اگر قوت ارادی اور خلوص نیت ھو تو پاکستانی ریاست اب بھی دھشت گردی پر قابو پا سکتی ہے۔ دھشت گردی پر قابو پانے کیلئے اور باتوں کے علاوہ دھشت گردوں کی مالی امداد اور ذرائع آمدن بند کرنے ھونگے۔ دھشت گردی کی وسیع نیٹ ورک کو حرکت میں لانے کیلئے دستیاب مالی وسائل کو کنٹرول کرنا ھوگا۔ عسکریت پسندوں کے مالی وسائل میں سے ایک روایتی طریقہ عوامی سطح پر چندہ جمع کرنے کا ہے۔ بقر عید پر قربانی کی کھالیں ، رمضان میں زکوٰۃ اور عیدالفطر کے موقع پر فطرانہ بطور عطیہ یا صدقہ جمع کرنا بھی عسکریت پسندوں کے ذرائع آمدن کا ایک حصہ ہے۔ ماضی قریب تک ریاست نے ان موقعوں پر عسکریت پسندوں کو چندے اور عطیات جمع کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔ مگر سال گزشتہ سے قومی منصوبہ عمل کے تحت اور اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر کھالیں جمع کرنے پر کڑی نظر رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امسال کھالیں جمع کرنے کے عمل کو بہتر انداز میں ضابطے کے تحت لانے اور کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں سندھ اور پنجاب میں کھالیں جمع کرنے پر کچھ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ جبکہ پختونخوا اور بلوچستان میں اتنی سختی دیکھنے میں نہیں آرہی۔
قربانی کی کھالوں سے آمدن عسکریت پسند تنظیموں کی آمدن کا ایک اھم ذریعہ ہے ۔ امسال بھی عید قربان کی آمد پر مختلف عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے کھالیں جمع کرنے کیلئے تشہیری مھم شروع کی گئی۔ قومی منصوبہ عمل میں دھشت گرد تنظیموں کو فنڈز روکنے کی بات کی گئی تھی مگر اس سلسلے میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ھوئی۔ کراچی میں آپریشن اور کوئٹہ اور مردان وغیرہ کے دھشت گردی کے واقعات کے بعد ریاستی اداروں کو اس منصوبے کی یاد ستائی اور ساتھ میں دھشت گردوں کو فنڈنگ کا مسلہ بھی یاد آیا۔ اور اس فنڈنگ کو روکنے کیلئے نئی کوششیں شروع کی گئیں ۔ ھر سال پاکستان میں لاکھوں مویشی سنت ابراہیمی کے اتباع میں قربان کیے جاتے ہیں ۔ پاکستان ٹینرز ایسو سی ایشن کے مطابق امسال 15 ارب روپے کی مالیت کے مویشیوں کی قربانی متوقع ہے ۔ اور قربانی کی کھالوں سے تقریباً 3 سے 4 ارب روپے کی آمدن متوقع ہے جبکہ پچھلے سال یہ آمدن 6 سے 7 ارب روپے تھی ۔ اس سال کھالوں کی قیمت کافی کم ہے جس کی وجہ سے کھالوں سے ھونے والی مجموعی آمدنی بھی متاثر ھوگی۔ قربانی کے کھالوں کو بطور عطیہ یا صدقہ جمع کرنے کیلئے مختلف رفاعی اداروں کے ساتھ ساتھ مدارس ، مختلف مذھبی جماعتیں اور عسکریت پسند تنظمیں بھی سرگرم عمل ھو جاتی ھیں ۔ ماضی میں کوئی روک ٹوک نہ ھونے کی وجہ سے بلکہ ریاست کی سرپرستی سے ان اربوں روپے کی آمدن کا اچھا خاصہ حصہ عسکریت پسند تنظیموں کو بھی مل جاتا تھا۔
اس مقصد کیلئے عید قربان سے پہلے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا مھم چلائی جاتی ہے اور کھالیں جمع کرنے کیلئے وسیع نیٹ ورک بروئے کار لایا جاتا ہے۔ عرصہ دراز سے کام کرنے والی تنظیموں نے اپنا ایک حلقہ اثر بنایا ھوا ہے اور ان کو باقاعدگی سے وہاں سے کھالیں ملتی ہے۔ بیرونی دباؤ پر بعض عسکریت پسند تنظیموں پر پابندی لگا تو دی گئی مگر ان کو دوسرے ناموں سے کام کرنے دیا گیا۔ کچھ تنظیموں نے تو رفاعی ادارے بنا کر اپنے آپ کو کیمو فلاج کرنے کی کوشش کی۔ مگر ابھی تک ان کے عطیات جمع کرنے والے بینرز اور پوسٹرز پر جہاد کی عکاسی ھوتی ہے۔
پنجاب میں کھالیں جمع کرنے کیلئے ضلعی انتظامیہ سے این او سی لینا پڑتا ہے اور کھالیں جمع کرنے کیئے کیمپ لگانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ این او سی کیلئے درخواست کے ساتھ کالعدم تنظیموں سے لا تعلقی کا بیان حلفی بھی جمع کرانا پڑتا ہے۔ اس طرح آمدن اور خرچ کا ریکارڈ بھی دینا پڑتا ہے۔ پنجاب حکومت نے این او سی کے اجرا میں سختی سے کام لیا ہے ۔ ابھی تک 108 مدارس اور 9 این جی اوز کو این او سی ملا ہے ۔ پنجاب حکومت نے 63 کالعدم عسکریت پسند تنظیموں پر کھالیں جمع کرنے کی پابندی لگائی ہے اور ان کی فہرست متعلقہ ضلعی حکام کو بھیجی گئی ہے۔ جس سے کسی حد تک کھالوں سے عسکریت پسندوں کی آمدن پر کچھ اثر پڑا ہے۔ مگر پنجاب کے بعض علاقوں میں اچھے عسکریت پسندوں مثلا ان رفاعی تنظیموں جن پر کالعدم لشکر طیبہ سے تعلق کا شبہ کیا جاتا ہے، کو کھالیں جمع کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ پنجاب میں فلاح انسانیت فاونڈیشن سب سے زیادہ کھالیں جمع کرتی ھیں ۔ اس فاونڈیشن نے 2013 میں ایک لاکھ کھالیں جمع کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیا تھا۔
پنجاب کی نسبت سندھ میں کھالیں جمع کرنے کا معاملہ کسی حد تک مختلف ہے ۔ چونکہ سندھ خاص کر کراچی قربانی کی کھالیں بزور چھینے کیلئے مشہور ہے ۔ اسلئے امسال یہاں غیر قانونی طور پر کھالیں جمع کرنے کی عمل کی روک تھام کیلئے سخت انتظامات کیئے گئے تھے۔
متحدہ قومی موومنٹ کی آمدن کا ایک اچھا خاصا ذریعہ عید الفطر کے موقع پر فطرانہ اور زکوۃ اور عید قربان کے کھالوں سے آمدن اور عطیات ھوا کرتی تھی ۔ ایم کیو ایم نے قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا آغاز 1985 کے بعد سے کیا تھا۔ اور لیدر انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق وہ پچھلے کئی سالوں سے ھر سال تقریباً ایک لاکھ کے قریب کھالیں جمع کرتی تھی۔ اور یہ عمل گزشتہ دو سال سے آپریشن کی وجہ سے بری طرح متاثر ھوا ہے۔ پارٹی کو لندن سے باقاعدہ اس موقع پر چندے کا ٹارگٹ ملتا تھا لیکن اب پارٹی اس ٹارگٹ کو پورا کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ یہ عطیات بانی تحریک ، لندن سیکریٹریٹ اور دیگر اوورسیز کاموں کا خرچہ پورا کرنے کا بڑا ذریعہ تھے۔ اگرچہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے رسمی طور پر کھالیں جمع نہ کرنے کا اعلان کیا ہے مگر بعض حلقوں کی جانب سے غیر روایتی طریقوں سے کھالیں جمع کرنے کی کوششیں کی گئ ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم زیادہ کھالیں جمع کرتی رہی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق ماضی میں عید قربان پر کراچی میں 60 سے 70 فیصدی کھالیں ایم کیو ایم اکٹھی کرتی تھی۔
کھالوں کے جبری چھینے کی وارداتوں کو روکنے کیلئے سندھ میں عید کے تینوں دن غیر علانیہ ایمرجنسی قائم کی گئی تھی۔ کھالیں جمع کرنے کیلئے اجازت نامہ لازمی قرار دیدیا گیا تھا۔ کھالیں جمع کرنے کیئے بینرز اور کیمپ لگانے پر پابندی جبکہ کھالیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیلئے بھی اجازت نامہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اور کھالیں جمع کرنے والے اداروں سے کھالوں سے حاصل آمدن اور خرچ کا حساب کتاب لیا جائیگا۔ غیر قانونی طور پر کھالیں جمع کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ان کو چوری چھپے کھالیں دینے والے افراد کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت کے جرم میں گرفتار اور مقدمات بنانے کے احکامات جاری کیے گئے ھیں۔ پچھلے سال سندھ میں 800 کے قریب مشکوک افراد کو کھالیں چھینے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
سندھ اور پنجاب حکومت کے موثر انتظام اور حکمت عملی سے غیر قانونی طور پر قربانی کی کھالیں جمع کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ھوئی ہے اور زیادہ تر شہریوں نے اپنی مرضی اور کسی دباؤ کے بغیر رفاعی اداروں اور مدرسوں کو قربانی کی کھالوں کا عطیہ دیا۔ سندھ میں مدارس اور رفاعی اداروں کی آمدن میں پچاس سے دوسو فیصد تک اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
لاھور میں بغیر اجازت قربانی کی کھالیں جمع کرنے کیلئے قائم پچاس کیمپ اکھاڑ دیے گے اور چودہ مقدمات قائم ہوئے۔ کراچی کے بعض علاقوں میں پابندی کے باوجود ایم کیو ایم کی لیاقت آباد ، نیو کراچی ، نارتھ کراچی اور ملیر وغیرہ سے چھپ کر موٹر سائیکلوں کے زریعے کھالیں جمع کرنے کی اطلاعات ھیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی کراچی میں شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے اور تیس سال بعد پہلی بار لوگوں نے مرضی سے کھالوں کا عطیہ دیا ہے ۔ کھالیں چھیننے کا کوئی بڑا واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں عسکریت پسند تنظیمیں باقاعدہ گاڑیوں پر لاوڈ اسپیکر لگے شہر میں کھلے عام قربانی کی کھالیں عطیہ یا صدقہ کے طور پر دینے کے اعلانات کر رہی تھی۔ مثلا ضلع دیر میں البدر مجاہدین ، جماعت دعوۃ اور حزب المجاھدین کھلم کھلا کھالیں اکٹھی کرنے کیئے بھرپور عوامی مھم چلا رہے تھے ۔ ایک مقامی سماجی کارکن ابراش پاشا نے عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے کھلم کھلا کھالیں جمع کرنے کی مھم کی تصدیق کی اور کہا کہ صرف ان کے ضلع دیر بالا سے عسکریت پسندوں کو اس مد میں پانچ سے آٹھ ملین روپے تک آمدن کا امکان ہے۔
دوسری طرف ذمہ دار شہریوں میں قربانی کی کھالوں سے حاصل آمدن کے دھشت گردی کیلئے استعمال کے حوالے سے تشویش اور تحفظات موجود ھیں جس کا وہ مختلف طریقوں سے اظہار کیا۔ بعض علاقوں میں شہریوں کی جانب سے قربانی کی کھالوں کا عطیہ سوچ سمجھ کر دینے کے پوسٹرز بھی لگائے گئے تھے۔ اور سوشل میڈیا پر بھی باشعور شہری کھالوں کا عطیہ احتیاط سے دینے کے مشورے دے رہے تھے اور یہ پوسٹ کہ ” کسی مذھبی جماعت یا مدرسے میں قربانی کی کھال دینے سے پہلے اس بات کا اطمینان کر لیں کہ کہیں یہ کھالیں آپکی بچوں کی کھالیں ادھیڑ نے کے کام نہ آجائے ” سوشل میڈیا میں بہت زیادہ مقبول ھوا ۔ اس طرح بعض شہری عسکریت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کی نشاندہی کر رہے ھیں ۔ اور ان کے پوسٹرز وغیرہ کی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال کر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ھیں ۔ سوشل میڈیا پر آجکل حزب المجاہدین ضلع دیر کے ایک پوسٹر کا چرچا ہے جو اس کی قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی تشہیری مھم کا حصہ تھا ۔ پوسٹرز پر کشمیر، فلسطین ، افغانستان ، عراق اور برما میں مسلمانوں پر ظلم کی کچھ تصویریں دی گئی ھیں اور پھر کہا گیا ہے کہ حزب کے مجاہدین ھر میدان میں ان کے مقابلے کیلئے موجود ھیں اور ان کو عطیات اور خاص کر قربانی کی کھالیں دینے کی اپیل کی گئی ہے۔ اور رابطے کیلئے تین ذمہ داران کے نمبر تک دئیے گئے ھیں ۔
چندہ ، زکوۃ اور قربانی کی کھالوں سے ھونے والی آمدنی کو عسکریت پسندوں کے ھاتھوں میں جانے سے روکنے اور اس کی اندرون ملک اور بیرون ملک دھشت گردی کیلئے استعمال کو روکنے کےلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک میں یکساں پالیسی نافذ کی جائے اور پالیسی اور متعلقہ قوانین پر بلا استثنی سختی سے عملدرامد کو یقینی بنایا جائے ۔ دھشت گردی کے فنڈنگ کے کثیر ذرائع ھیں۔ ان سب کی نشاندہی اور سدباب ریاست کی ذمہ داری ہے۔ قربانی کی کھالوں کو غیر قانونی طور پر جمع کرنے کے رحجان کی حوصلہ شکنی کیلئے اٹھائے گئے حالیہ اقدامات نے ثابت کیا کہ اگر قوت ارادی اور نیک نیتی موجود ھو تو دھشت گردی کے باقی مالی ذرائع پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
اب دنیا گلوبل ویلیج ہے ۔ امریکہ میں ایک اھم قانون سازی زیر غور ہے جس کے تحت گیارہ ستمبر میں ہلاک ھونے والے افراد کی لواحقین سعودی عرب سے ھر جانے کا دعوی کرسکتے ھیں ۔ حالانکہ اس واقعے میں سعودی حکومت کا براہ راست کوئی رول نہیں جبکہ ملزمان میں اکثریت سعودی باشندوں کی تھی۔ اگر یہ روایت قائم ھوگئی اور اس کا دائرہ دیگر ممالک تک پھیلایا گیا تو بات ھماری دھلیز تک بھی پہنچ سکتی ہے ۔ اس لئے بدلتی ھوئی دنیا کے تقاضوں اور شرائط کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ دھشت گردی چاہے جہاں ھو جس شکل میں بھی ھو اس کی حمایت کے بجائے اس کی مذمت ھونی چائیے ۔ دھشت گردی ایک عالمی عمل بن چکی ہے اور اس کی روک تھام کسی ایک ملک کے بس میں نہیں، اسلئے اس کی انسداد کیلئے قومی کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی سطع پر بھی مشترکہ اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں