رقیہ۔۔۔ کمسن قصہ گو/بنت الہدیٰ

وہ کمسن بچی

دنیا کی واحد قصہ گو قرار پائی
جس نے ہر داستان
اپنے نازک رخساروں کے
بدلتے ہوئے رنگوں سے ترتیب دی۔

رقیہ کی کہانی صرف بچے ہی نہیں
پرندے بھی سننے آیا کرتے
کہ اس کی سنائی کہانیاں
سننے والے کو ظلم کی آندھیوں میں
اڑان بھرنے کا ہنر سکھایا کرتیں۔

کبھی وہ شرارتی آنکھوں والی چنچل بچی کا قصہ بیان کرتی
جو خالی مشکیزوں سے گھنٹوں باتیں کیا کرتی تھی
کہ شاید ان میں آخری بوند کی صدا باقی ہو۔۔۔

تو کبھی وہ ان بھڑکتے ہوئے شعلوں کی کہانی سناتی
جو اس کی چمکدار آنکھوں سے کم روشن تھے
وہ بچوں کو بتاتی۔۔
کہ آگ کے شعلے۔۔۔
صرف خیمے اور دامن ہی نہیں
معصوم بچوں کا بچپن بھی راکھ کر دیتے ہیں۔

اس کی سنائی گئی داستانوں میں
ایک قصہ آخری رخصت کا بھی تھا
جس میں ایک بچی۔۔۔
گھوڑے کے پیروں سے لپٹ گئی تھی۔۔
وہ انہیں جانے سے روکنا نہیں چاہتی تھی
وہ تو بس آخری بار اپنے بابا سے لاڈ اُٹھوانا  چاہتی تھی۔

رقیہ کی اسی داستان میں سہ سالہ بچی
اپنے بابا کو الوداع کرتے ہوئے
ان کے سینے پر اپنا سر رکھ دیتی ہے
کہ بابا کے تھکے ہوئے جسم کو تازگی دے سکے

رقیہ ایک ماہر داستاں  گو ثابت ہوئی
کہ اس نے اپنی داستان کا اختتام
اسی طرح کے ایک منظر پر کیا
صرف ایک فرق کے ساتھ
کہ اب بابا کا سر اس بچی کی گود میں تھا۔۔

کہانیاں بہت تیزی سے گردش کرتی ہیں
سماعتوں ںسے گزر کر
ذہن کے بند دریچوں پر دستک دیتی کہانیاں
اس وقت انقلاب برپا کر گئیں
جب وہ قصہ گو خاموش ہوگئی

حقائق کی پردہ پوشی کرنیوالے
اس داستان سرائے کی تردید نہ کردیں
شاید اسی مصلحت کی بناء پر
رقیّہ کو۔۔۔۔۔
اپنے تاریک داستان سرائے میں ہی دفنایا گیا۔۔۔!

Advertisements
julia rana solicitors

رقیہ کمسن قصہ گو خاموش ہوگئی
مگر اس کی سنائی داستان آج بھی زندہ ہے
سانس لیتی ہے
جس کے کردار بےجان نہیں، جان رکھتے ہیں
کشمیر , فلسطین اور یمن کے گلی، کوچوں اور بازاروں میں
رقیہ کی سنائی داستان کے
ہر کردار کو دیکھا۔۔ سنا
اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔۔

Facebook Comments

بنت الہدی
کراچی سے تعلق ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply