عنوان۔۔اشفاق احمد

کوئی  سا جملہ یا لفظ ہی عنوان ہوتا ہے جس کے تحت ہماری عمر گزرتی ہے۔ یہ ایک عنوان ہی ہماری شخصیت کے خدوخال طے کرتا ہے۔ جن کو ملا ہوتا ہے ان پر بہت سی حقیقتیں آشکار ہو جایا کرتی ہیں۔

خود کے ساتھ گزرتی ساعتوں میں یہ عنوان ضرور ڈھونڈئیے گا۔ نہیں ملتا تو تلاش نہ چھوڑئیے گا۔ تلاش سے بھی نہ  ملے تو تراش لیجیے گا۔

تراشنے میں بھلے وقت لگ جاۓ لیکن اِس بات کا دھیان رہے کہ یہ آپ کے مزاج کے عین مطابق ہو اور دوسرا یہ کہ یہ عنوان اتنا جامع ہو کہ ہر اُس بات کا احاطہ کرے جو آپ کی فطرت اور مَن میں پوشیدہ ہے۔ یہ مل جاۓ یا بن جاۓ تو اِسے تکرار کے ساتھ خیال کا حصہ بنا لیجیے گا۔

عنوان میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ رُغبت، جستجو، خواب اور لگن سبھی پھر اِس کے زیرِ اثر آجاتے ہیں۔

یہ پھر دھیرے دھیرے آپ کی جاری داستان کا عنوان بن جاتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ شعوری عمر کے کسی بھی حصے میں ہم یہ عنوان خود پالیں۔ ہم ایسا نہ کریں تو داستانیں بھی تھک ہار کر آخر کار عنوان بنا ہی لیتی ہیں لیکن ایسی داستانوں میں پھر پروئی  لڑی کے جیسا سرور نہیں ہوتا، کیونکہ داستان اور عنوان کو ایک دوسرے کے تابع ہونے میں عرصہ بیت جاتا ہے۔ یہ دائرے میں گھومتی محسوس ہوتی ہیں۔

کوئی  بامعنی سا عنوان اگر داستان بُننا شروع کردے تو اُس کا لطف الگ ہے۔ یہ رفتہ رفتہ عمر سے زندگی کی طرف مائل کر دیتا ہے۔ پانی کی طرح ایسی رواں زندگی کہ کثافتوں کو خود میں تحلیل کرنے سے انکار نہ کرے اور لطافتوں میں جذب ہونے میں اِسے کوئی  تامل نہ ہو۔
بلا عنوان سی عمر تو پتھر بنا دیتی ہے کہ ریزہ ریزہ ہوجاۓ لیکن کثافتوں کو تحلیل کرنے اور لطافتوں میں جذب ہونے کا ہر امکان کھونے پر آمادہ ہو۔

میں اپنی کہوں تو میں نے بہت پہلے اپنے لیے “آغاز کی طرف سفر” کا عنوان پایا تھا۔ یہ خیال دھیرے دھیرے اتنا راسخ ہوا کہ اب کافی کچھ اِس کے زیر اثر لانا گویا مشغلہ سا بن چکا ہے۔ کسی سنگِ میل پر منزل کے سراب نے سرِراہ پہلے جتنا تھکایا تھا، اب وہ تھکن کافی کم ہوچکی۔ خدا کا شکر ہے کہ روز و شب کی ساعتوں میں غم، درد، خوشی اور سرور کی کوئی  سی کیفیت جب ملنے آتی ہے تو ہمراہ اُمید کے ایک سفید سے ہیولے کی موجودگی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ تب میں ہر اُس کیفیت کے لیے دروازہ کھول دیتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کمزوری اور لڑکھڑاہٹ تو ہوتی ہے کہ ہم انسان بہرحال بہت کمزور ہیں۔ لیکن رب کا احسان کہ اُس کی طرف سے مَن میں بویا منزل کا دُھندلا سا تصور کبھی ٹوٹنے نہیں دیتا۔
بس اتنا یاد رکھیے گا کہ عنوان تلاش کرتے یا تراشتے وقت اپنے اندر موجود “بچے” کو پاس رکھیے گا۔ یہ کام صرف وہی اندر موجود بچہ کر سکتا ہے۔ بڑے تو سیانے ہوتے ہیں ناں، یہ صرف کردار نبھا سکتے ہیں، عنوان کی نوک پلک درست کرنا اِن کے بس کا روگ نہیں۔ یہ عنوان بنا بھی دیں تو وہ دائرے پر محیط ہوتا ہے، وسعت سے کوسوں دور۔
گُھٹن زدہ سا دائرہ۔
ہاں یاد آیا، جن دنوں یہ عنوان مجھ پر اثر انداز ہوا تھا، تب پہلی کراہت مجھے گُھٹن کے لفظ سے ہوئی  تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply