یہود ، مسلمان اور تیسری عالمی جنگ (1)-محمد سعید ارشد

586قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشیلم پر حملہ کیا۔اس نے یروشیلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی، ایک بھی گھرسلامت نہیں چھوڑا، حضرت سلیمان ؑ کے تعمیر کردہ معبد میں موجود سونا، چاندی اور قیمتی سامان لوٹ لیا۔ اس حملے میں یہودیوں کا مقدس تابوت سکینہ بھی کھو گیا جو دوبارہ یہودیوں کو پھرکبھی نہیں ملا اور اب یہودی تابوت سکینہ کی تلاش میں سارا کرہ ارض کو کھود ڈالنا چاہتے ہیں۔ بخت نصر نے ہیکل سلیمانی کو آگ لگا کر اس کو گرادیا ، لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا اور80,000اسی ہزار کے قریب یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ یہودی آج بھی اس اسیری کو بابل کی اسیری کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ 150 سال بعد یہودیوں کو اس اسیری سے نجات ملی اور انہوں نے واپس آکر یروشیلم کو ایک بار پھر سے آباد کیا، ایک دفعہ پھر سے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی اور اُ س میں عبادت شروع کردی۔

یروشیلم پر دوسرا حملہ 70ء عیسوی میں رومن جنرل ٹائٹس نے کیا۔ 14 اپریل کو اس نے یروشیلم کا محاصرہ کیا اور 8 ستمبر تک یہ محاصرہ جاری رہا۔ 4مہینے ، 3 ہفتے اور 4 دن تک جاری رہنے والے اسی محاصرے میں رومن یروشیلم میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ رومنز اور یہودیوں کے درمیان خونریز جنگ ہوئی جس میں تقریبا 11 لاکھ لوگ مارے گئے اور 97،000 لوگوں کو غلام بنایاگیا جن میں بڑی تعداد یہودیوں کی تھی۔ ٹائٹس نے دوسرا ہیکل سلیمانی بھی تباہ کردیا اب صرف اس کی ایک بیرونی دیوار بچی ہے جسے یہودی دیوار گریہ کہتے ہیں اور وہاں جاکر عبادت کرتے ہیں ۔ ٹائٹس یہودی غلاموں کو اپنے ساتھ روم لے گیا ،تب یورپ کے بڑے علاقے پر رومنز کی حکومت قائم تھی اور یوں یہودی یروشیلم سے نکل کر پورے یورپ میں پھیل گئے۔370ء تک سارا رومن ایمپائر عیسائیت کے رنگ میں رنگ چکا تھا اور تقریباسارا یورپ ہی عیسائیت قبول کر چکا تھا۔

یہودیوں نے چونکہ حضرت عیسیٰؑ کی مخالفت کی تھی ، ان کو تکالیف دی تھی ، ان کو جھٹلایا تھا،حضرت مریم ؑ پر الزامات لگائے تھے اور سازشیں کرکے عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کو صلیب پر چڑھادیا تھا اسی لئے پورا یورپ ہی یہودیوں کے خلاف ہوگیا تھااور ان سے شدید نفرت کرنے لگ گیاتھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہودیوں سے نفرت میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ آپ اس نفرت کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ پہلی صلیبی جنگ کے دوران جب صلیبی فوج مسلمانوں سے لڑنے کیلئے یورپ سے چلی تو راستے میں آنے والی ہر یہودی بستی کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں یہودیوں کو راستے میں ہی قتل کردیا۔ یورپ میں یہودیوں پر ہونے والے مظالم اس بات سے بھی عیاں ہےکہ سولہویں صدی میں یہ عام رواج تھا کہ یہودیوں کو اپنے گلے میں ایک خاص نشان لٹکانا پڑتا تھا یا اپنی شناخت کیلئے سینے پر ایک بیج لگانا ہوتا تھا، ان کے گھروں پر بھی خاص نشانات لگے ہوتے تھےتاکہ ان کے گھر پہچانے جا سکے ۔ اہل یورپ یہودیوں کو کمتر انسان سمجھتے تھے، یہودیوں کے شہری حقوق بھی عام شہریوں سے کم ہوتے تھے۔یہودیوں کو شہروں میں رہنے کی اجازت نہیں تھی اُ ن کو صرف خاص بستیوں میں رہنے کی اجازت تھی ۔جہاں یہودی چھوٹے چھوٹے ڈربوں نما اپارٹمنٹس میں 30، 30 لوگ مل کر رہتے تھے۔ جرمنی کےشہر فرینکفرٹ کے میوزیم میں آج بھی ان بستیوں کی یادگاریں محفوظ ہیں ۔ ان بستیوں کے گِرد دیواریں کی جاتی تھی تاکہ باقی بستیوں سے انہیں الگ رکھا جائے ، یہودی ان دیواروں کی حدود سے باہر گھر نہیں لے سکتے تھےاور نہ ہی رات کے وقت ان گھروں سے باہر نکل سکتے تھے۔ انہیں اتوار سمیت کسی بھی عیسائی تہوار والے دن بھی گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ اکثر شہری مسائل کی وجہ انہیں ہی قرار دیا جاتا تھا اور یوں ان کی بستیوں پر بلوائیوں کے حملے ایک عام سی بات تھی ۔

یہودیوں کا سب سے زیادہ قتل عام ہٹلر نے کیا ۔ ایک اندازے کے مطابق 60لاکھ یہودیوں کو گیس چیمبرز میں ڈال کر اور تشدد کرکے قتل کر دیا گیا۔ یہودیوں پر بخت نصر کے پہلے حملے سے لیکر ٹائٹس کے یہودیوں کو غلام بناکر یورپ میں لے جانے تک یا 2000 سال تک یورپ میں عام عیسائی سے لیکر ہٹلرکے قتل عام تک ان پر ہونے والے مظالم میں کسی بھی مسلمان کا ہاتھ تک نہیں تھا ۔ نہ مسلمانوں نے یہودیوں کو یروشیلم سے نکالا ،نہ ہی ان کو غلام بنایا ، نہ ان کا ہیکل توڑا اور نہ ہی ان کے ساتھ کبھی غیر انسانی رویہ اپنایا۔

اس کے برعکس مسلمانوں نے یہودیوں کے ساتھ بہتر سلوک کیا، ان کو عزت دی اور ان کے حقوق کا ہمیشہ خیال رکھا۔ 637ء میں یروشیلم حضرت عمرؓ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ اس فتح پر حضرت عمر ؓ اور رومی گورنر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے معاہدہ عمریہ کہتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسلمانوں کے یروشیلم فتح کرنے سے پہلے عیسائیوں نے یہودیوں کے یروشیلم میں آنے پر پابندی لگا رکھی تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ نے یہ پابندی ختم کی اور یہودیوں کویروشیلم میں داخل ہونے اور دیوار گریہ پر عبادت کرنے کی اجازت دی۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply