ہمیں وہ اپنا کہتے ہیں، محبت ہو تو ایسی ہو/ سلیم زمان خان

حضرت نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان المعروف ابوحنیفه،عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی اور کم وبیش 6 صحابہ کرام سے باقاعدہ مستفید ہوئے جن میں سب سے اہم جلیل القدر صحابی انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں۔ حالانکہ آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بھی دیدار فرمایا، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر “امام اعظم” کہا جاتا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔

علامہ کوثری مصری نے زیلعی کے مقدمہ میں ایک مختصر مقالہ سپرد قلم کیا ہے،جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ” فقہ حنفی صرف ایک شخصی رائے نہیں ؛بلکہ چالیس علماء کی جماعتِ شوریٰ  کی ترتیب کردہ ہے،امام طحاویؒ اسناد کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ امام صاحب کی یہ جماعت شوریٰ چالیس افراد پر مشتمل تھی جن میں ممتاز ہستیاں تھیں۔۔امام صاحب کی خدمت میں پہلے ایک مسئلہ کے مختلف مختلف جوابات پیش کئے جاتے پھر جو اس کا سب سے زیادہ تحقیقی جواب ہوتا آپ ارشاد فرماتے ۔اسی طرح ایک ایک مسئلہ تین تین دن زیر بحث رہتا ،اس کے بعد کہیں وہ لکھا جاتا تھا۔۔آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصّہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔ آپ کی  بے انتہا تصانیف ہیں لیکن آپ کی معرکتہ الآراء کتاب “مسند امام ابوحنیفہ ؒ کے نام سے مشہور ہے۔۔ لیکن اس نام سے درجنوں کتب ہیں ۔

دراصل امام ابوحنیفہؒ کی روایت کردہ احادیث کا کام بہت سے محدثین نے ہر صدی میں کیا ہے ۔جن کی تعداد 17 سے بھی زیادہ ہے ۔بعد کے محدثین نے جو امام صاحب کی احادیث جمع کیں ۔ وہ مسند کہلاتی ہیں ۔ ان میں سب سے مشہور مجموعہ محدث جلیل موسیٰ بن زکریا حنفی کا ہے، اسے ہی مسندابی حنیفہ کہا جاتا ہے، جو کہ مسند حارثی کا اختصار ہے ۔ “محدثِ کبیر ملاعلی قاری” نے سند الانام شرح مسند الامام کے نام سے اس کی شرح لکھی جو سنہ1889ء میں لاہور نے شائع ہوئی اور میرے پاس موجود نسخہ 1985 میں بیروت ( لبنان) سے الدار الکتب علمیہ نے شائع کیا ۔ امام ملا علی قاری نے جس مسند ابی حنیفہ کی شرح لکھی ہے اس کے صفحہ نمبر 20 سے صفحہ نمبر 23 تک میں ایک حدیث پاک نقل کی گئی ہے جو حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے۔ اور مسند احمد میں اَنَسِ بنِ مَالِك رَضِیَ اللَّه عَنه سے یہ حدیث پاک مختصر بیان کی گئی ہے۔۔ اور اسے حدیث قدسی کہا گیا ہے۔۔ اور اسی مضمون سے ملتا جلتا واقعہ تفسیر ابن کثیر میں بھی موجود ہے۔
یہ حدیث پاک ( حدیث قدسی) کیا ہے۔۔۔۔کہ

صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، ایک بار ایک شخص بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوا ، عرض کیا : یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! کیا کوئی ایسا مؤمن بھی ہے جو جہنّم میں باقِی رہ جائے گا؟ آقا کریمﷺ نے فرمایا : ہاں! ایک شخص جو جہنّم کے گہرے گڑھے میں ہو گا اور اُونچی آواز سے یَاحَنَّانُ یَا مَنَّانُ پُکار رہا ہو گا ، اس کی آواز بُلند ہو گی ، یہاں تک کہ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام سُنیں گے تو تعجب سے کہیں گے : اَلْعَجَب! اَلْعَجَب! یعنی عجیب بات ہے ، عجیب بات ہے! پھر حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام عرشِ اِلٰہی کے سامنے حاضِر ہوں گے ، سَر سجدے میں رکھ دیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا : اِرْفَعْ رَاْسَکَ یَا جِبْرائِیْل! اے جبرائیل! اپنا سَر اُٹھاؤ! حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام سَر اُٹھائیں گے ، اللہ پاک فرمائے گا : اے جبرائیل! تم نے کیا عجیب چیز دیکھی؟ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام عرض کریں گے : یا اللہ پاک! میں نے ایک آواز سُنی ، کوئی شخص جہنّم کےگہرے گڑھے میں ہے اور یَا حَنَّانُ یَامَنَّانُ کہہ کر پُکار رہا ہے۔ اللہ پاک فرمائے گا : اے جبرائیل! مالِک (یعنی داروغۂ جہنّم ) کے پاس جاؤ! انہیں کہو : وہ بندہ جو یَاحَنَّانُ یَامَنَّانُ پُکار رہا ہے ، اسے جہنّم سے نکال لاؤ…!

حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام جہنّم کے دروازے پر تشریف لے جائیں گے ، دستک دیں گے ، حضرت مالِک عَلَیْہِ السَّلَام باہَر آئیں گے ، حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام انہیں اللہ پاک کا حکم سُنائیں گے ، حکم سُن کر حضرت مالِک عَلَیْہِ السَّلَام جہنّم کے اندر چلے جائیں گے۔

آقاﷺ نے فرمایا : جیسے ماں اپنے بچوں کو پہچانتی ہے ، حضرت مالِک عَلَیْہِ السَّلَام ایسے ہی جہنّم کو پہچانتے ہیں ، اس کے باوُجُود آپ اُس یَاحَنَّانُ یَامَنَّانُ پکارنے والے شخص کو تلاش نہیں کر پائیں گے۔ باہر تشریف لائیں گے ، حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کریں گے : اے جبرائیل! جہنّم نے گہرا سانس لیا ہے ، اس لئے کون سی چیز پتھر ہے ، کون سی چیز لوہا ہے اور کون انسان ہے ، اس کی پہچان نہیں ہو رہی۔ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام دوبارہ عرشِ اِلٰہی کے سامنے حاضِر ہوں گے ، سَر سجدے میں رکھ دیں گے۔ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا : اے جبرائیل! سَر اُٹھاؤ…! تم یَاحَنَّانُ یَا مَنَّانُ پُکارنے والے کو کیوں نہیں لائے۔ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام عرض کریں گے : مولیٰ! دَارَوْغۂ جہنّم حضرت مالِک عَلَیْہِ السَّلَام نے مَعْذرت کر لی ہے ، وہ کہتے ہیں : جہنّم نے سانس لیا ہے ، اس کی وجہ سے پتھر ، لوہے اور انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں بچا ہے ، کسی چیز کی پہچان نہیں ہو پارہی۔ اللہ پاک فرمائے گا : اے جبرائیل! مالِک سے کہو! میرا بندہ جہنّم کے فُلاں گڑھے میں ، فُلاں کونے میں، اس اس طرح پڑا ہے۔

حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام دوبارہ جہنّم کے دروازے پر جائیں گے ، حضرت مالِک عَلَیْہِ السَّلَام کو یَاحَنَّانُ یَامَنَّانُ پُکارنے والے کا پَتہ بتائیں گے ، حضرت مالِک عَلَیْہِ السَّلَام جہنّم کے اندر جائیں گے تو دیکھیں گے کہ ایک شخص ہے ، اُس کے پاؤں اس کی پیشانی کے ساتھ اور ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور جہنّم کے سانپ ، بچھو اس کے ساتھ لپٹے ہوئے ہیں۔ حضرت مالِک عَلَیْہِ السَّلَام اُس کی زنجیریں توڑ دیں گے اور جہنّم سے نکال کر حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کے حوالے کر دیں گے۔ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام اسے لے کر عرشِ اِلٰہی کے سامنے حاضِر ہوں گے اور سَر سجدے میں رکھ دیں گے۔ اللہ پاک فرمائے گا : اے جبرائیل! سَر اُٹھاؤ۔ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام سَر اُٹھائیں گے۔ اب اللہ پاک اُس بندے سے فرمائے گا : اے میرے بندے! کیا میں نے تیری بہترین تخلیق نہیں کی تھی؟ کیا میں نے تیری طرف رسول نہیں بھیجے تھے؟ کیا اُن رسولوں نے تمہیں میری کتاب نہیں سُنائی تھی؟ کیا میرے رسولوں نے تجھے نیکی کا حکم نہیں دیا تھا ، تجھے بُرائی سے منع نہیں کیا تھا؟ وہ بندہ ان تمام باتوں کا اقرار کرے گا (یعنی کہے گا : ہاں! یا اللہ پاک! تُو نے میری بہت اعلیٰ تخلیق فرمائی ، تیرے رسول بھی تشریف لائے ، انہوں نے تیرے احکام بھی سُنائے)۔ اللہ پاک فرمائے گا : پھر تُو نے فُلاں فُلاں گُنَاہ کیوں کئے؟ بندہ عرض کرے گا : یا اللہ پاک! میں نے اپنی جان پر ظُلْم کیا ، جس کی سزا میں مجھے جہنّم میں ڈال دیا گیا ، اس کے باوُجُود میری اُمِّید نہ ٹوٹی ، مجھے تیری رحمت سے اُمِّید تھی ، اسی لئے میں یَاحَنَّانُ یَامَنَّان پُکارتا رہا ، مولیٰ! تُو نے اپنے فضل سے مجھے جہنّم سے نِکالا ہے ، یااللہ پاک! اب مجھ پر رحم فرما۔ اللہ پاک فرمائے گا : اے فرشتو! گواہ ہو جاؤ…! میں نے اس بندے پر رحم کیا اور اسے معاف کر دیا۔

●حاصل بحث:
اس حدیث پاک کو بیان کرنے سے قبل حضرت امام ابو حنیفہ کا تعارف اس لئے کرانا ضروری سمجھا کہ اس وقت تقریبا ہر براعظم میں فقہ حنفی کو ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔۔ اور بالاتفاق انہیں امام اعظم کہا جاتا ہے ان کی تحقیق اور کسی بھی حدیث یا فقہی مسئلہ کو کتاب میں درج کرنے سے پہلے اسے تین دن تک 40 افراد کی شوری ٰ میں پیش کیا جاتا اور پھر اسے ضبط تحریر میں لایا جاتا۔۔ اگر حضرت امام ابو حنیفہ، امام ملا علی قاری ،مسند احمد ،مسند انس بن مالک اور تفسیر ابن کثیر کسی حدیث کو ماننے کے بڑے حوالاجات نہیں ہیں تو پھر سب سے بڑے مسلک فقہ حنفیہ قابل عمل نہیں رہتا اور مشکوک ہو جاتا ہے اور کروڑوں لوگوں کا ایمان شاید پھر سوالیہ نشان بن جائے۔۔
اس حدیث پاک سے مندرجہ ذیل چند نتائج جو میں اخذ کر سکا ہوں وہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔۔

● ابھی قیامت قائم نہیں ہوئی اور نا جانے اگلے لمحے قیامت ہو یا کروڑوں سال بعد ، لیکن نبی کریمﷺ آج سے 1444 سال قبل ایک واقعہ کو بیان فرما رہے ہیں ۔ جو قیامت کے قائم ہونے کے بعد 50 ہزار سال کا یوم حشر گزر جانے کے بعد اور جنتی جنت اور جہنمی جہنم میں چلے جانے کے بعد شفاعت سے جہنم سے نکالے جانے کے بعد بھی ایک شخص کا حال بیان فرما رہے ہیں جو اس کے بھی بعد ایک ہزار سال جہنم میں پڑا ہوا ہو گا۔۔ جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا تو ان کی اولاد کو جو تا قیامت پیدا ہونی تھی ان کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان کے ساتھ قیامت میں اور قیامت کے بعد کیا ہونا تھا اس کا علم انہیں نہیں دیا گیا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ان کی اولاد کی وہ ساری روحیں باہر آ گئیں جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔ پھر ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں کی بیچ میں نور کی ایک ایک چمک رکھ دی، پھر انہیں آدم کے سامنے پیش کیا، تو آدم نے کہا : میرے رب ! کون ہیں یہ لوگ ؟ اللہ نے کہا : یہ تمہاری ذریت (اولاد) ہیں۔۔ اور قران یوں فرماتا ہے۔۔ “اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟” سورہ الاعراف
لیکن امام الانبیاء کریمﷺ کو اللہ کریم نے براےراست جہنم کے گڑھے سے نکلنے والے آخری شخص تک کا آنکھوں دیکھا حال اس طرح بیان فرما دیا کہ آج بھی اور قیامت تک پڑھنے والوں کو یہ منظر آنکھوں دیکھا محسوس ہو گا۔۔ کیونکہ یہ صرف علم و وحی کی بات نہیں ۔۔ حدیث قدسی نبی کریمﷺکے براہ راست مشاہدے کا نام ہے ۔۔
اسی لئے اللہ کریم نے نبی کریمﷺ کی آنکھ پاک کی تعریف قرآن میں ہوں فرمائی ۔
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى (17)
نہ تو نظر بہکی نہ حد سے بڑھی۔
لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْـرٰى (18)
بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔( سورہ النجم)
● اس حدیث قدسی میں جبرائیل امین شامل نہیں ہیں کہ ان کے علم میں یہ بات ہو جو اوپر آقاﷺنے اپنی امت سے فرمائی۔۔ کیونکہ جبرائیل امین جنت جہنم کے فیصلہ ہو جانے کے ایک ہزار سال بعد یہ آواز سنیں گے کہ کوئی جہنم میں یا حنان و یامنان پکار رہا ہے۔۔ اور جب جہنم کے داروغہ حضرت مالک علیہ السلام کے پاس اللہ کے حکم سے جائیں گے تو وہ بھی اس شخص سے لاعلم ہوں گے حالانکہ جہنم کو وہ یوں جانتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو۔۔ اور نبی کریمﷺ اپنے امتیوں کو اس شخص کے بندھے ہونے کی کیفیت تک ارشاد فرما رہے ہیں۔۔ یہ اس علم کی ایک جھلک ہے جس میں آدم علیہ السلام نے فرشتوں کو عاجز کر دیا تھا ۔۔ اور وہ بولے تھے کہ
قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
ترجمہ: وہ بول اٹھے : آپ ہی کی ذات پاک ہے جوکچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے ۔ حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں ( سورہ البقرہ)

اور یہ بات امت جانتی ہے کہ ان کے نبی کریمﷺ نے اس شخص کا حال بھی بیان کر دیا ہے جس کے حال سے قیامت کے بعد تک بھی جبرائیل اور مالک علیہ السلام لا علم ہوں گے۔۔ اور جبرائیل علیہ السلام کو اللہ کریم بتائیں گے کہ فلاں جگہ اور فلاں گڑھے میں میرا یہ بندہ پڑا ہے۔۔ اور یا امت کو آقاﷺنے بتا دیا۔۔
● اس بندے سے اللہ کے سوال جواب جو قیامت کے کروڑوں سال بعد جہنم سے خلاصی پر اللہ پوچھیں گے ۔۔آقاﷺنے ہمیں یہ راز بیان فرما دیا۔۔ جس پر وہ بندہ کہے گا کہ اللہ جو یوم الست آپ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا تھا وہ سب سچ کر دکھایا ۔۔ لیکن غلطی مجھ سے ہوئی ۔۔ لیکن اللہ کریم مجھے صرف آپ سے امید تھی کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے ۔۔ لہذا میں اس توحید کی امید پر آپ کو پکارتا رہا۔۔ جس پر اللہ کریم فرشتوں کو گواہ فرما کر اسے بخش دیں گے۔۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں خوب جانتا ہوں کہ اہلِ جہنم میں سے کون سب سے آخر میں وہاں سے نکلے گا اور اہلِ جنت میں کون سب سے آخر میں داخل ہو گا۔ ( مسلم )
● سب سے بڑی شفاعت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ آخری شخص کے جہنم سے نکلنے کا سبب بھی بیان فرما دیا کہ اس کی امید رب سے نہیں ٹوٹی۔اور اس نے شرک جہنم میں پڑے ہوئے بھی نہیں کیا حالانکہ باقی تمام گناہوں کے عذاب میں وہ جہنم کا سزاوار ٹھہرا ۔۔ تو جو شخص دنیا میں رب سے ہی امید جوڑ لے وہ کیونکر جہنم میں جائے گا اور اگر جائے گا بھی تو بالآخر اللہ کی رحمت کے صدقے اسے خلاصی نصیب ہو جائے گی۔۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہشام (راوی) نے کہا : (دوزخی کو) دوزخ سے نکالا جائے گا، شعبہ (راوی) فرماتے ہیں (اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو فرمائے گا) تم اس شخص کو آگ سے نکالو جس نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کہا ہو اور اس کے دل میں جَو کے دانے کے وزن برابر بھلائی ہو، اس کو بھی دوزخ سے نکالو جس نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کہا ہو اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر خیر ہو، اس کو بھی جہنم سے نکالو جس نے لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کہا اوراس کے دل میں ذرہ برابر بھی بھلائی ہو۔ اور شعبہ نے (روایت کرتے ہوئے یہ بھی) کہا : جس کے دل میں ہلکا سا ذرہ برابر بھلائی ہو۔‘‘

’’امام ترمذی کہتے ہیں : اس باب میں حضرات جابر، ابو سعید اور عمران بن حصینث سے بھی روایات ہیں۔‘‘

امام ترمذی، احمد اور ابو عوانہ نے اس حدیث کو روایت کیا۔ امام ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

“حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ کا حضرت ابوعیّاش زید بن صامت زُرَقی ؓ کے پاس سے گزرہوا، وہ نماز پڑھ رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے:
اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدُ لَا إِلٰـہَ إِلَّا أَنْتَ، یَا حَنَّانُ! یَا مَنَّانُ! یَا بَدِیْعَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ! یَا ذَا الْجَلَالِ وَالإِکْرَامِ۔
اے اللہ! میں تجھ سے اس وسیلہ سے مانگتا ہوں کہ تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔تیرے سواکوئی معبود نہیں۔ اے بڑے مہربان! اے بہت دینے والے! اے آسمانوں اور زمین کو کسی نمونہ کے بغیر بنانے والے! اے بزرگی اور بخشش والے!
حضورﷺ نے فرمایا: تم نے اللہ سے اس کے اسمِ اَعظم کے وسیلہ سے مانگا ہے کہ جب اس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو اللہ ضرور قبول فرماتے ہیں اور جب اس کے وسیلہ سے اس سے مانگا جائے تو ضرور عطافرماتے ہیں۔”

اللہ کریم نبی کریمﷺ کے طفیل ہم پر کرم کرنا چاہتے ہیں۔۔ اس لئے اپنے حبیب کریمﷺ کو وہ واقعات اور معاملات بھی دکھا دئے جن کا بھی فرشتوں کو بھی علم نہیں ۔۔ ایسی شفاعت اور شفقت پر لاکھوں سلام ۔۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فُروع ہیں
اَصْلُ الْاُصُول بَنْدَگی اُس تاجْوَر کی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

واللہ و رسولہ اعلمو بالصواب
سلیم زمان خان
جنوری 2024

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply