رابندر ناتھ ٹیگور اور نوبل انعام ۔۔۔۔ عمران شاہد بھنڈر

رابندر ناتھ ٹیگور نے ایک ایسے خاندان میں جنم لیا جس کا شمار ہندوستان کے چند انتہائی بااثر خاندانوں میں ہوتا تھا۔ ان کے دادا دوارکا ناتھ کے ملکہ وکٹوریہ سے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ ہندوستان اور برطانیہ کے درمیان روابط میں ٹیگور خاندان سلطنتِ برطانیہ کے لیے انتہائی اہم ’خدمات‘ سر انجام دیتا رہا ہے۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے رابندرناتھ ٹیگور نوبل انعام حاصل کرنے والے پہلے غیر مغربی لکھاری ہیں۔ ان کا شمار بہرحال نوبل انعام حاصل کرنے والی متنازع شخصیات میں ہوتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ ان کو نوبل انعام دیا جانا مغرب میں متنازعہ مسئلہ بنا ہے، بلکہ اس لیے کہ ان کی فکری وعلمی اور ادبی وفنی حیثیت کے بارے میں اہم ترین مغربی فلسفیوں اور ناقدین کے کچھ اس طرح کے خیالات اور تجزیات سامنے آئے ہیں  اور ان کو نوبل انعام ملنے کی داستان اتنی عجیب و غریب ہے کہ ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا صرف یہی جواب سامنے آتا ہے کہ ٹیگور کو انعام دیا جانا ان کی ادبی و فنی حیثیت کے برعکس سیاسی پالیسی کا حصہ تھا۔222

پیغام یہ تھا کہ انگریز ہندوستانیوں کو ویسا ہی اطاعت گزار، روحانیت پرور، مزاحمت اور ارتعاش سے یکسر عاری ، انقلابیت کے جوہر سے محروم اور عدم فعالیت کا نمائندہ دیکھنا چاہتے ہیں جیسا ٹیگور نے ’گیتانجلی‘ میں انہیں پیش کیا ہے۔ ٹیگور کے نوبل انعام کا واقعہ متحیر کردینے والاہے۔ مغرب میں تو اسے کئی بار دہرایا گیا ہے مگر اہلِ اردو کے لیے شاید اس میں کچھ نیا پن ہو۔ ہوا یوں کہ 1912 میں ٹیگور اپنی سو سے زیادہ نظمیں لے کر، نوبل انعام کے حصول کی خواہش کے ساتھ ، برطانیہ پہنچے۔ وہاں ان کی ملاقات برطانوی مصور ویلیمز روتھنسٹائن کی وساطت سے آئرلینڈ کے قوم پرست شاعروالٹر برٹن ییٹس سے ہوئی۔ ییٹس نے انکی نظمیں پڑھیں اور اپنے قلم سے ان کے کئی حصوں پر نشانات لگا کر ان کو ’بہتر‘ بنایا ۔ ییٹس کے اس عمل کو ٹیگور نے تسلیم بھی کیا۔ بعد ازاں ییٹس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس نے ’’ہر دوسرے مصرعے‘‘ کو درست کیا ہے۔ ییٹس کا یہ کہنا تشکیک کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ اگران مصرعوں کو درست نہ کیا جاتا تو انہیں نوبل انعام کا مستحق قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ جن نظموں پر نوبل انعام دیا گیا تھا اگر ییٹس ان کو ’بہتر‘ نہ بناتا تو وہ اغلاط سے مبرا نہیں تھیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نظموں کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ 1913میں ییٹس نے انہی نظموں کا تعارف لکھا اور انہیں ’’گیتانجلی‘‘ کے عنوان سے ’’میک ملن پریس‘‘ نے انگریزی میں شائع کردیا ۔ اسی برس نومبر کے مہینے میں ٹیگور گیتانجلی‘ پر نوبل انعام حاصل کرچکے تھے۔ ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ییٹس نے ’گیتانجلی‘ کے نقائص کی اصلاح کیوں کی؟ ایک وہ تو بنگالی زبان سے یکسر نابلد تھا۔ اصلاح کس شے کو سامنے رکھ کر کر رہا تھا، جبکہ ان نظموں کے مترجم خود ٹیگور تھے۔ کیا ٹیگور کو انگریزی نہیں آتی تھی؟ بہرحال انگریزی میں ’گیتانجلی‘ نے وہ شکل اختیار کرلی جو ییٹس کے ذہن میں تھی۔ اس لیے نوبل انعام اس’ گیتانجلی‘ کو نہیں دیا گیا جو بنگالی میں لکھی گئی تھی بلکہ اس ’گیتانجلی‘ کو دیا گیا جو ییٹس کے قلم سے صورت پزیر ہوئی تھی۔

توجہ طلب نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ جب ٹیگور کو نوبل انعام دیا گیا تواس وقت ان کی وہی نظمیں نوبل انعام کمیٹی کے سامنے رکھی گئی تھیں جن کو ییٹس کے مشوروں سے درست کیا گیا تھا۔ ٹیگور کے باقی ’تخلیقی‘ کام سے نہ ہی ییٹس آگا ہ تھا اور نہ ہی نوبل انعام دینے والی کمیٹی کو ہی اس کی کچھ خبر تھی۔ ییٹس ’گیتانجلی‘ کے تعارف میں ہی یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کے دوستوں نے اسے بتایا ہے کہ بنگالی میں ’گیتانجلی‘ ایک اوریجنل کتاب کے طور پر سامنے آئی ہے، یعنی ’گیتانجلی ‘ کی اوریجنیلٹی ییٹس پر ظاہر نہیں ہوئی بلکہ اسے بتایا گیا ہے۔ اہم ادبی معاملات کہ جہاں نوبل انعام دیا جانے والا ہے ، ییٹس کا یہ کہنا کہ اس نے دوستوں سے سن کر ’گیتانجلی‘ کو ایک اوریجنل ’تخلیق‘ تسلیم کیا ہے، ذہن میں شکوک و شبہات کو ابھارتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیگور کو نوبل انعام ملنے کے بعد ییٹس اس کے دیگر ’تخلیقی‘ کام سے آگاہ ہوا، اور 1935 میں ییٹس ،ٹیگور کے کام کو “Sentimental Rubbish” کہہ کر مسترد کردیتا ہے۔ یعنی ایک نوبل انعام یافتہ کا ’تخلیقی‘ کام کوڑے کے ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جہاں تک’گیتانجلی‘ میں پیش کیے گئے خیالات کا تعلق ہے تو ان میں کہیں کوئی’’ اوریجنیلٹی‘‘ نہیں ہے۔ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’بھگوت گیتا‘ کا ہی دوسرا جنم ہمارے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ ٹیگور برہمن آئیڈیالوجی پر پختہ اعتقاد رکھنے والے کٹر برہمن تھے۔ انسانوں میں عدم مساوات جس کی اہم خصوصیت ہے۔ انسانوں کے مابین پہلے سے طے شدہ تفریق و امتیازجب مقدّس آئیڈیالوجی کا حصہ بن جائے تو عہد حاضر کے غالب نظریات کے مطابق فسطائیت کے زمرے میں آتی ہے۔ یہاں ’’مقدس‘‘ فسطائیت پر بحث مقصود نہیں ہے، ’گیتانجلی‘ میں پیش کیے گئے خیالات کا احاطہ کرنا ہے۔

’گیتانجلی‘ ہندو عقیدہ پرستی کا شعری تسلسل ہے۔ ’بھگوان‘ کو پیش کیا گیا خراج تحسین ہے۔ان دیکھے کی تبلیغ ہے۔شاعر کا ایک اورشاعر (بھگوان) کی عظمت کو تسلیم کرنا ہے۔ ہندو مذہبیت، جو ’’غیر ملکی غاصبوں‘‘ کے تسلط تلے کچلی جاچکی ہے اس کو ازسر نو زندہ کرنا اور استحکام بخشنا ہے۔ ہندو کے باطن میں ہندوتوا کو بیدار کرنا ہے۔ ییٹس کے الفاظ میں ایک ’’ایسی روایت جہاں مذہب اور شاعری صدیوں سے یکتا ہیں۔‘‘

’گیتانجلی‘ کو ایک ایسے وقت میں نوبل انعام کے لیے پیش کیا گیا جب مغرب جنگوں اور فسطائیت کی دلدل میں دھنستا جارہا تھا۔ اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ نوعِ انسانی کو سفاکانہ طریقے سے انسان کے نام پر قتل کرے۔ پہلی جنگ عظیم بھی 1913 ہی میں شروع ہوئی۔ جو تمام مغربی علوم کی موت کا پیغام لے کر آئی۔ یہ مغرب کے معاشی ، سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ نظام کا لازمی نتیجہ تھی۔ انصاف، مساوات، فردیت اور آزادی جیسے تصورات کو اپنے عقلیت پسند پروجیکٹ کے ذریعے عملی جامہ پہنانے کا دعویٰ کرنے والے انہی آفاقی اقدار کے نام پر ایک دوسرے کی دھجیاں بکھیر نے لگے۔ وہ وحشت و بربریت کے خاتمے کے لیے گھناؤنی نوعیت کی وحشت و بربریت میں دھنستے جارہے تھے۔

ہندوستان غلاموں کا ملک تھا، جس کی نسلوں کی ہیئت ہی ’’غیرملکی حملہ آوروں‘‘ کے عمل نے تبدیل کرکے رکھ دی تھیں۔مگراس سب کے باوجود یہاں آزادی کی تحریک برپا ہوچکی تھی۔ برطانوی سامراج کے خلاف نفرت جڑ پکڑ رہی تھی۔ جب آزادی کی حقیقی تحریکیں جنم لیتی ہیں تو انقلابیت وقت کی ضرورت بن جایا کرتی ہے۔ سلطنتِ برطانیہ سے نجات پانے کے لیے غلامانہ اذہان کو متحرک اور فعال کرنا ضروری نہیں تھا، سلطنت برطانیہ کے ہی نعم البدل ہندوستانی اشرافیہ سے بھی نجات حاصل کرنی نوعِ انسانی کی وحدت کے لیے لازمی تھی۔ تاہم ٹیگور نے ہندوؤں کی وحدت کے تصور کے تحت برطانوی سامراج سے’ مصالحت ‘کرانے کی کوشش کی۔ ٹیگور نوعِ انسانی کے مابین مساوات کے مخالف تھے۔وہ ’آفاقی‘ انسان کے تصور کو حقیقی سماجی لازمیت سے نہیں جوڑتے کہ جہاں مذہبی آئیڈیالوجی سے قطع نظر نوعِ انسانی کے مفادات یکساں ہوجاتے ہیں، بلکہ ہندو مائتھالوجی سے ابھارتے ہیں۔

مغربی سامراج کو مزاحمت کاروں کی جانب سے اس وقت فعال بنانے والی آئیڈیالوجی سے زیادہ ’روحانیت‘ کی ضرورت تھی۔ اس حوالے سے ’گیتانجلی ‘اپنے عہد کے سماجی تقاضوں سے یکسر محروم، لوگوں میں انفعالیت کو تقویت دینے کے لیے ایک مذہب پرست کے تخیل کا مجہول اظہار بن کر سامنے آئی ۔ اس میں کوئی نیا خیال، فکر کی نئی جہت، مرتعش کرنے والی آئیڈیالوجی ، یہاں تک کہ انوکھی شعری امیجری بھی موجود نہیں ہے ۔ کتاب کے تعارف میںیٹس کی بھی یہ مجبوری تھی کہ وہ کہے کہ ’’ہم اس میں موجود اجنبیت سے متحرک نہیں ہوئے، بلکہ اس میں ہمیں اپنی ہی امیج دکھائی دی ہے۔‘‘ وہ امیج جسے مغرب نے بہت پیچھے دھکیل دیا ہے، مگر ہندوستان، جو کہ ایک غلام ملک ہے وہاں اس کا احیا کیا جارہا ہے۔

’گیتانجلی‘ میں پیش کیے گئے خیالات ہندوستان اور مغربی دنیا کے لیے نئے نہیں ہیں۔ یہ خیالات تمام مذاہب کی متصوفانہ روایت کا حصہ رہے ہیں، لیکن انہیں ایک وقت پر پیش کیا جانا جب جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد ناگزیر تھی، سامراج کی مکمل حمایت کرنے کے مترادف تھا۔ گیتانجلی میں ازل، ابد، روحانیت، لامتناہیت اور ’بھگوان‘ جیسے الفاظ کثرت سے ملتے ہیں۔ بیسویں صدی کا اہم لبرل، ملحد برٹرینڈ رسل ’گیتانجلی‘ کو پڑھ کر اسے ’معنی‘ سے یکسر عاری قرار دیتا ہوئے اس کے تصورِ لامتناہیت کے بارے میں “Vague Nonsense” جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے۔

جب کوئی لکھاری کچھ عرصہ بعد اپنی ہی پرانی تحریر کو دوبارہ پڑھتا ہے تو اسے اس میں ندرت دکھائی دیتی ہے، جو حقیقی ندرت کا اظہار نہیں ہوتی، بلکہ قدامت ہی ندرت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ حالات و واقعات کے تسلسل سے اپنے ہی ماضی سے عدم شناسائی اور بیگانگی ندرت کا احساس دلاتی ہے۔’گیتانجلی‘ بھی ہندوؤں کے لیے ایسا ہی پیغام دیتی ہے۔ مسلسل غلامی کی زندگی سے ہندوؤں کا وجود اور شناخت منہدم ہوچکی تھیں۔ٹیگور کی کتاب نے ہندو مذہبی پس منظر میں اس احساسِ شناخت کو بیدار کیا، لیکن نوعِ انسانی کے آفاقی احساس کے تحت سب کچھ فراموش کردیاگیا۔ جب ہندوستان کے مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی ایک کامیاب اور مشترکہ آزادی کی جدوجہد کے لیے ضروری تھی تو ایسے میں تعصب انگیزآئیڈیالوجی کا اظہار، مختلف مذاہب کے مابین تفریق کو گہرا کرنے کے مترادف تھا۔ ہر مذہبی آئیڈیالوجی کی طرح ’گیتانجلی‘ کا کردار بھی محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔

برطانیہ میں جب ٹیگور کو نوبل انعام دینے کا سلسلہ جاری تھا تو اسی وقت ایزرا پاؤنڈ اور ٹی ایسی ایلیٹ جیسے قدرے کم فاشسٹ شعرا برطانیہ میں ایک نئی شعری تحریک کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ پاؤنڈ اور ونڈھم لیوس امیج ازم کے حقیقی بانی تھے۔ امیج ازم کا پہلا ’’منشور‘‘بھی 1913 میں ہی لکھا گیا، جس میں شامل نکات ٹیگور کی مقصدیت سے براہ راست متصادم ہیں۔پاؤنڈ اور ایلیٹ شاعری کو اس کے روایتی شعوری کردار سے منقطع کرکے ، اس میں اظہار کی بجائے عدم اظہار جیسے تصورات کو اجاگر کررہے تھے۔ عدم اظہار ایک پیچیدہ اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب شخصیت کے اظہاری پیرائے سے محفوظ رہنا اور خود کو شعری اظہاریے کے سپرد کرنا ہے۔

مغرب میں حقیقت نگاری، رومانویت اور علامت نگاری جیسی اہم تحریکوں میں سب سے اہم بات ان میں موجود مقصدیت کا تصور ہے۔ حقیقت نگاری میں تعقلات، خیالات اورتصورات کے ذریعے ’سچائی‘ تک پہنچنا اہم تصور کیا جاتاہے۔ علامت نگاری میں علامت قطعی طور پر آزاد نہیں بلکہ اس کا مقصد بھی ’سچائی‘ کو گرفت میں لینا ہے۔ رومانویت فطرت میں ایک اعلیٰ سچائی اور مقصدیت کو مضمر دیکھتی ہے۔پاؤنڈ، ایلیٹ اور آخری برسوں میں ییٹس بھی شاعری سے غیر شاعری کو حذف کرنا چاہتے تھے۔ پاؤنڈ اور ایلیٹ اس بات پر متفق ہیں کہ نظم کی ’تخلیق‘ میں یہ نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ اس میں ’کہا‘ کیا گیا ہے، بلکہ اہم چیز یہ دیکھنا ہے کہ نظم حقیقت میں ہے کیا چیز! کہنے سے اجتناب کا مطلب ہی یہ ہے کہ غالب آئیڈیالوجی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ اب کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

مغرب میں سترھویں اور اٹھارویں صدی کا روشن خیالی پروجیکٹ سفاکیت اور بربریت پر منتج ہوکر اپنے بدترین انجام کی طرف گامزن تھا۔ روشن خیالی سے باہر نکلنے کا راستہ یہی تھا کہ ’کہنے‘ سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ کہنے کے لیے وہی کچھ تھا جو پہلے ہی سے کہا جاچکا تھا۔اور پہلے سے کہے گئے کی تکرار کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ روشن خیالی میں مضمر بربریت اور سفاکیت کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔یہی وہ مقام ہے کہ جب جدید شاعری میں عدم اظہار جیسے تصورات متصوفانہ فکر کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ شخصیت سے انحراف ان تعقلات، خیالات اور مقصدیت سے انحراف ہے جس کا شخصیت تعین کرتی ہے۔تاہم شخصیت سے انحراف شخصیت ہی کا دوسرا رخ ہے۔یہ شخصیت میں مزید دھنسنے کے مترادف ہے۔ ٹیگور ’ کہنے‘ سے اجتناب نہیں کرتے، نہ ہی ’مقصدیت‘ کو ہی رخصت کرتے ہیں۔ وہ اسی متصوفانہ فکر کا اظہار کرتے ہیں جو مندروں میں سکھائی اور پہاڑوں پر عمل میں لائی جاتی ہے۔ مغربی عدم اظہار اور ہندوستانی اظہار میں محض حاکم اور محکوم قوم کی آئیڈیالوجی کا فرق ہے،حاکم سفاکیت اور بربریت کی آماجگاہ بن چکا ہے اور اب واپس لوٹنا چاہتا ہے۔ محکوم یعنی ہندوستانیوں کے پاس کوئی ایسی عقلیت پسندآئیڈیالوجی موجود ہی نہیں تھی، جس کا اظہار کیا جاتا۔ جس شخصیت کی تشکیل مغرب میں ہوئی اوراپنے بدترین انجام سے دوچار ہوئی، اس کی تخلیق ہندوستان میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹیگور نے قدیم متصوفانہ فکر میں پناہ لی۔ٹیگور کو پڑھنے سے اسی قدامت پسندی کا احساس ہوتا ہے جو کہ قدیم ہندوستانی متصوفانہ روایت کو پڑھ کر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیگور بنگالی کے علاوہ ہر جگہ قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ سیمس پیری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ٹیگور انگریزی بولنے والی دنیا میں فراموش شدہ تاریخ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply