دنیا ایسی ہوتی ہے/ادریس آزاد

ہم گھُٹ گھُٹ کرجیناسیکھ چکے تھے۔ شُودروں کے بچوں کی طرح ہمارا ایمان بن چکا تھا کہ ہم حقیرپیداکیے گئے ہیں۔آدھی آدھی صدی پر محیط عُمریں گزارلینے کے بعد بھی ہم اُس رَمق سے محروم تھے جسے زندگی کہتے ہیں۔ ہمارے والدین نے ہمیں بچپن سے ہی یہ احساس دلانا شروع کردیا تھا کہ اگرعزت سے زندگی گزارنی ہے تو سرکاری نوکری کرو۔حالانکہ ہمارے والدین اندر ہی اندر یہ جانتے تھے کہ سرکاری نوکری سے عزت کی نہیں بدمعاشی کی زندگی میسر آئےگی۔ وہ چاہتے بھی یہی تھے کہ ہم بدمعاش بن کر جئیں گے تو شاید جی پائیں۔اسی لیے وہ ہمیں سرکاری نوکر لگوانا چاہتے تھے۔
وہ کہتے تھے کہ اگرسرکاری نوکری نہیں کرنی توپھر کسی طرح پیسے کماؤ! وہ جانتے تھے کہ پیسے سے ہم سب کچھ خرید سکتے ہیں، یہاں تک کہ ایک سرکاری افسر کو بھی۔ اوراس طرح بھی ممکن ہے ہم بہترزندگی جیناسیکھ لیں۔

ہمارے آس پاس سب ہی ایسا سوچتے تھے۔وہ ایک باقاعدہ الگ زمانہ تھا۔ایک پولیس والا پورے محلّے کو ڈرالیتا تھا۔ میرے جیسا، ہروقت کتابیں پڑھنے والا بندہ بھی تیس سال کی عمر تک یہ نہ جان سکا تھا کہ جسمانی ریمانڈ کا مطلب ’’چھِترمارنا‘‘ نہیں ہے۔قانون میں جسمانی ریمانڈ کا مطلب ہے کہ بندے کو جسمانی طورپرنہایت عزت کے ساتھ، ایک آرام دہ کرسی پر، اپنی آنکھوں کے سامنے موجود رکھناتاکہ اس سے سوال جواب کے ذریعے معلومات حاصل کی جاسکیں۔

تھانے کا میرا پہلا تجربہ مڈل سکول کی عمر میں ہوا تھا، جب مجھے میرے والد صاحب نے کسی کام سے تھانے بھیجا تھا۔میری شکل و صورت اچھی تھی تو تھانیدار نے مجھے دیکھتے ہی کہا،

’’جس کے ہونٹ گلابی دنیا اس کی ہے
جس کے نین شرابی دنیا اس کی ہے‘‘

مجھے یہ شعر آج تک نہیں بھولا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیگر محکموں کے ساتھ واسطے پڑتے گئے اور ذہن بنتاچلا گیا کہ ’’دنیا ایسی ہی ہوتی ہے‘‘۔

کبھی کسی بچے نے اپنے والدین سے یہ سوال کیا ہے کہ ٹی وی کیسے چلتاہے؟ فریج کیونکر چیزیں ٹھنڈی کرتاہے؟ کوئی دوائی کیوں اثرانداز ہوتی ہے؟وغیرہ وغیر؟ نہیں نا؟ اس لیے نہیں، کیونکہ بچہ ان چیزوں کے ساتھ بڑا ہوتاہے۔بالکل ایسے ہی ہم بھی نظام کی اُن خرابیوں کے ساتھ بڑے ہورہے تھے اور ہمیں کبھی یہ خیال تک نہ آتاتھا کہ ہمارے آس پاس جو کچھ ہورہاہے یہ غلط ہے۔

پھر کبھی کبھار یورپ اور امریکہ سے آئے ہوئے پاکستانیوں سے ملاقات ہوتی تو وہ لوگ وہاں کی کہانیاں سناتے۔ کیسےوہاں کے لوگ آزادی کے ساتھ جیتے ہیں۔ وہاں انصاف کتناہے۔ عدالتیں کیسے کام کرتی ہیں۔لوگوں کی عزتِ نفس کتنی بلند ہے۔کوئی پولیس والا کسی کو گندی گالی نہیں دےسکتا۔ ’’چھترول‘‘ کا کوئی تصورنہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

حیرت تو ہوتی تھی، لیکن احساس میں تبدیلی پھر بھی پیدا نہ ہوتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے یورپ اور امریکہ کے لوگ کسی اور دنیا کے انسان ہیں۔ وہ ہمارے جیسے لوگ نہیں ہیں۔ان کے ڈی این اے میں ہی کوئی کمال ہے۔ جبکہ ہمارے ڈی این اے میں ہی کوئی مسئلہ ہے۔ہماری نسل ہی خراب ہے۔ اور اس لیے ہم ہمیشہ نااہل رہیں گے۔

ہمارا یہ احساس بہت پرانا تھا۔ یہ خرابی دوصدیوں پر محیط تھی۔پہلی صدی وہ تھی جب استعمار نے جان بوجھ کر ہمیں حقیر اورشرمندہ کیے رکھا تاکہ ہم اُٹھنے کے قابل نہ رہیں۔یہ صدی جنگِ پلاسی(1757) سے شروع ہوکرجنگِ آزادی(1857)تک تھی۔ دوسری صدی وہ تھی جس میں سرسید احمد خان نے ہمیں شرمندہ کروایا۔جب اُنہوں نے اپنے احساسِ جُرم(guilt) کو چھپانے کے لیے معذرت خواہانہ لہجہ اختیارکرلیااورہم میں سے ہر ایک کو یہ احساس دلایا کہ ہمارا ماضی شرمناک، ہماری تہذیب واہیات، ہمارے علوم بےکار اور ہمارا کلچرقابلِ نفرت ہے۔

پھر پاکستان بن گیا، جہاں سرسید احمد خان کا پسندیدہ لارڈمیکالے کا نظامِ تعلیم جاری کردیاگیا۔جس میں ہمیں انگریزکی غلامی کے مختلف طریقے سکھائے جاتے تھے۔ جس میں ہمیں ایک ایسی کنزیومرسوسائٹی بنایا جاتا تھا جو مغربی ممالک کو خام مال مہیا کرسکے اور پھر اُن کی بنائی ہوئی مصنوعات خریدتی رہے۔

بہت وقت گزرگیا۔ہماری کئی نسلیں دنیاسے گزر گئیں۔اس دوران اقبال کی چُنیدہ شاعری کے ذریعے ہمیں دلاسے دیے جاتے رہے کہ نہیں نہیں، مایوس ہونا ٹھیک نہیں۔ ہمارا ماضی اتنا بھی شرمناک نہیں ہے۔ہم نے افریقہ کے صحرا فتح کیے ہوئے ہیں۔ محمد بن قاسم ایک لڑکی کی پکار پر کراچی آیا تھا۔ محمودغزنوی بُتوں کو پاش پاش کرنے کے لیے آیا کرتاتھا۔مسجدِ قرطبہ میں ہماری شان اب تک دفن ہے۔ یورپ کی لائبریریوں میں ہماری کتابیں اب بھی پڑی ہمارے دلوں کو پارہ پارہ کررہی ہیں۔لیکن جب بات آتی تھی کہ ہمارے بچے کون سی تربیت کے ساتھ بڑے ہوں تو ہمیں بتایا جاتا تھا کہ اصل تہذیب وتمدن وہ ہے جو اہلِ مغرب کے پاس ہے۔ اس کا کچھ نوآبادیاتی قسم کا حصہ وہ ہمیں بھی دے گئے ہیں۔اگرہم آئندہ بھی اُن کی سرپرستی میں رہیں گے تو ضرور’’کچھ نہ کچھ جی پائیں گے‘‘۔اگرہم ان کی مخالفت کریں گے تو وینٹی لیٹر پرچلے جائیں گے۔ اصل عقل انہی کے پاس ہے، ہم تو بے عقل ہیں۔ اصل تہذیب انہی کے پاس ہے ہم تو گنوار ہیں۔سرسیدکا لگایا ہوا ٹیکہ گویا ہیروئن کا ایسا انجکشن تھا جس کے اثر سے ہمارے رہے سہے قویٰ بھی گَلنے سڑنے لگ گئے۔

اورپھر جب کوئی قوم ایسی حالت میں چلی جائے تو اس کے وہ تخلیق کار جنہوں نے سائنسدان بننا ہوتاہے، وہ شاعربننے لگتے ہیں۔قوم کی بے بسی کا بین اورزیادہ بلند آواز میں گونجتاہے تو آنے والی نسلوں کو بھی یقین ہوجاتاہے کہ ہمارے ہاتھ پیرتو ٹُوٹے ہوئے ہیں۔ ہم لُولے لنگڑے بیچارے کر ہی کیا سکتے ہیں؟ چلو! کوئی بات نہیں جینے کے لیے کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے۔

یہ وقت کسی بھی قوم کے مذہبی پیشواؤں کا پسندیدہ ترین وقت ہوتاہے۔ یعنی وہ وقت جب لوگ سہاروں پرچلنے کو اپنا مقدرسمجھیں۔مذہبی پیشوائیت فوراً آگے بڑھ کرلوگوں کو آسمانی سہاروں کی طرف مائل کرنے کے کام پر لگ جاتی ہے۔یہی موسم ہوتاہے شیطان کے کھل کرکھیلنے کا۔ دعائیں، وظیفے، نمازیں، تسبیحات، غرض ہر وہ وسیلہ جو نااہلوں، کم ہمّتوں، ہڈحراموں کو وقتی طورپربطورافیون فراہم کیاجاسکتاہے، لوگوں کا مرغوب ترین مشغلہ بن جاتاہے۔ذراذرا ساکام خُدا سے کہنے کی عادت پڑجاتی ہے۔اورلوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ترک کردیتےہیں۔

معاشرے میں مذہبی شکلوں والے لوگ بڑھ جاتے ہیں۔ خصوصاً نااہل اورکم ہمت نوجوانوں کے چہروں اورحُلیوں میں مذہب گھُس جاتاہے۔اورقوم کی قوم گویا ویٹیکن میں بدل جاتی ہے۔اوریہی سب کچھ ہمارے ساتھ ہوا۔مؤرخین ایسے ادوار کو تاریک ادوار (dark ages) کے نام سے یاد کیا کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن پھر نہ جانے اِس قوم نے اپنی عُمر کے کس مرحلے میں کوئی ایک آدھ اچھا کام کرلیاتھا کہ جس کے انعام کے طورپر اس قوم کو ایک ایسا کھرا، مخلص، دیانتدار، شریف الطبع، صاحبِ مطالعہ، باہمّت، کسرتی، خوددار اور غیرت مند رہبرمیسرآگیا کہ اِس قوم کی تقدیر نے کروٹ بدلنا شروع کردی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply