مقبول بھٹ شہید کی جدو جہد اور ہماری ذمہ داری/قمر رحیم

بابائے قوم جناب محمد مقبول بھٹ شہید 18 فروری 1938ء کو ریاست جموں کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے گاؤں تریگام میں پیدا ہوئے۔ ریاست میں مہاراجہ ہری سنگھ کی مطلق العنان حکومت تھی جس میں عوام جاگیردارانہ نظام کے جبر کا شکار تھے۔ کئی ایک ظالمانہ ٹیکسوں کے علاوہ فصلوں پر مالیہ اتنا زیادہ تھا کہ اس کی ادائیگی کے بعدگھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آجاتی تھی۔ مقبول بھٹ آٹھ سال کی عمرمیں اس جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ایک دن جب مقامی جاگیردار اپنے عملہ کے ساتھ گاڑی پرگاؤں سے گزر رہا تھامقبول بھٹ گاؤں کے دیگر بچوں کو اپنے ساتھ لے کر جاگیر دار کی گاڑی کے سامنے لیٹ گئے۔ان کا مطالبہ یہ تھا کہ اناج کی لوٹ کھسوٹ ختم کی جائے ورنہ فاقہ کشی سے مرنے سے بہتر ہے کہ گاڑیاں ان کے اوپر سے گزار دی جائیں۔ یہ بچے سڑک سے اس وقت اٹھے جب جاگیردار نے ان کی شرائط مان لیں۔

اس زمانے میں امیرا ورغریب کے درمیان بہت زیادہ تفریق برتی جاتی تھی۔ تریگام کے پرائمری سکول میں سالانہ نتائج میں تقسیم ایوارڈ کی تقریب میں امیر والدین کو کرسیوں پر جبکہ غریب والدین کو دوسری طرف زمین پر بٹھایا جاتا تھا۔بھٹ صاحب نے اپنا ایوارڈلینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب تک غریب والدین کو کرسیوں پر نہیں بٹھایا جاتا وہ ایوارڈ نہیں لیں گے۔اس احتجاج پر یہ تفریق ختم کر دی گئی۔1956ء میں انہوں نے سینٹ جوزف کالج بارہ مولہ میں داخلہ لیا۔ جہاں وہ ہم نصابی سر گرمیوں کے علاوہ محاذ رائے شماری کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ اس دوران وہ گرفتاربھی ہوئے ۔ 1958ء میں بی اے کرنے کے بعد وہ پاکستان ہجرت کرگئے اور پشاور یونیورسٹی سے اردو لٹریچر میں ایم اے کرنے کے بعد روزنامہ انجام کے ساتھ منسلک ہو گئے۔1961ء میں انہوں نے ایوب خان کے متعارف کردہ بنیادی جمہوریت کے تحت ہونے والےکشمیر سٹیٹ کونسل کے الیکشن میں پاکستان میں مقیم کشمیریوں کی سیٹ پرحصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔

1963ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان اس بات پر مذاکرات شروع ہوئے کہ ریاست جموں کشمیر کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا جائے۔ اس کے ردعمل میں امان اللہ خان نے مئی 1963 ء میں “کشمیر انڈی پنڈینس کمیٹی” کا قیام عمل میں لایا۔ بھارت پاکستان کے درمیان یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔البتہ کمیٹی کے ممبران اور دیگر کئی نوجوان کشمیر کی آزادی کی تحریک کو منظم کرنے پر غوروفکر کرتے رہے۔ 1965ء میں یہ لوگ سیالکوٹ کے راستے ریاست کے علاقے سچیت گڑھ گئے اور وہاں سے مٹی اٹھا کر لائے جس پر انہوں نے عہد کیا کہ وہ وطن کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے۔ یہ قسم اٹھانے کے بعد انہوں نے “محاذ رائے شماری” کی بنیاد رکھی۔عبالخالق انصاری محاذ کے صدر، امان اللہ خان جنرل سیکریٹری اور مقبول بھٹ پبلسٹی سیکریٹری بنے۔

مقبول بھٹ ریاست کی آزادی کے لیے گوریلا وار کے حامی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ محاذ کا ایک مسلّح ونگ بنایا جائے لیکن اس پر اتفاق رائے نہ ہوسکا۔بعد ازاں جب انہیں کچھ اور ساتھیوں کی حمایت حاصل ہو گئی تو انہوں نے “نیشنل لبریشن فرنٹ” (این ایل ایف)کے نام سے ایک تنظیم بنا لی۔سب ممبران نے اپنا خون نکال کر اس سے ایک حلف نامہ لکھا کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے جان دینے کو تیار ہیں۔ اگلے دس ماہ کے دوران انہوں نے نوجوانوں کو تنظیم کا ممبر بنایا اور انہیں گوریلا وار کے لیے ٹریننگ دینا شروع کی۔جون 1966ء میں این ایل ایف کے دو گروپ سیز فائر لائن کراس کر کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے تاکہ وہاں کے مقامی نوجوانوں کو ٹریننگ کے لیے ریکروٹ کر کہ آزاد کشمیر بھیجا جائے۔پہلے گروپ میں مقبول بھٹ، گلگت سے ایک طالب علم طاہر اورنگ زیب، جموں سے میر احمد اور ریٹائرڈ صوبیدار کالا خان شامل تھے۔جبکہ دوسرا گروپ میجر امان اللہ خان کی قیادت میں کپواڑہ کے جنگلوں میں نوجوانوں کو ٹریننگ دینے میں مصروف تھا۔ اسی دوران پہلے گروپ کی پولیس سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ انہوں نے ایک سی آئی ڈی انسپکٹر کو اغوا کر لیا اور جب اس نے بھاگنے کی کوشش کی تو اسے گولی مار دی گئی۔گروپ اور پولیس کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں کالا خان شہید ہو گئے جبکہ بھٹ صاحب اور میر احمد گرفتار ہو گئے۔ستمبر 1968ء میں سری نگر کورٹ نے انہیں قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا سنادی۔ دوسری طرف میجر امان اللہ خان واپس آگئے جہاں پاکستان میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

دسمبر 1968ء میں مقبول بھٹ صاحب، میر احمداور اپنے جیل کے ایک اور ساتھی غلام یاسین کے ساتھ بھارتی کشمیر کی جیل سے سرنگ کھود کر فرار ہو ئے اورشدید برف باری اور سردی میں پا پیادہ چل کر مظفرآباد پہنچے۔ یہاں پاکستان نے جیل سے فرار کو شک کی نظر سے دیکھا اور تینوں لوگوں کو کئی ماہ تک جیل میں رکھا اور ان پر بے انتہا تشدد کیا گیا۔مقبول بھٹ شہید نے کشمیر کے مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے فلسطینی مجاہدین کی طرز پر انڈین طیارے کو ہائی جیک کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس کے لیے ہاشم قریشی اور ان کے کزن اشرف قریشی ہائی جیکر بننے کے لیے تیار ہوئے۔ انہیں ٹریننگ دی گئی اور 30 جنوری 1971ء کو انہوں نے بھارت کا طیارہ گنگا ہائی جیک کر کہ لاہور ائر پورٹ پر اتار لیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ہائی جیکرز کو ائر پورٹ پر جا کر ملے اور انہیں اس مہم پر مبارک باد پیش کی۔اگلے چند دنوں تک ہائی جیکرز کو پاکستان کا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ لیکن بعد ازاں سب کچھ الٹ ہو گیا۔ ہائی جیکرز سمیت محاذ رائے شماری کے 150لوگ گرفتار ہوئے۔جبکہ ہاشم قریشی کا کہنا تھا کہ یہ تعداد 400 کے قریب تھی۔انہیں بدنام زمانہ شاہی قلعہ اور دیگر جیلوں میں رکھ کر تشدد کیا گیا۔ ہائی کورٹ میں ان پر کیس چلا جس میں سب باعزت طور پر بری قرار دیے گئے اور کورٹ نے تسلیم کیا کہ یہ بھارت کے ایجنٹ نہیں بلکہ اپنے وطن کے ہیرو ہیں۔ ہاشم قریشی کا البتہ 8 سال سزا ہوئی۔

اس کے بعد مقبول بھٹ دوسری مرتبہ بھارتی مقبوضہ کشمیر گئے تاکہ وہاں پر اندرا عبداللہ ایکارڈ سے مایوس اور سراپا احتجاج نوجوانوں کو آزادی کی تحریک کے لیے منظم کیا جاسکے اور انہیں گوریلا ٹریننگ بھی دی جائے۔ لیکن ایک بنک منیجر مخبری کے باعث ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں مارا گیا اور وہ ایک مرتبہ پھر گرفتار ہوئے اور دوسری مرتبہ انہیں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ بھٹ صاحب اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے کئی ایک کوششیں ہوئیں۔ جن میں 1976 ء میں انڈین طیارے کا اغوا اور دہلی میں 1981ء میں ہونے والی غیر جانبدار ملکوں کی کانفرنس کے ہال کو بم سے اڑانے کی ناکام کوشش بھی شامل تھی۔ اسی دوران اما ن اللہ خان جو بھٹ صاحب کی گرفتاری کے بعد انگلینڈ چلے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے محاذ رائے شماری کے انگلیڈ چیپٹر کو ختم کر کہ مئی 1977ء میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا قیام عمل میں لایا اور ساتھ ہی اس کا مسلّح ونگ “نیشنل لبریشن آرمی ” کے نام سے قائم کیا۔ نیشنل لبریشن آرمی نے انگلینڈ میں بھارتی سفارتکار روندرا مہاترے کو اغوا کر لیااور رہائی کے لیے مقبول بھٹ اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔لیکن دو ہی دن بعد مہاترے کو قتل کر دیا گیا۔

اس کے بعد بھٹ صاحب کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کر دی گئی اور 11 فروری 1984ء کو انہیں دلّی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔بھارتی حکومت مقبول بھٹ کی جدو جہد سے اس قدر خوفزدہ تھی کہ اس نے شہید کا جسد خاکی بھی ورثا کے حوالے نہ کیا۔ بھارتی حکمرانوں نے شاید یہ سوچا تھا کہ ریاست میں آزادی کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو ہمیشہ کے لیے دبا دیا گیا ہے۔ لیکن نتائج ان کی توقعات کے بر عکس نکلے۔ وہ لوگ جو اپنی قیادت سے بری طرح مایوس ہو چکے تھے ، انہوں نے جب دیکھا کہ ایک شخص ان کی آزادی کی خاطر پھانسی کے پھندے پہ جھول گیا ہے تو انہوں نے بھی موت کو اسی خوبصورت انداز میں گلے لگانے کا عہد کر لیا۔مقبول بھٹ اشتراکی نظریات کے حامل ایک روشن خیال، ترقی پسند لیڈر اور گوریلا کمانڈر تھے۔ آٹھ برس کی عمر میں جدوجہد شروع کرنے والا دھرتی کا یہ عظیم سپوت آج منوں مٹی تلے سویا ہے۔ ایسے حال میں کہ اس کی لاش بھی قید میں ہے۔ لیکن اس کی لازوال جدو جہد پوری دنیا کی تاریخ حریت میں ایک روشن باب بن چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مقبول بھٹ شہید کے نظریات کو ماننے والے آج بھی استقامت کے ساتھ اپنی جدو جہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انتہائی نا مساعد حالات میں وہ جس قربانی کے ساتھ اپنے عوام کے حقوق اور قومی آزادی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگائے ہوئے ہیں اس کی مثال فلسطینیوں کے علاوہ کم ہی دستیاب ہے۔ لیکن ان کے اندر کچھ خامیاں یا کمیاں ایسی ہیں جنہیں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آئیے بابائے قوم کے چالیسویں یوم شہادت پر ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنی ان تمام کمزوریوں کو دور کریں گے ، اپنے درمیان اختلافات کو کم کرتے ہوئے متحد ہو کر اس جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے۔جے کے ایل ایف کے مختلف دھڑے اپنے اختلافات کو سمیٹنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کر چکے ہیں جو بہت حوصلہ افزا اقدام ہے۔ اس کے ساتھ اگر تمام آزادی پسند جماعتوں کی قیادت پر مشتمل ایک کمیٹی ہی بنادی جائے ، جو کسی نئے اتحاد کی تشکیل کی بجائے اپنی موجودہ جدوجہد کے حاصلات اور کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہو ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply