوشش میں ہے۔ لہٰذا ہم نے بھی انسانی فطرت کے مطابق آگے بڑھنے کا سوچا اور شہر کی خود ساختہ سہولیات سے مزین زندگی کو ترجیح دی اور شہر میں رہنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ شہر کا تصور آتے ہی اسلام آباد نظروں کے سامنے گھوم گیا۔ جو ہمارے خوابوں کا شہر تھا۔
ایک خوبصورت شہر، قدرتی اور تخیلاتی حسن کا مرکز جو کہ پاکستان کا دارالخلافہ بھی ہے۔ ہمیں اپنے فیصلے پر بڑا ناز تھا کہ شہر میں رہنا ہو تو اسلام آباد میں ہی رہنا چاہئے۔ آخر ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ اُونچے اُونچے پہاڑ، حسین مناظر، خوبصورت سڑکیں، بلند و بالا عمارتیں، ہم اسلام آباد کے حسن میں کھو گئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کا سوچا۔
گھر تلاش کرنے کے لیے نکلے،بہت سے گھر دیکھے۔ کچھ مکانوں میں رہے۔ بالآخر ایک معروف کالونی میں گھر بنایا۔ اور ہم یہاں ایک آئیڈیل ماحول اور سہولیات کی امید رکھتے تھے۔
گھر تکمیل کے مراحل میں تھا اور کالونی کے حالات دگرگوں نظر آ رہے تھے۔ ہر طرف کچرے کے ڈھیر، ٹوٹی ہوئی اور دُھول اڑاتی ہوئی سڑکیں۔ لیکن انسان کا تخیل اور امیدیں خوبصورت ہونی چاہییں۔ ہم ڈھیر سارے منصوبوں کے ساتھ اپنے گھر میں شفٹ ہوگئے۔ اپنے گھر کی حد تک ہم نے اپنے اختیارات سے مکمل استفادہ کیا۔ گھر کے باہر لان بنا یا، گھاس اور پودے لگائے۔ کچھ پھل دار درخت بھی لگائے۔ کوئل اور فاختہ کو بھی دعوت دے ڈالی کہ وہ بھی اسلام آباد شفٹ ہو جائیں مگر انھوں نے باغوں میں رہنا پسند کیا۔ چڑیوں کو ماحول فراہم کرنے کی پوری کوشش کی تاکہ وہ ہمارے ساتھ رہنے پر آمادہ ہو جائیں۔ چند بھولی بسری چڑیاں آئیں جو درختوں کے پتوں میں سے جھانک کر ہمیں پہچاننے کی کوشش کرنے لگیں۔ ہمارے بدلے ہوئے رنگ دیکھ کر وہ ہمیں خیرباد کہہ گئیں۔ اُدھر ہم بھی نئے ماحول کے سانچے میں ڈھل جانے کے لیے مصروف عمل تھے۔
ہم نے ہمت نہیں ہاری اور بڑی تندہی سے خواب دیکھتے رہے کہ جب تک یہاں بہت سارے گھر بن جائیں گے صاف ستھری گلیاں ہوں گی، ناقابل بیان صفائی ہوگی۔ خاکروب گلیوں اور گھروں کا کوڑا باقاعدہ لے کر جائیں گے۔ گھر کے اندر اور باہر کی فضا مہک رہی ہوگی۔ گٹروں کے اوپر ڈھکن ہوں گے۔ کہیں کوئی مسئلہ ہو گا تو پلمبر فوراً حاضر ہوجائیں گے۔ پانی، بجلی، گیس تو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ دور دراز سے مہمان آئیں گے تو ہمیں رشک بھری نظروں سے دیکھیں گے کہ ہم تو بلند و بالا اور نام نہاد سوسائٹی کا حصہ بن چُکے ہیں۔ ہم سوچوں میں اتنا گم تھے کہ چلتے چلتے اچانک کیچڑ میں پاؤں جا پڑا۔ ٹوٹی ہوئی سڑک پہ پانی کھڑا تھا۔ ہم ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ قریب سے گزرتی ہوئی دو تین گاڑیاں ہم پر گندے پانی کے چھینٹے اڑاتی ہوئی گزر گئیں۔ اپنے کپڑوں کو کیچڑ میں لت پت دیکھا تو سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ اردگرد کے ماحول کا بغور جائزہ لیا تو کچھ اور بھی مناظر نظروں کے سامنے گھوم گئے۔ کچھ کتے اور بلیاں کُوڑے کے ڈھیروں پر اپنی پیٹ پوجا کر رہے تھے۔
گیٹوں پہ رکھے گئے کوڑے کے شاپر، اس امید پر کہ خاکروب انھیں اٹھا لے جائیں گے، اب تِتر بِتر ہوۓ پڑے تھے اور کتے، بلیاں اور مکھیاں ان پر حملہ آور تھیں۔ ٹوٹے ہوئے گٹروں سے بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے۔ گلیوں میں کبھی صفائی کا تصور ہی نہیں کیا گیا تھا۔ اور تو اور زرا گلی سے نکل کر ڈبل روڈ پر پہنچیں، وہاں پر آٹو ریپئر ورکشاپس، پلمبر، مکینک ہارڈ ویئر کی دکانیں ہیں اور کہیں پر بلڈنگ میٹیریل برائے فروخت دھرا پڑا ہے۔ وہ منظر ناقابل بیان ہے۔ یہ دکانیں اس جگہ پر بنائی گئی ہیں جوجگہ سڑک کے ساتھ کالونی کی آرائش کے لیے مختص تھی۔ سوسائٹی منتظمین نے اس جگہ کو فروخت کر کے رہائشیوں کا رہا سہا سکون بھی غارت کر دیا۔ اور رش اور غلاظت الگ، جس سے جان چھڑانی مشکل نظر آرہی ہے۔
وہ کون سا اسلام آباد تھا جسکی خواہش میں ہم آئے تھے۔ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی والوں نے سوسائیٹیز پرائیویٹ لوگوں کے حوالے کر کے معصوم شہریوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اب ہم نہ تو دیہات میں ہیں اور نہ شہر میں۔
نہ گیس، نہ پانی، نہ بجلی، نہ صفائی اور نہ خوبصورتی۔
قصور ہمارے خوابوں کا ہے یا سوسائٹی منتظمین کا
جو ہر مالک مکان سے باقاعدگی سے کنزروینسی چارجز موصول کرتے ہیں کبھی سیکیورٹی کے نام پر، کبھی ماہانہ فنڈ کی شکل میں اور کبھی یہ ادا نہ کرنے پر جرمانے کی صورت میں۔
عوام کا پیسہ کھا کھا کر ان کے پیٹ پھٹنے کو تیار ہیں مگر ان کی ہوس بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ ممبران مکانوں کے مالکان سے لاکھوں روپے وصول کر کے گلی کے جس بھی پلاٹ کو چاہیں کمرشلائز کر دیتے ہیں۔ یہ سوسائٹی کے مستقل منتظمین ہیں بغیر الیکشن کے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سارا پیسہ کہاں جاتا ہے، جو عوام پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ بلاشبہ یہ پیسہ ان کے پیٹ کا ایندھن بھر رہا ہے، ان کی جائیدادوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایسی سینکڑوں رہائشی کالونیز اور سوسائٹیز ہیں جہاں مکین مسکینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مارے گئے، لُوٹے گئے، حق سے دستبردار ہوۓ، ہر حال میں خاموش ہیں۔ اندر ہی اندر کوستے رہتے ہیں، آواز بلند نہیں کرتے۔ اگر کبھی کسی نے فنڈز ادا نہ کرنے کی احتجاجاً صدا بلند کی تو اس کو پانی بند کرنے کی دھمکی دے دی جاتی ہے۔
ہم اپنے آپ کو جھوٹی تسلّیاں دے رہے ہیں کہ شاید کبھی ان ممبران منتظمین کے ضمیر جاگ جائیں ، یا اچانک سے حب الوطنی کا جذبہ عود کر آئے کہ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہو، یا خوف خدا طاری ہو جائے۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو عوام کے اندر اتنی بیداری آ جائے کہ وہ ان کی حکومت کا پانسہ پلٹ دیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں