• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مظاہر قلم(جنوبی پنجاب صوبہ ، پرانا وعدہ اور نئی امید)۔۔مظہر اقبال کھوکھر

مظاہر قلم(جنوبی پنجاب صوبہ ، پرانا وعدہ اور نئی امید)۔۔مظہر اقبال کھوکھر

100 روز سے شروع ہونے والی جنوبی پنجاب صوبے کی کہانی کئی سو روز گزر جانے کے باوجود ابھی تک الجھی ہوئی ہے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کے دوران صوبہ محاذ کے نام پر بننے والے روایتی سیاستدانوں کے اتحاد کو اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف میں ضم کرتے ہوۓ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر پہلے 100 روز کے اندر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنائیں گے اور پسماندہ علاقوں کی محرومیاں دور کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائیں گے۔

جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ وعدوں ، فریبوں اور دھوکوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی تاریخ اس خطے کی محرومیوں کی ہے یا جتنی پرانی الگ صوبے کی تحریک ہے۔ اقتدار میں آنے کے لیے ہر جماعت اس خطے کے عوام کو الگ صوبے کا لالی پاپ دے کر ہمدردیاں حاصل کرتی ہے اور پھر ان ہمدردیوں کو بیدردی سے پامال کر دیتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے آخری دور حکومت کے آخری دنوں میں الگ صوبے کا بل اسمبلی میں پیش کر کے شہیدوں میں اپنا نام لکھوانے کی کوشش کی مگر پاکستان مسّلم لیگ نے دو صوبوں جنوبی پنجاب اور بہاول پور کا بل اسمبلی میں پیش کر کے پورا معاملہ ہی چوپٹ کر دیا یوں دو ملاؤں میں مرغی حرام کے مصداق دو صوبوں کے جھنجٹ میں کھو کر ایک صوبے کا معاملہ بھی باقی نہ رہا اور پاکستان مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو اس نے اپنے دو صوبوں کے بل کو بھی کسی ایسی بل میں ڈالا کہ پانچ سال تک اس کا نام و نشان تک دکھائی نہیں دیا۔

یہی وجہ ہے پاکستان تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم کے دوران 100 دونوں میں جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ کیا تو وسیب زادوں کی اکثریت نے اس پر اعتماد کا اظہار نہیں کیا کیونکہ وسیب کے ساتھ وعدوں کی تاریخ بہت تاریک ہے اس کے باوجود تبدیلی کے پرفریب نعرے کو دیکھتے ہوۓ بہت سے لوگوں نے امیدیں بھی باندھ لیں کہ شاید پہلے سے کچھ مختلف ہو اور تحریک انصاف ممکن ہے وسیب کے ساتھ انصاف کرتے ہوۓ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کا کچھ ازالہ کرسکے۔ مگر پھر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا 100 روز تو پلک جھپکتے ہی گزر گئے اور صوبہ تو دور دور تک دکھائی نہیں دیا البتہ کچھ عرصے بعد وزیر اعلیٰ  پنجاب نے لب کشائی فرمائی کے جولائی 2019 تک جنوبی پنجاب صوبائی سب سیکرٹریٹ باقاعدہ کام شروع کر دے گا مگر پھر ڈیڑھ سال تک مکمل خاموشی رہی البتہ جنوبی پنجاب صوبہ اور بہاول پور صوبہ کے حامیوں کے درمیان لفظی جنگ جاری رہی ۔ جنوبی پنجاب صوبہ کے حامیوں کا مطالبہ ہے صوبائی سب سیکرٹریٹ ملتان میں بنایا جاۓ جبکہ بہاول پور صوبہ کے حامی صوبائی سیکرٹریٹ بہاول پور میں بنانے کے لیے کوششیں کرتے نظر آئے۔ جبکہ حکومت کی طرف سے صورتحال واضح کرنے کے بجاۓ مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ اب اچانک ایک بار پھر وزیر اعلٰی پنجاب نے جنوبی پنجاب صوبائی سب سیکرٹریٹ کے باقاعدہ کام کے آغاز کی یقین دہانی کرانا شروع کر دی ہے۔

گزشتہ دونوں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے متعلق ایگزیکٹیو کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوۓ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے کہا کہ ” جنوبی پنجاب کے عوام نے جو مینڈیٹ دیا ہے اس کی لاج رکھیں گے ماضی کی حکومتوں نے سیاسی شو بازیاں کر کے جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا تمام حکمران جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر سیاست چمکاتے رہے ۔ انھوں نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لیے فنڈز مختص کر دیے ہیں سیکرٹریٹ کے قیام کی تمام تیاریاں مکمل ہیں ۔ جنوبی پنجاب کے عوام کے مفاد کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا سیکرٹریٹ کے قیام سے عوام کے مسائل مقامی سطح پر حل ہونگے۔” دوسری طرف یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان رواں ماہ کے آخر میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے متعلق ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوۓ صوبائی سب سیکرٹریٹ کا باقاعدہ اعلان کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دیر آید درست آید مکمل صوبہ نہ سہی صوبائی سیکرٹریٹ ہی سہی حکومت کو کچھ حد تک وسیب کے مینڈیٹ کی لاج رکھنے کا خیال آ تو گیا یہ انتہائی خوش آئند اور قابل تحسین اقدام ہے جس سے وسیب میں امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی ہے ۔ مگر یہ خدشات ہنوز موجود ہیں کہ کہیں ایک بار پھر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا معاملہ کھٹائی میں نہ پڑ جاۓ کیونکہ حکومت نے ابھی تک صورتحال کو واضح نہیں کیا کہ سیکرٹریٹ کہاں بنایا جا رہا ہے جبکہ بہاول پور صوبہ کے حامی تحریک انصاف کی اتحادی جماعت میں نمایاں پوزیشن پر ہیں تاہم وزیر اعلی پنجاب خود پنجاب کی پسماندہ ترین تحصیل تونسہ شریف سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ان دور افتادہ علاقوں کے مسائل کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں اور پھر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے مرکزی راہنما جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی اس تمام معاملے کی حساسیت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جنوبی پنجاب سرائیکی وسیب کے لوگوں کا در اصل مطالبہ کیا ہے اور وہ کس بات پر راضی ہونگے۔اور پھر جنوبی پنجاب کے پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں کے لوگوں کے لیے بننے والے صوبائی سب سیکرٹریٹ کے لیے موزوں ترین جگہ کون سی ہے۔ ہمارا نہیں خیال کے وسیب کے لوگ ملتان کے علاوہ کسی بات پر راضی ہونگے حکومت نے اگر عوامی امنگوں کے برعکس فیصلہ کرنے کی کوشش کی تو اس کا شدید رد عمل سامنے آئے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت وسیب کے عوام کے مستقبل کا فیصلہ وسیب زادوں کی ترجیحات کو مد نظر رکھ کر کرے پہلے بھی اس دیرینہ مطالبے کو پورا کرنے میں ہر حکومت نے تاخیری حربے استعمال کیے وسیب کے لوگ اب مزید تاخیر برداشت نہیں کریں حکومت کو ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تحریک انصاف نے بھی اگر وسیب کے ساتھ انصاف نہ کیا تو پی ٹی آئی کی پوری قیادت وسیب میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply