• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دور حاضر میں والدین کی لاپرواہی ہی اولاد کی بربادی کی اصل وجہ ہے۔۔۔رمشا تبسم

دور حاضر میں والدین کی لاپرواہی ہی اولاد کی بربادی کی اصل وجہ ہے۔۔۔رمشا تبسم

اپنی  خرابیوں  کو پسِ پشت ڈال کر۔۔۔
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
موجودہ دور میں نوجوانوں کی  بے راہ روی پر سب سیخ پا ہیں۔نوجوان نسل آوارہ ،بدچلن، چور، ڈاکو، قاتل، زانی، نشئی ہر طرح کے جرم اور گناہ میں مصروف ہے۔اہلِ خانہ ان کی اس بے راہ روی کا ذمہ دار معاشرے کو ٹھہراتے ہیں۔مگر سوچنے کی بات ہے معاشرہ بذات خود کچھ بھی نہیں ہے۔ہم سب مل کر معاشرہ بناتے ہیں اور سب ہی اس میں کسی نہ کسی طرح بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔مان لیتے ہیں آج کل کے نوجوان بے راہ  رو ہیں۔جرائم میں ملوث ہیں  پرائمری سکول کے بچے ویلنٹائن پر گلاب لئے پھر رہے ہیں۔ساتویں کلاس کے بچے  گرل  فرینڈ کے لئے گھروں سے چوری کر رہے ہیں۔سکولوں کی لڑکیاں گھر جھوٹ بولنے سے لیکر  گھر سے بھاگنے کے منصوبے بنانے میں مصروف ہیں۔دسویں کلاس کے بچے عشق میں اپنی استانی کو گولیوں سے بھون رہے ہیں۔یہ نوجوان بغیر کسی ڈر خوف گلی محلوں میں سیگریٹ اور نشہ آور اشیاء  بھی استعمال کرتے ہیں ۔آج کے دور میں سات آٹھ سال کے بچے ماں باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے ہیں۔گھر سے بھاگ جانے یا خود کشی کرنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ یہ سب صورتحال بہت تشویش ناک ہے۔

آخر یہ نوجوان نسل اتنی نڈر کیوں ہے؟ان کی اس بے باکی کا ذمہ دار کون ہے؟انکی اس بے راہ روی کی آخر بنیاد کہاں سے پڑ رہی ہے؟

ان سب باتوں کے جواب ہم سب کو سوچنے ہیں  تاکہ اس بھٹکتی ہوئی نسل کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کر سکیں۔

آج کے اس پر فتن دور میں  بھی اگر کسی کو لگتا ہے کہ  ملک و قوم کی ترقی کا دارومدار نوجوان نسل پر ہے تو معذرت کے ساتھ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ نوجوانوں کے کندھوں پر ملک و قوم اور خاندان کی  ترقی کا بوجھ ڈال کر ہمارے بزرگ اور خاص طور پر والدین اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں پھیر سکتے۔ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی اور عروج کا دارومدار  معاشرے کے ہر فرد پر ہے۔اور اگر نوجوان نسل سے اتنی امیدیں وابستہ کر ہی رکھی ہیں تو اس نسل کو صحیح راہ دکھانا ،ان کی تربیت کرنا، صحیح غلط کا فرق سمجھانا صرف اور صرف ماں باپ کا فرض ہے۔ماں کی گود اولاد کی پہلی درس گاہ ہے۔اور اس درس گاہ میں اب ملاوٹ آ گئی  ہے۔دورِ حاضر میں والدین کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ  بچے پیدا کر کے ان کو وقت پر روٹی ،کپڑا ،سکول بھیجنا صرف یہی ماں باپ کی ذمہ داری رہ گئی ہے ۔اس کے علاوہ تمام ذمہ داری ماں باپ معاشرے سے پیسے کے  زور پر خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔والدین کی عدم توجہی اور پھر نت نئی ایجادات اور انکا بے جا استعمال بگاڑ کی اصل وجہ ہے۔

گزشتہ تمام تحریریں پڑھنے کے لیے نام پر کلک کیجئے۔۔۔۔۔ رمشا تبسم

دینِ اسلام میں اولاد کے جو حقوق  ہیں وہ مختصراً یہ ہیں کہ  بچے کے لئے نیک ماں کا انتخاب کرنا، ماں کے پیٹ میں اس کی حفاظت کرنا اور اسے  زندہ رکھنا۔ اور اولاد پیدا ہونے کے بعد اسکے کان میں اذان دینا۔،انکے لئے حلال رزق کا بندوبست کرنا، انکی اسلامی تعلیم و تربیت کرنا ،ان کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ رکھنا ،ان کی کوتاہی اور غلطی پر سرزنش کرنا  اور پھر معاف کر دینا،ان کو صحیح اور غلط کا فرق بتانا  ہے ۔مگر آج والدین کے فرائض صرف روٹی ،کپڑا، مکان اور تعلیم تک محدود ہو گئے ہیں اولاد کی تعلیم و تربیت سے انہیں تہذیب سکھانا اور سمجھانا  اس طرف کسی کا رحجان نہیں۔والدین اولاد کو تعلیم دینے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ  تربیت پر دھیان ہی نہیں دیتے۔اور انسان اعلی  تعلیم  یافتہ ہونے کے باوجود بھی  تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے تمام عمر جاہل ہی رہتا ہے ۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی

بچے کی تربیت ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ مگر آجکل کی عورتیں موبائل ،ٹی وی ڈرامہ، گانے بجانے میں بہت مصروف  ہیں۔سٹار پلس پر ساس بہو  کے ڈرامے دیکھ کر ہر وقت ڈرامے  کرنے میں مصروف خواتین بچوں سے بالکل بے خبر ہیں ۔ بچے کو پیدا ہونے کے بعد بھی مختلف میوزک لگا کر بہلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بچوں کو ناچ گانے پر لگا کر انکی ویڈیو بنا کر  فخر محسوس کرتی ہیں۔ایک  زمانہ تھا کہ  بچہ روتا تھا یا چوٹ لگتی تھی تو مائیں تڑپ اٹھتی تھیں  خون کے آنسو روتی تھیں ۔اور ایک آج کا دور ہے کہ بچہ اگر کسی مخصوص انداز  میں روتا ہے یا اس کو چوٹ لگتی ہے تو  سب سے پہلے ویڈیو یا تصویر بنا کر سٹیٹس لگا دیا جاتا ہے۔ باپ اولاد کو دنیا جہاں کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے دن رات محنت کرتا ہے۔مگر جس اولاد کےلئے اتنی محنت کرتا ہے اس اولاد کے پاس بیٹھ کر ان کے مسائل سننے ان سے بات کرنے کی فرصت ہی نہیں۔ کم عمری میں چوری، ریپ، نشہ، گھر سے بھاگنا اور خود کشی کے واقعات عام ہو گئے ہیں جو کہ صرف اور صرف والدین کی عدم توجہی اور تربیت کی کمی کی وجہ سے ہیں۔

آج  کے والدین نے بچوں کو سننا اور سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔دو سال کا بچہ سکول داخل کروانے کے لئے عورتیں بے تاب ہیں۔صرف اس لئے  تا کہ جتنا وقت بچے باہر رہے وہ سکون سے اپنے کام کر لیں یا سوشل میڈیا انجوائے کر لیں۔

ذرا نظر ڈالتے ہیں بچوں کے معمول اور ماں باپ کی توجہ پر۔
صبح چھ بجے جلدی میں دو تین سال کے بچوں سے لے کر تمام سکول کالج جانے والے بچوں کو جگایا جاتا ہے۔جنہیں فجر کی نماز کے لئے جگانے کا رواج ہی نہیں رہا۔اٹھنے کے بعد گھر کے کسی بڑے چھوٹے کو سلام دعا کرنے کی تلقین ہی نہیں کی جاتی۔ نہ ہی بچے کو اٹھا کر ماں باپ خود دعا سلام کرتے ہیں۔جلدی میں تیار کر کے ناشتہ کروا کر یا بغیر ناشتہ کے لنچ باکس تیار کر کے سکول بھیج دیا جاتا ہے۔ایک یا دو بجے بچہ گھر آتا ہے۔ یونیفارم تبدیل کروا کر بھاگتے دوڑتے کھانا کھلایا جاتا ہے اور قرآن پڑھنے بھیج دیا جاتا ہے۔جہاں سے واپس آتے ہی بچے کو ٹیوشن سنٹر کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔اب ماں باپ کی کوشش ہوتی ہے کہ تین بجے سے گیا بچہ کم سے کم رات سات یا آٹھ بجے گھر  آئے تا کہ گھر میں سکون رہے۔اور جیسے بچہ گھر آتا ہے روٹی کھائے یا باہر سے برگر لائے اور ٹی وی لگا کر بیٹھ جائے یا لیپ ٹاپ اور موبائل لے کر مصروف رہے مگر والدین کو تنگ نہ کرے اور نہ ہی چھٹی والے دن والدین کو تنگ کرے ،لہذا بچہ چاہے ٹی وی دیکھے یا موبائل پر جو بھی کرے مگر والدین کو  گھر میں خاموشی اور سکون چاہیے ۔اور ساتھ ہی والدین بھی وٹس ایپ،فیس بک یا مختلف قسم کےسوشل نیٹ ورک پر مصروف رہتے ہیں۔ یہ  صورتِ حال بچوں کی ایسے ہی رہتی ہے۔ کسی گھر میں سات دس لوگ ہیں سب کے پاس موبائل ہے سب سوشل نیٹ ورک پر مصروف رہتے ہیں ایک ساتھ بیٹھنے کے باوجود بھی تمام لوگ ایک دوسرے سے بےخبر ہوتے ہیں۔کوئی کسی کا حال نہ پوچھتا ہے نہ جانتا ہے۔ہر شخص فیلنگ الون سے ایٹنگ الوٹ تک کے احساسات فیس بک یا وٹس ایپ  پر سٹیٹس ڈال کر بتا رہا ہوتا ہے۔  مسلسل ڈی پی بدلنے میں مصروف  اور کمنٹس میں داد وصول کرتے یہ لوگ نہ  بحیثیت ِ والدین اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں نہ ہی  بحیثیتِ  انسان۔گھر میں موجود ماں کو سر درد کا نہ بتانے والے فیلنگ پین کا سٹیٹس لگا  کر آن لائن  ایمو جی اور اسٹیکرز کی صورت میں مختلف دوا حاصل کرنے  والے یہ لوگ حقیقت میں نہ اپنا درد کسی سے بیان کرتے ہیں نہ ہی اپنے مسائل کسی کو بتاتے ہیں۔لہذا بے حسی عروج پر ہے۔احساسات مر گئے ہیں۔وٹس اپ امیاں فیس بکی ابو انسٹاگرام اولاد یہ دورِ حاضر کی بے حس مخلوق ہیں۔اصل  زندگی میں سب سے دور اور سوشل نیٹ ورک پر  فیلنگ لو ود ڈیڑھ سو  اَدرز کرتے ہیں۔

اس ساری صورت حال میں ماں باپ کا کردار صرف یہ ہے کہ صبح جگانا ،روٹی دینا، سکول بھیجنا، مدرسے بھیجنا، ٹیوشن بھیجنا اور جب مستقبل میں بچے پڑھ لکھ جائے نوکری کرنے لگے تو انکی شادی کر دینا۔
ماں باپ دونوں کے پاس ہی اولاد کو صحیح غلط بتانے ان کے مسائل سننے اور حل کرنے کا وقت ہی نہیں۔لہذا ماں باپ اور بچے ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔بچے اب والدین سے باتیں چھپاتے ہیں۔اپنے مسائل  خود حل کرنے کی کوشش میں اکثر غلط راہ اختیار کر لیتے ہیں۔
آج اپنے ہی گھروں میں بچے اور بچیاں اپنے کزنز  چچا یا ماموں کے ہاتھوں بھی جنسی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔سکول، کالج ،مدرسے یا کسی بھی طرح  مسلسل کئی کئی ماہ جنسی درندگی اور تشدد سہتے ہیں ۔حال ہی میں معروف گلوکارہ نادیہ اقبال کے بھائی کا معاملہ سامنے آیا جو گھر ہی میں اپنی بھانجیوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا رہا تھا وقت کی کمی ،بچوں سے دوری ،بچوں پر بے اعتمادی ہی وجہ تھی کہ  ایک ماں  سمجھ نہ سکی کہ اس کے بچے کس اذیت میں ہیں۔بچہ سکول، کالج ،مدرسے ،اکیڈمی  کے کسی معاملے کی شکایت کرتا ہے تو والدین توجہ نہیں دیتے ۔اسی وجہ سے اکثر  اساتذہ کی طرف سے یا تو جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں یا جسمانی تشدد کا۔درندے ہمارے معصوم بچوں کو نشہ دے کر غلط راستے پر ڈال کر اور جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر کچل رہے ہیں اور ماں بچوں کی روٹی ،کپڑا ،تعلیم میں مصروف ہے اور والد ان ضروریات کے لئے پیسہ کمانے میں۔اور جس اولاد کے لئے والدین دن رات محنت کر رہے ہیں وہ ذمانے کی گردش میں ذندگی  اور عزت ہارتے جا رہے ہیں۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
کوئی دھواں اٹھا نہ کوئی روشنی ہوئی
جلتی رہی حیات بڑی خاموشی کے ساتھ

صرف وقت کی کمی اور بچوں سے دوستانہ تعلق کا نہ ہونا ہی وہ واحد مسئلہ ہے کہ بچے والدین سے جھجک اور ڈر محسوس کرتے ہیں اور اگر وہ معاملہ والدین کو بتا دیں تو والدین توجہ ہی نہیں کرتے۔اولاد کو مکمل آزادی کسی صورت نہیں دینی چاہیے۔والدین کا رعب بھی قائم رہنا چاہیے ۔مگر صرف اتنا جتنا ضروری ہے ۔بلاوجہ کا رعب دبدبہ غصہ آج کل بچوں کو والدین سے دور کرنے کی وجہ ہے۔والدین کو آپس میں بیٹھ کر بات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔بچوں کی تعلم و تربیت پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔اگر والد سخت مزاج ہے  تو ایسی صورت میں ماں کو اولاد کی دوست بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔اور اگر ماں سخت ہے تو والد کو بچوں کے قریب آنے کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہیے کہ  سکول ،مدرسے، ٹیوشن  سے آتے ہی بچوں سے ان کی باتیں پوچھیں  انکے دل کی بات زباں پہ لائیں اور اگر کبھی وہ غلطی پر ہوں تو بھی اچھے سے سمجھائیں تاکہ بچے آئندہ کے لئے بے خوف ہو کر ہر بات بتا سکیں۔والد جتنا بھی مصروف ہو رات کو لازمی بچوں کو وقت دے۔ان سے تعلیمی سرگرمیوں دوستوں اور ان دوستوں کے اہلِ خانہ ان کی سرگرمیاں ان کی حرکات کے بارے میں وقتا فوقتا معلومات حاصل کرے تا کہ وقت رہتے علم ہو سکے کہ بچہ کسی غلط سمت تو نہیں جا رہا۔

والدین اپنے بچوں کو پاس بٹھا کر ان سے گپ شپ نہیں کریں گےان سے دوستانہ تعلق استوار نہیں کریں گے بچوں کو صرف اچھے گریڈ لانے والا کھلونا سمجھے گے۔ ان کے مسائل نہیں سنیں گے انہیں حل نہیں کریں گے ان کی کامیابی پر حوصلہ افزائی نہیں کریں گے ان کی ناکامی پر ان کو محبت سے نہیں نوازے گے تو بچے والدین سے دور ہونا شروع ہو جائیں گے وہ محبت کے لئے متبادل راستے تلاش کریں گے خواہ وہ نشہ ہو یا کسی اجنبی کی محبت میں گرفتار ہو کر ہوس کا نشانہ بنے گے.اختر امام رضوی نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہم نے بھی زخم کھائے بڑی سادگی کے ساتھ
اک مشت خاک آگ کا دریا لہو کی لہر
کیا کیا روایتیں ہیں یہاں آدمی کے ساتھ
اپنوں کی چاہتوں نے بھی  کیا کیا دیئے فریب
روتے رہے لپٹ کر ہر اجنبی کے ساتھ

Advertisements
julia rana solicitors london

بچوں  کو والدین کے  پیسوں اور چیزوں سے  زیادہ  انکی دوستی محبت اور پیار کی ضرورت ہے جو والدین نہیں دے رہے۔ ہم سب لوگوں کو معاشرے پر الزامات لگانے سے پہلے اپنی اصلاح کرنے  کی ضرورت ہے۔والدین کو مکمل طور پر بچوں کے ہر معاملے پر نہ صرف نظر رکھنی ہے بلکہ دوستانہ ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ مسائل  کو بہتر طریقے سے حل کر سکیں۔اس معاشرے کے نشیب و فراز مسائل سے آگاہی اور اس کے اثرات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بچوں کی تربیت  بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنا ایک لازمی جزو ہے جو کہ والدین کے بڑھاپے کا بھی بہترین سہارا ہے اور ملک و قوم کی ترقی کا ضامن بھی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”دور حاضر میں والدین کی لاپرواہی ہی اولاد کی بربادی کی اصل وجہ ہے۔۔۔رمشا تبسم

  1. اسلام علیکم!
    بےراہ روی، گمراہی کے جہاں بہت سے اسباب ہیں ۔وہاں سب سے بڑا سبب والدین کی عدم توجہی،لاپرواہی بھی ہے ۔رمشا جی !آپ نے نہایت عمدگی سے اس مسئلے کی جڑ کی نشاندہی کی ہے کہ والدین کی کوتاہ نظر ۔۔۔ جو اولاد کی غلطیوں کو نظر انداز کر کے All is well دیکھاتی ہے ۔۔بے جا لاڈ پیار ،۔۔ہی ان کی بے راہ روی کا سبب ہے ۔موبائل ،انٹرنیٹ، کیبل نے جنس مخالف کی پہچان اور کشش بہت واضح کردی ہے کہ کم عمر سے کم عمر بچہ بھی واقف ہو چکا ہے کارٹون سے لے کر بچوں کے ڈرامہ،فلمیں ہر ایک میں سب سے پہلے جنس مخالف سے روشناس کروایا جاتا ہے ۔۔۔ اور والدین کی کوتاہی یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو خود وقت دینے کی بجائے میڈیا کے ذریعے بچے کی تربیت کر رہے ہیں۔۔۔کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود اولاد کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے جہاں سے زندگی کا نصب العین بنتا ہے بچے کی تربیت کا آغاز تب ہی شروع ہو جاتا ہے جب وہ ماں کی گود کا لمس پہلی بار محسوس کرتا ہے ۔۔۔ کان میں اذان کی آواز اسے اس کے مسلم ہونے کی خبر دیتی ہے ۔۔ اور یوں اس کی تربیت کی گا ڑی سبک روی سے چلنا شروع ہو جاتی ہے ۔خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب ماں بچے کو موبائل تھما دیتی ہےصرف اپنی سہولت کے لیے بچہ اگر کھانا نہیں کھا رہا تو موبائل ۔۔۔ اگر ضد کر رہا ہے تو موبائل ۔۔غرض ماں کا سکون وآرام ۔۔۔۔ بچے کے ہاتھ میں موبائل۔۔۔
    اور باپ ضروریات زندگی مہیا کر کے، اپنا فرض ادا کر کے مکمل طور پر بری الذمہ۔۔۔
    بقلم خود?
    آج کے دور کا المیہ ہے کچھ یہ
    زندگی ہو بے مثال، یہ سب اک خواب ہے
    موبائل ،انٹر نیٹ کی خرافات پال کر۔۔۔۔۔
    اپنے ہاتھوں سے کیا بند حیا کا باب ہے
    گمراہی، بے راہ روی کیوں نہ ہو عام
    اولاد کی تربیت تو اب اک عذاب ہے
    اپنی غلطیوں کا ہمیں کوئی نہیں ملال
    بری الذمہ ہیں ہم ،زمانہ خراب ہے
    ہر ضرورت زندگی پوری کرنے سے کبھی
    اولاد کی تربیت نہ ہوتی جناب! ہے
    تعلیم کے سب پہاڑ سر کرنے کے باوجود
    اس نسل میں موجود جہالت بے حساب ہے
    یہ میڈیا، یہ موبائل، یہ انٹرنیٹ او بے خبر
    تباہی کا سبب ہے، لا متناہی عذاب ہے
    اللہ عزوجل ہمیں ان گمراہیوں اور کوتاہیوں سے محفوظ رکھے آمین
    رمشا !اللہ رب العزت آپ کوہر قدم پر اسی طرح کامیابی عطا کرتا رہے۔آمین ثم آمین۔۔آپکی تحریر لاجواب ہے ۔۔آپ نےہمارے معاشرے کی زوال اور تباہی کی نشاندہی بہت عمدگی سےکی ہے ۔۔۔۔

Leave a Reply