• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہائرونوموس بوش اور جاگیرداری کے عالم نزع کی تصویر کشی(4،آخری قسط)۔۔تحریر:ایلن ووڈز/ ترجمہ: صبغت وائیں

ہائرونوموس بوش اور جاگیرداری کے عالم نزع کی تصویر کشی(4،آخری قسط)۔۔تحریر:ایلن ووڈز/ ترجمہ: صبغت وائیں

بوش نے اس زمانے کی تصویر کشی کی ہے جس میں وہ رہتا تھا اور اس نے اس کو ایک آئینے کی طرح منعکس کر دیا ہے۔ یہ زمین دوزخ کا ایک نمونہ ہے۔ لیکن مردوں اور عورتوں کی ایک بڑی اکثریت کے لیے پندرھویں صدی ویسے ہی زمین پر ایک طرح کی جہنم ہی تھی۔ یہاں عظیم الشان قسم کی تخیلاتی گہرائی ملتی ہے۔ سارے عظیم آرٹ کے طرح یہ بھی سطح پر ٹھہرنے کی بجائے انسان کی روح کے عمیق ترین گوشوں تک میں اتر کر اس کے خفیہ ترین اور بھیانک ترین خواب نکال کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ یہاں آرٹ زندگی کی نقالی ہے۔

ایک ایسی دنیا جہاں انسان بھوک کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر رہے تھے وہیں ہم ہول ناک قسم کی شکم پرستی کے نظارے دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں بھی بڑے پیمانے پر غربت اور امارت کی عدم مساوات بالکل اسی طرح سے موجود ہے جیسے ہمارے اپنے یہاں بے انصافی اور نابرابری ہے۔ حقیقت میں اس فریاد رساں ظلم و بے انصافی کی داد رسی سے خود کو معذور پاتے ہوئے بوش ان کو اپنی مصوری میں سزائیں دیتا ہے۔ ان ملعونوں کی سزاؤں کی نوعیت کو ان کے گناہوں سے نہایت قریبی نسبت ہے۔ مغرور اور ہَوس پرست عورتوں کو مینڈکوں اور چھپکلیوں کے ساتھ اختلاط میں دکھایا گیا ہے جو کہ ان کے اعضائے مخصوصہ کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ مسیحیت کے نظریے کی عورت سے نفرت کی ماہیت کاایک اظہار ہے جس کے مطابق پہلا گناہ اماں حوا کی ایجاد تھا۔ موسیقاروں کو ان کے اپنے آلات سے عذاب دیا جاتا ہے جو کہ یہاں تشدد اور ایذا رسانی کے آلات میں ڈھل چکے ہیں۔

باوجود اس کے کہ یہ حیرت ناک طور سے جدید معلوم ہوتا ہے پھر بھی ان تصاویر کی تحریک کی جڑیں ماضی کے عہدِ وسطیٰ میں ہیں۔ یہ ہمیں گِرجا گھروں کے باہر دیواروں پر شیطانوں اور گناہ گاروں کی عجیب الخلقت تصویروں کی شکل میں ملتا ہے۔ جیسے کہ حیوانی شکلوں کے پرنالوں وغیرہ پر دیکھا جا سکتا ہے (گارگوئیلز)۔ بے شک یہ قدیم آرٹ کا زندہ ترین حصہ تھا۔ لیکن اب تک جو یہ ایک ماتحت کا کردار ادا کرتا آ رہا تھا، اب یہاں یہ کھُل کر سامنے آتا ہے اور اپنی زندگی خود سے پا لیتا ہے۔

اصلاح پسندی اور ردِ اصلاح پسندی

آخر کار سن 1516ء میں بوش کو موت نے اس کے آبائی شہر سیتوغن بوش میں جا ہی لیا۔ اس کے ایک سال بعد ایک نوجوان راہب مارٹن لوتھرؔ نے وٹن برگ کے گرجے جا کر اپنے 95 مقالات اس کے دروازے پر ٹھونک دیے۔ یہ جاگیرداری کے خلاف بورژوازی کی بغاوت کا پہلا اظہار تھا، جو کہ لامحالہ مذہبی احتجاج کی صورت میں سامنے آیا۔ پروٹسٹنٹ مذہب نے اپنی بنیاد میں سرمایہ داری کی سوچ اور مفادات کی نمائندگی کی۔ دقیانوسی جاگیردارانہ نظام کو اپنے انتہا کے جنونی نمائندے ہسپانیہ کے کیتھولک کلیسا میں ملے۔

The Seven Deadly Sins and the Four Last Things
The Seven Deadly Sins and the Four Last Things

تمام یورپ اب مذہبی جنگوں کے بھیس میں چھپے انقلاب اور ردِ انقلاب کے دور میں آن پہنچا تھا۔ یہ دور اب موت کی رقص گاہ میں داخل ہونے کو تھا جس کو اگلی تین دہائیوں تک جاری رہنا تھا۔ وہ آگ جو کہ بوش کی خشم ناک متخیلہ نے جہنم بارے دیکھی تھی ہالینڈ، جرمنی اور بوہیمیا کے شہروں میں بھڑک اٹھی۔ ایسی اور کوئی جگہ نہیں جہاں مذہبی جنگیں ہائیرونوموس بوش کے مادرِ وطن کی نسبت زیادہ خونریزی سے لڑی گئیں، یہاں تاریخ کا سب سے پہلا بورژوا انقلاب ہسپانیہ کے خلاف نیدرلینڈ کی قومی آزادی کی جنگ کے طور پر روُنما ہوا تھا۔

بوش کی جانب سے دکھائی جانے والی اذیتیں بالکل اسی جیسی ہیں جو کہ ہسپانیہ کی مذہبی عدالتیں بے یارومددگار مردوں اور عورتوں کے جسموں پر مذہب کے نام پر تشدد اور ایذارسانیوں کے پہاڑ توڑتے ہوئے حقیقت میں دیتی تھیں۔ الباؔ کے خبیث ڈیوک نے جب نیدر لینڈ کی پہلی پروٹسٹنٹ بغاوت کو خاک اور خون میں لتھیڑتے ہوئے فرو کیا تو بوش کی بہت سی معروف تصاویر اپنے ہمراہ سپین لے گیا۔ سپین کا بادشاہ فلپ دوئم ایک مذہبی جنونی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مخالف صلیبی جنگوں کا سردار تھا، بوش کا ایک جوشیلا مداح تھا۔ اس نے بوش کے وہ تمام کام جو کہ اس کے ہاتھ لگے یا تو خرید لیے اور یا پھر چھین لیے، ضبط کر لیے۔ اس نے ان سب کو اپنے ایسکورئیل محل میں رکھا، جو کہ خانقاہی اور شہنشاہی طاقت کے مرکز کا عجیب ملغوبہ تھا۔
ایک میز جس کا”موٹیف“ سات کبیرہ گناہ ہیں بوش نے تصویر کَش کر کے اپنی خواب گاہ میں رکھ چھوڑا تھا جو کہ اس کے مرتے سمے تک وہیں تھا۔ وہ ایک مخفی انتباہ لیے تھا: ”خبردار، خدا دیکھتا ہے“۔ لیکن یہ بات بہرحال مشکوک سی ہے کہ فلپ بھی کچھ دیکھ پایا ہو۔ وہ نہ تو بوش کو سمجھ پایا نہ ہی اس کی تصاویر کو، جو کہ کلیسائے روم کی درندہ خوئی کی اور اس کی گھناؤنی کرتوتوں کی کھلم کھلا مذمت ہیں، جیسے کہ ایک خنزیر کی وہ ناقابلِ فراموش تصویر جس میں وہ تھوبڑے پر راہباؤں والا حجاب پہنے ہوئے ایک آدمی کو کسی دستاویز پر دستخط کرنے پر مائل کر رہا ہے، غالباً یہ راہبہ اس کو اپنا دنیاوی مال و دولت چرچ کو دان کرنے کی جانب اکسا رہی ہے۔ یہ تصاویر کلیسا کی اخلاقی گراوٹ اور اندرونی سڑاہٹ کی واضح طور پر منظر نگار ہیں۔

Detail from The Garden of Earthly Delights
”دنیاوی لذت کے باغ‘‘ پینٹنگ کی تفصیل

یہ تاریخ کا ایک حیرت انگیز مذاق ہے کہ بوش کے کاموں کی اصلاح پسندی کے مخالفوں کے قائدین کی جانب سے جوش و جذبے کے ساتھ توثیق کی گئی۔ جیسے کہ شاہ فلپ کا ’فرے ہوزے دے سیگوئنزا‘ نامی کونسلر۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بوش کی تصاویر میں کسی راہبہ یا راہب کی ایک بھی تصویر ایسی نہیں ملتی جس کو مذہب کے حق میں موافق کہا جا سکے۔ اگر تو بوش کسی چیز کے لیے راستہ ہموار کر رہا تھا تو وہ کلیسائی راج کا خاتمہ تھا نہ کہ اس کا دفاع۔ یہاں تک کہ یہ کہنا کسی طرح بھی غلط نہیں ہو گا کہ لوُتھر نے بوش ہی کے ان غیرمربوط خیالات کو ایک مربوط شکل دی تھی جن کو اس نے آرٹ میں پیش کیا تھا۔ اس لحاظ سے آرٹ تاریخ کی پیش خبری کرتا ہے۔

کچھ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بوش بھی متعدد الحادی اور بدعتی فرقوں میں سے ایک فرقے کا رکن تھا جو کہ اس زمانے میں بالکل اسی طرح سے نمودار ہوئے تھے جیسے کسی طوفانِ باد و باراں کے بعد زمین سے کھُمبیاں نکل آتی ہیں۔ ولہلم فرینجر نے اس بات کو ثابت کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ ایک منحرف مذہبی فرقے ”آدمیت“ ]Admites[ کا رکن تھا۔ وہ اک دوجے کو بھائی اور بہن کہتے تھے، اور ان میں عورت کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ وہ باغِ ارم کی مسرتوں اور درخت کا جشن منایا کرتے تھے۔ وہ آدم اور حوا کے گرائے جانے سے پہلے کی طرح ایک ساتھ عریاں ہو کر عبادات کیا کرتے تھے۔ یہ ایک انقلابی خیال تھا جو کہ بشری برابری ]Egalitarianism[ کے خیال سے لیس تھا۔ فرینجر اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ بوش کی تصاویر آدمیت کے ماننے والوں کے شعائر پر مبنی ہیں۔ تاہم، دیگر مصنفین نے اس بات سے اختلاف کیا، اور اس بات کا ایک بھی حقیقی ثبوت نہیں ہے۔

تب اور اب

بوش کو قرون وسطیٰ کے آخری مصور کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس دور کے فن کا ذکر کرتے ہوئے والٹر بوسن نے لکھا ہے:

”بر لبِ جان قرونِ وسطیٰ اپنی ابدی موت کو گلے لگاتے سمے بڑی ہی شان سے بھڑک اٹھا تھا“۔ (ہائیرونوموس بوش، سن 1450ء تا 1516ء: جنت اور دوزخ کے مابین) لیکن یہ آرٹ ہمیں ہرگز عہدِ وسطیٰ کا محسوس نہیں ہوتا۔ یہ ہم سے واضح اور ببانگِ دُھل مخاطب ہے۔ یہ محض ایک اشارہ ہے کہ اس کا سٹائل اور تکنیک خوف ناک حد تک جدید ہے۔ اس آرٹ کا اس سندیس سے گہرا رشتہ ہے جو کہ اس کے بھیتر چھپا ہے۔ یہ وہ آرٹ ہے جس کے پاس کچھ ایسا ہے جو کہ وہ لازمی طور پر کہنا چاہتا ہے۔ یہ سامنے آ کر حقیقت کو بے باکی سے دیکھتے ہوئے ہم سے مانگ کرتا ہے کہ ہم اس پر فیصلہ صادر کریں۔ یہ کتنا مختلف ہے آج کے خصی آرٹ سے جو زندگی سے بالکل کٹا ہوا ہے۔

بوش نے ایسے وقت میں مصوری کی جب سرمایہ داری اپنے بالکل ابتدا میں تھی۔ اس کا روشن دور ابھی تک مستقبل کے پردے میں چھپا پڑا تھا۔ یہ بوش کے احاطہ نظر سے باہر پنہاں رہا۔ وہ تمام واضح علامات جو اس کے سامنے تھیں یہی ظاہر کرتی تھیں کہ سماج اپنے آخری دور کی جانب رُو بہ زوال ہے۔ جب کبھی بھی کوئی دیا گیا سماجی اقتصادی نظام اپنا جواز کھو بیٹھتا ہے ہمیں ایسی ہی علامات نظر آتی ہیں: معاشی بحرانات، جنگیں اور اندرونی خلفشار، اخلاقی انحطاط اور سوچ کا فقدان، جس کا اظہار پرانے مذہب اور اخلاقیات پر مسلسل کم ہوتے ہوئے اعتبار جو کہ اپنے ہمراہ بعید الفہم اور خلافِ عقل رجحانات، قنوطیت کی ایک عمومی فضا، مستقبل کے متعلق عدم اعتمادی اور فن و ثقافت کا زوال لئے ہوئے ہوتا ہے۔

یہ وہ خصوصیات ہیں جن کی کسی ایسے سماج میں توقع کی جا سکتی ہے جو اپنا ترقی پسندانہ کردار کھو چکا ہو اوراپنی پیداواری قوتوں کی نشوونما اس طرح کرنے سے قاصر ہو جیسے وہ ماضی میں کرتا رہا ہے۔ ہر معاملے میں یہی ایک احساس گھیرے رہتا ہے کہ ”دنیا کا خاتمہ آن پہنچا ہے“۔ قدیم روم میں اس عقیدے نے مسیحی مذہب کی تعلیمات کی صورت میں اپنا اظہار کیا تھا کہ یہ دنیا ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اپنے حتمی انجام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ جب کہ جاگیرداری کے دورِ آخر میں خود کو کوڑے مار کر اذیت پہنچانے والے فرقے قصبوں اور دیہاتوں میں جلوس کی صورت سفر کرتے ہوئے دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی کی ترویج کیا کرتے تھے۔ ان دونوں معاملات میں جن چیزوں کا خاتمہ ہوا وہ دنیا تو ہرگز نہیں تھی لیکن بہرحال (دونوں صورتوں میں) واضع طور پر یہ ایک سماجی اقتصادی نظام کی موت ضرور تھی (غلام داری، جاگیر داری)۔

اب جب کہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی اپنے اختتام کو ہے، واضح ہو چکا ہے کہ سرمایہ داری خود اپنے آخری دور میں داخل ہو چکی ہے۔

ہیرنومس بوش کی دنیا میں بہت سی چیزیں ہماری اپنی آج کی دنیا والی ہیں۔ اکیسویں صدی کے اوائل کی دنیا شورش، تشدد اور انتشار کی دنیا ہے۔ یہ 11 ستمبر اورعراق و افغانستان کے بلادکار کی دنیا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں انسانیت جنگوں، قحطوں اور دیگر ابتلاؤں کے ساتھ ساتھ انتہائی فحش قسم کے دولت اور طمطراق کے نظاروں سے بدحال ہے۔

نظام کی بیماری ہر سطح پر ظاہر ہوتی ہے۔ آج پانچ صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ’ہے وین‘ آج بھی کھڑکھڑاتی لڑھکتی اپنے بھاری پہیوں تلے عورتوں اور مردوں کو کچلتی رواں دواں ہے۔ سرمایہ دارانہ مغائرت ]Alienation[ اور اشیا کا استصنام ]Commodity Fetishism[ ہماری نفسیات کا ایک ایسا حصہ بن چکا ہے جس سے کہ ہم آگاہ ہی نہیں ہیں۔ ہمارے باطن کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے ان تعصبات کو ہماری شعوری سطح تک لے کر آنے کے لیے بوش کے قد کاٹھ کا ایک فنکار درکار ہے۔

تاریخ کے کسی بھی دور میں روپے پیسے کی حکمرانی اس حد تک نہیں گزری جتنی کہ ہمارے اس دور میں ہے۔ انسانوں کو خرید و فروخت کی اشیا کے حد تک گرا دیا گیا ہے اور یہاں بے جان چیزیں انسانوں کی توصیفات پا چکی ہیں۔ اس عمل میں انسانیت ذلیل، بے مایہ اور نابود ہو کے رہ گئی ہے۔ بوش کی تصاویر میں نمودار ہونے والے لالچ اور حِرَص سے مسخ شدہ بے احساس اور غیرانسانی چہرے آج بھی سٹاک ایکسچینج کے مراکز میں سودے بازیاں کرتے دیکھے جا سکتے ہیں، یہ دیوہیکل جوئے کے اڈے جہاں کروڑوں زندگیوں کا فیصلہ منڈی کی تشنج زدہ حرکات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

بوش کا ڈراؤنے خواب جیسا تصور ہمارے آج کے حالات سے بہت زیادہ مختلف نہیں، سوائے اس کے کہ اس کی پینٹنگز کی جگہ اب ہم ہوبہو اسی جیسے ہولناک نظارے اپنے ٹیلی وژن کی سکرینوں پر ہر روز رات کو دیکھتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ہمارے آج کے آرٹ میں اس بات کی کہیں جھلک بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ چالیس لاکھ مرد، عورتیں اور بچے کانگو کی خانہ جنگی میں ذبح کیے جا چکے ہیں، اور ہمارے برطانیہ کے بہترین مصور ابھی تک ایک”بے ترتیب بستر“ ]The unmade bed[ بنا پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ایسا کیوں ہے کہ لوگ ہمیشہ پیچھے کی جانب مُڑ کر دیکھتے ہوئے حسرت سے ماضی کے عظیم آرٹ کی تحسین و تعریف کرتے ہیں؟ یہ اس لیے ہے کہ آرٹ کے پاس اب کہنے کو کچھ بامعنی بچا ہی نہیں۔ پابلو پکاسو نے ہسپانوی خانہ جنگی کے ردِ عمل میں اپنا شاہ کار گیرنیکا تخلیق کیا۔ گویا نے اپنے عہد پر چھائے خوف و ہراس پر اپنے تبصرے اور اپنی رائے کے اظہار کے لیے ’جنگ کی تباہ کاریاں‘ تخلیق کیا۔ لیکن آج تو شارکوں کو بھی بطور آرٹ ہمارے سامنے مردہ اور حنوط شدہ حالت میں پیش کرنا پڑتا ہے۔

یہ خود آرٹ ہی ہے جس کو حنوط کر کے شیشے کے خانوں میں سٹیریلائز کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ صدیوں بعد ایسا وقت آیا ہے جب آرٹ کے پاس ہماری اس دنیا کے بارے میں کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ یہ حقیقت اور زندگی سے پرے مٹھی بھر منافع خوروں اور (بزعمِ خود) جمالیات شناسوں کی ایک ٹولی کی زرخرید جاگیر بن چکا ہے۔ اگر آج آرٹ حقیقی زندگی اور انسانوں کے مسائل سے لاتعلق نظر آتا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ لوگ بھی آرٹ سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کرتے ہی نظر آتے ہیں۔

ہمارے دور کو اس بات کی ضرورت ہے کہ یہاں ایک اس دور کا ہائرونوموس بوش پیدا ہو جواس کو اس کا وہ والا چہرہ دکھائے جو کہ اس کا حقیقت میں ہے۔ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی جگہ ہر وقت ایسے فنکار موجود ہوتے ہیں لیکن ان کی آواز نہیں سنی جاتی۔ ان کے کام کو مال بنانے والی چکا چوند میں دبا دیا جاتا ہے جیسے اس نے باقی کے تمام سماج کو دبا رکھا ہے۔ لیکن جلد یا بدیر آرٹ کی حقیقی آواز، ایک سچی اور جرات آمیز آواز خود کو اس قابل بنائے گی کہ اس کو سنا جائے اور پھر تمام انسانیت اس سے فیض پائے گی۔

(لندن 23 دسمبر 2010ء)

نوٹ: بریکٹوں میں الفاظ مترجم کی جانب سے ہیں، یا پھر اصطلاحات کا انگریزی متبادل دیا گیا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply