علم انسان کو درس آدمیت سے روشناس کروا کر اسے اچھے اور بُرے کی تمیز سکھاتا ہے، ،انسان کو معاشرے میں جینے، زندگی گزارنے کے قواعد و ضوابط سے آشنا کرتا ہے، علم کو اسی لیے تو روشنی کہا جاتا ہے ،اس میں اتنی بے پناہ قوت ہے کہ یہ گوشت پوست کے لوتھڑے کو انسانیت کے بہترین سانچے میں ڈھال دیتا ہے، مگر اس علم کو علمیت کے سانچے میں ڈھالنے والا سب سے بڑا محسن ایک استاد ہی ہوتا ہے، کہا جاتا ہے کہ والدین کسی نفس کو دنیا میں لانے کا ذریعہ ہوتے ہیں مگر انسان کو انسان بنانے میں سب سےعظیم کردار استاد کا ہی ہوتا ہے،۔
آپ پوری دنیا کی اقوام کا بطریق احسن اور دقیق انداز میں جائزہ لیں اور ترقی یافتہ ممالک کی ترقی و عروج کی بابت مخفی رازوں کو جانچنے کی سعی کریں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ پائیدار ترقی کے حصول کی اولین بنیاد بہتر میعار تعلیم اور اساتذہ کی عزت و تکریم کرنے کی بنیاد پر پنپنے والا معاشرہ ہے، چین، انگلینڈ اور امریکہ میں اساتذہ کو اعلیٰ اور معزز ترین گردانا جاتا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں بچوں میں اوائل دنوں سے ٹیچنگ کے شعبے کو اس حیثیت سے پیش کیا جاتاہے کہ بچے بڑے ہو کر استاد بننے میں فخر محسوس کریں، اب ذرا ایک نظر اپنی طرف بھی ڈال لیں ہم بہت خواہش مند ہیں کہ ہم دنیا میں ترقی کریں، ہماری معیشت پروان چڑھے، ہم ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوجائیں، لیکن کیا خواہش سے کام بن جائے گا، عملی طور پر تو حالات بہت مختلف ہیں، ہمارے یہاں نظام تعلیم کی ایسی درگت بنائی گئی ہے کہ پرائمری سے لے کر PHD تک تعلیم کا معیار مسلسل سست روی سے چل رہا ہے،ہر حکومت اپنی مرضی کا نظام لاتی ہے گویا کہ زندگی کا سب اہم شعبہ تجربہ گاہ بن کر رہ گیا ہے،UPE سروے، الیکشن ڈیوٹیاں، ڈاک اور مردم شماری جیسے کام اساتذہ سے کروائے جاتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق اوسطاً ہر ٹیچر کو نصابی عمل کے دوران بہت سے دیگر کاموں پر بھی معمور دیکھا جاتا ہے، اس میں قطعی اساتذہ کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ وہ پالیسی ساز نہیں ہیں، اور اساتذہ کی عزت و تکریم کی یہ صورت حال ہے کہ علاقے میں تعینات ہر افسر ان کا افسر ہے، PEELI کے نام سے چھوٹے بچوں کو تعلیم دینے کے جدید طریقے کے نام پر سینئر اساتذہ کو نچوا نچوا کر انکی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر وائرل کرنا ایک سوالیہ نشان ہے۔
کیا یہ ہی مقام رہ گیا ہے اساتذہ کا، کسی بڑی تقریب کے لیے مہمان خصوصی باہر سے بلایا جاتا ہے کیونکہ شاید اساتذہ تو اس کے اہل ہی نہ ہوں، مظفر گڑھ میں ایک عارضی عہدے پر مامور افسر ڈپٹی ڈی او نے ایک سکول میں اپنے عارضی چارج کے طاقت کے نشے میں اپنے ہی شعبے سے وابستہ اساتذہ سے ٹوائلٹ صاف کروا کر ایک بد ترین مثال قائم کی ہے، اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں شعبہء تعلیم میں بھی ہونگے مگر ہمیں بحیثیت قوم خود کو سدھارنا ہوگا، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جتنا ایک بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے والا کھلاڑی ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے کی فیس لیتا ہے،استاد اپنی پوری مدت ملازمت پوری کرنے کے باوجود اتنی جمع پونجی نہیں بنا پاتا، حکومت وقت اساتذۂ کو بہترین معاشرتی مقام دلانے کا اپنا وعدہ پورا کرے، اور جو نام نہاد دانشور اساتذہ پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج کے اساتذہ پہلے جیسے نہیں رہے، تو میرا ان موصوف سے سوال بنتا ہے کہ جس استاد نے تمہیں تعلیم دی ہے اسکی عزت تم پر واجب ہے کہ نہیں، جب تک ہم اساتذہ کو عزت نہیں دیں گے تب تک ہم پھل پھول بھی نہیں پائیں گے،
“اساتذہ کو عزت دو” تاکہ تم باعزت قوم بن پاؤ، کوشش کریں اپنی تقریبات میں اپنے علاقے کے معروف اور مقبول اساتذہ کو بلا کر ان کو صدارت کی کرسی پیش کریں اور خاص طور پر تعلیمی اداروں کی تقریبات کے مہمان تو اساتذہ ہی ہونے چاہئیں تاکہ آنے والی نسل شعبہ درس و تدریس کو اپنے لئے بطورِ پیشہ اختیار کرنے میں بھرپور فخر محسوس کرے ، والدین اولاد کو ہمیشہ یہ یاد دلاتے رہیں کہ استاد کا مقام والدین کے مساوی ہے، پاکستان کی ترقی بہترین تعلیمی نظام اور اساتذہ کی تکریم سے عبارت ہے، میں دنیا کے تمام اساتذہ کو سلام پیش کرتا ہوں، میں تادم مرگ اپنے اساتذہ کا احسان مند رہوں گا اور ان کی تکریم کے لیے اپنی آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ، اپنے قلم کی روشنائی بھی انکے نام کرتا رہوں گا،۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں