اپنی تعزیت آپ۔۔مرزا یٰسین بیگ

میری موت پر میرے صحافی دوستوں نے مقامی خبروں والے صفحے پر سیاہ حاشیہ میں دو کالمی خبر لگائی”دوسروں کی خبر لگانے والا آج خود خبر اور قبر بن گیا”۔

ایک نے متن میں لکھا “مرحوم نے اپنے پیچھے صرف ایک بیوہ، دو خوش و خرم بچے، یاہو کی دو، جی میل کی ایک اور ہوٹ میل کے تین اکاؤنٹس، ایک فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹ اور نیٹ پر اپنی لاتعداد ایسی تصاویر چھوڑیں، جسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندگی سے بیزار تھے۔”

میرے اپنے اخبار نے لکھا ” آج ہم مرحوم کی آخری خواہش کے احترام میں ان کی انتقال کی خبر پانچ کالمی لیڈ کی شکل میں لگا رہے ہیں جو انھوں نے زندگی کے آخری ایام میں خود تیار کی تھی۔ مرحوم کو بہت شوق تھا کہ وہ کوئی ایسا کارنامہ کرتے کہ ان کا نام اخبارات کی سرخی بنتا، ہمارا خیال ہے ان کی موت سے ان کی یہ فرمائش پوری ہوگئ”۔

ایک کالم نگار دوست نے تعزیتی کالم میں لکھا ” مرحوم آخری برسوں میں “زن” سے انتہائی نفرت کرنے لگے تھے، اگر کسی خبر میں زن لکھنا ہوتا تو چہرے کو ستٌر کے زاوئیے پر گھما کر حقارت کے ساتھ “ظن” لکھتے۔ کہتے تھے ،جو جوانی میں نہ ملی اب اس کے بارے صرف سوچ کر آخرت کیوں برباد کروں ؟سوائے کھانے اور فیس بک کے ہر چیز سے بدظن ہوگئے تھے۔ کھانے کی میز پر بیٹھ کر گھنٹوں فیس بک کی زیارت کرتے اور یہی دو چیزیں ان کی عین بڑھاپے میں موت کا باعث بنیں۔

ڈاکٹرز اور الطاف حسین سے انھیں خدا واسطے کا بیر تھا۔ کہتے تھے زندگی چاہتے ہو تو ان سے دور رہو۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ڈاکٹر بابر اعوان، ڈاکٹر فاروق ستار، ڈاکٹر عاصم اور ڈاکٹر رحمان ملک ان کی قلم کی ہٹ لسٹ پر تھے۔مرحوم کو آخری عمر میں پینٹنگ کا شوق ہوگیا تھا، ہر وقت اپنے بالوں کو رنگتے رہتے تھے۔ فخریہ کہا کرتے تھے، میرے بالوں نے آخری وقت تک میرا ساتھ دیا ہے میں ان کا رنگ سفید ہونے نہیں دوں گا۔مرحوم کو کفن میں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کاش اتنا صاف لباس انھیں زندگی میں پہننے کو مل جاتا۔

لانڈری سے چڑتے تھے، کہتے تھے انسان کو اپنے ذہن، کان اور کپڑوں کا میل خود اپنے ہاتھوں سے نکالنا چاہئیے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کام کیلئے وہ اپنے ہاتھوں کو سال میں صرف دو بار زحمت دیتے تھے۔مرحوم کی مزاح کے صنف کیلئے بڑی خدمات تھیں۔ زندگی میں تین بار اپنی بتیسی تبدیل کی۔ کہتے تھے آدھی عمر بیوی اور آدھی عمر بتیسی کی خدمت میں گذرگئ۔اخبار اور کھانے کی پلیٹ چاٹنے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ پاکستانی سیاست دانوں اور شوبز شخصیات کے تمام اسکینڈلز انھیں حفظ تھے۔ وہ برائیوں کی چلتی پھرتی ویکی پیڈیا تھے۔ کسی کی ذاتیات پر ڈرون حملہ کروانا ہو تو انھیں “چھو” کہنا کافی ہوتا تھا۔

وہ اگر ہکلے نہ ہوتے تو آج کل کے ٹاک شوز کے مقبول سیلیبریٹی ہوتے۔ مرحوم جب بھی منہ کھولتے پان، چھالیہ، چیونگم یا گالیاں نکلتیں۔ کلمہ صرف آخری وقت کیلئے رکھ چھوڑا تھا۔ پان کے شیدائی تھے۔ مرحوم کی موت پر پان والے ہی سب سے زیادہ غمگین تھے۔ مرحوم کا کوئی دوست تھا نہ دشمن کیونکہ مرحوم ادھار دینا پسند کرتے تھے نہ ادھار لینا۔ میری موت کا میرے دوستوں نے گہرا اثر لیا، ہر ایک نے میری موت کی خبر پر فوری سینکڑوں ٹیکسٹ میسیجز کئیے، بہت سوں نے اپنی فیس بک کی وال پر تعزیتی پیغامات لکھے۔

ایک دوست کا ٹیکسٹ میسیج تھا ” وہ ہم میں نہیں رہا، اب ہم دل بھر کے چلغوزے اور جھوٹی قسمیں کھا سکتے ہیں۔”

دوسرے نے لکھا “مرحوم کی موت سے خراٹوں کی موسیقی بھی دم توڑ گئ۔ خراٹوں کے بغیر انھیں قبر میں سوتا دیکھ کر خوشی سے میرے آنسو بہنے لگے۔”

ایک ٹیکسٹ یوں تھا “مرحوم اگر جوانی میں فوت ہوتے تو بیوہ سے تعزیت میں زیادہ مزہ آتا۔ وہ اتنا خود غرض تھا کہ اتنی دیر سے مرا کہ بیوہ کی دوسری شادی کا ارمان بھی فوت ہوگیا۔”

ایک کرپٹ سیاستدان نے لکھا “یہ کوئی عام موت نہیں ہے، اس شخص نے ہمیں حرام کا ایک لقمہ بھی چین سے کھانے نہیں دیا، آج حرام کھانے والوں کی آزادی کا دن ہے۔”

ایک شرابی دوست نے لکھا ” مرحوم کو ہم نے کبھی پیتے نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ شراب کی بھری بوتل ساتھ لے جایا کرتے تھے۔”

ایک نے فیس بک پر لکھا “مرحوم دوسروں کو برائی کرتے نہیں دیکھ پاتے تھے۔ کہتے تھے اس کام کیلئے میں پیدا کیا گیا ہوں۔

مرحوم ہر کام میں دیر کردیتے تھے۔ وہ خودکشی کے شوقین تھے، کہتے تھے اس سے پہلے کہ خدا مجھے اپنی دنیا سے نکالے میں خود یہ دنیا چھوڑ دونگا مگر موصوف نے یہاں بھی دیر کردی۔”

ایک اور پیغام تھا ” ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے تین موٹے بھی مل کر پورا نہیں کر پائیں گے۔ میں حیران ہوں کرین کے بغیر وہ لحد میں کیسے اتار دئیے گئیے؟”

ایک نے لکھا ” وہ ہمارا دوست تھا، میں اس کی موت کا سن کر ایک منٹ کےلیئے غمگین ہوگیا اگلے منٹ میرا بلیک بیری بج اٹھا، ایک اور دوست مجھے “ڈرٹی پکچرز” دیکھنے کی دعوت دے رہا تھا، مووی دیکھنے کے بعد ہم مرحوم کے گھر تعزیت کیلئے چلے گئے۔”

ایک ایس ایم ایس تھا “مرحوم قبرستان سے خوف کھاتے تھے اس لئے بہت کم جنازوں میں شرکت کی، آج ان کے جنازے میں بھی قلیل لوگ شریک تھے کیونکہ لوگ ان سے خوف کھاتے تھے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک تعزیت کچھ ایسی تھی ” اللہ کے رحم کو چیلنج نہ کرو یہ دعا مانگ کر کہ اللہ انھیں جنٌت نصیب کرے۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply