جنگلی بلی۔۔۔فوزیہ قریشی

برسوں بیت گئے لیکن جنگلی بلی، تم آج بھی ویسے ہی یاد آتی ہو۔
تم جیسی کبھی نہیں ملی۔
تم کہتی تھی شادی کر لو۔
سنو!! میں نے شادی کر لی ہے۔
میری بیوی بہت اچھی ہے۔ میری ایک بیٹی بھی ہے۔
جس کا نام میں نے تمہارے ہی نام پر رکھا ہے۔
جب جب اسے پکارتا ہوں تو تم اور بھی شدت سے یاد آتی ہو۔
کیوں ہر پل یاد آتی ہو؟
بتاؤ۔۔۔۔۔؟

گزشتہ تمام تحاریر پڑھنے کے لیے نام پر کلک کیجئے۔۔۔۔فوزیہ قریشی

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ سامنے لیپ ٹاپ میں موجود تصویر سے مخاطب ہو کر بولا
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ تم اب کہاں ہوگی؟
تمہاری شادی ہو گئی ہوگی یا نہیں۔
یاد کرو میں سارا دن کی کہانی تم کو سنانے کے لئے تڑپتا تھا ۔
تم سے چند منٹس مانگتا تھا کہ ایک بار میری بات سن لو اور تم سے بات کرتے گھنٹوں بیت جاتے تھے۔ تم مجھے غور سے سنتی اور پھر مجھے سمجھاتی کہ سدھر جاؤ ۔ ۔کسی ایک کے ساتھ گھر بسا لو لیکن میں جوانی کے جوش میں تھا ۔
ایسے میں کسی کا کہا سنا کب سمجھ آتا ہے؟
یاد کرو میں تمہیں کہتا تھا تم عجیب ہو بہت عجیب ۔ جو میری واہیات بکواس سن تو لیتی تھی لیکن پھر مجھے طریقے طریقے سے سمجھاتی بھی تھی۔ میرا کتھارسس ہو جاتا۔
کبھی کبھی مجھے لگتا تم کو اللہ نے خاص خوبی سے نوازا ہے جو مرد کو سنبھالنے اور سُدھارنے کا ہنر جانتی ہے۔
میں تم سے متاثر تھا جس کا تمہیں اندازہ بھی تھا لیکن تم بہت پکی تھی۔۔۔۔۔
ہمیشہ بات کا رخ ہی بدل دیتی تھی اور کبھی کبھی مجھے میرے ہی الفاظ میں الجھا دیتی تھی۔
میں نے تم سے کبھی اظہار کرنے کی جرات کی بھی تو تم نے اسے مذاق ہی سمجھا اور ایک آدھ بار تو سختی سے ڈانٹ بھی دیا۔
تم غصے میں کہتی،
“دماغ ٹھیک ہے تمہارا ”
میں یہ سوچ کر چُپ کر جاتا کہ اتنے فلرٹ جاننے کے بعد تم کیونکر میری بات کا اعتبار کرو گی۔
لیکن۔۔۔! “اے حسین جنگلی بلی”
سچ کہوں، میں آج بھی تم سے ہی محبت کرتا ہوں۔
یاد کرو!! وہ رات جب آخری بار میری تم سے بات ہوئی تھی۔
اُس رات تم سے کُھل کر اظہار کرنا چاہتا تھا۔۔
لیکن!! تم نے مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ میری بات ادھوری رہ گئی کیونکہ تم اس رات بھی میری بکواس سننا چاہتی تھی۔
تم سمجھ رہی تھی۔۔
آج بھی میں تم کو سارا دن کی واہیات اور چٹ پٹی کہانیاں سناؤں گا اور تم مجھے ہمیشہ کی طرح لیکچر دو گی۔
نہیں اس رات مجھے کچھ نہیں سُنانا تھا لیکن تم بضد تھی کہ میں سناؤں اور جب میں نے کہا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں یہی آج کی رات کا سچ ہے تو تم جنگلی بلی کی طرح مجھ پر برس پڑی۔
مجبورا” مجھے اپنے جذبات کو وہیں دفن کرنا پڑا۔
تم شاید میرے سچ کو بھی فلرٹ سمجھ بیٹھی اور مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔
یہ کہہ کر کہ، ” تمہاری نظر میں عورت ایک شو پیس ہے” ۔
آج ایک شو کیس میں سجا لی تو کل کوئی دوسری ۔
نہیں، یقین جانو ایسا نہیں تھا ۔
میں مانتا ہوں کچھ حسین تتلیاں میری زندگی میں آئیں بھی۔۔
لیکن!!! وہ اپنا مقام نہ بنا سکیں ۔
بس چند دن ٹھہریں اور پھر کہیں اُڑ گئیں ۔
تم نے کبھی مڑ کر کیوں نہیں دیکھا؟
بولو!! کیوں نہیں؟
کیا میرے جذبات کی سچائی تمہیں کبھی محسوس نہیں ہوئی؟
تم جاتے جاتے اپنا ایڈریس بھی نہیں دے کر گئی جبکہ تم نے کہا تھا ہم کبھی ضرور ملیں گے ۔
بولو ہم کب ملیں گے؟
کیا اس رات بھی تم کو محبت کی وہ خوشبو محسوس نہیں ہوئی؟
ہاں شاید  نہیں ہوئی ورنہ تم مجھے اس طرح بلاک کرکے نہ جاتی۔۔
تم نے میرے دل میں جھانکنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔
کیوں آخر کیوں ؟
جبکہ سچ تو یہ تھا کہ مجھے تمہارے جیسی ہی ہم سفر کی ضرورت تھی۔۔۔۔۔۔
میں نے کئی بار بھیس بدل کر تم سے رابطہ کیا لیکن لاحاصل کیونکہ تم تو جنگلی بلی تھی نا جو پیار محبت کی باتوں پر غرانے لگتی تھی۔۔۔
یا شائد تمہیں لگتا تھا کہ ہر مرد بھیڑیا ہے جو گھات لگائے بیٹھا ہے۔۔
آج میں تم سے کہنا چاہتا ہوں مجھے تم نے ہی بھیڑیے سے انسان بنایا ہے اور جب میں انسان بن گیا تو تم مجھے بھیڑیا سمجھ کر چھوڑ گئی۔
لوٹ آو جنگلی بلی
مجھے تم یاد آتی ہو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply