ماں باپ کی زیادہ عمر اور ڈاؤن سنڈروم کا تعلق۔۔خطیب احمد

(اہل علم جانتے ہیں کہ صحت اور علاج کے معاملات میں شریعت نے انسان کے تجربے پر مدار رکھا ہے۔ جس چیز کا نقصان طبی تحقیق اور تجربے سے واضح ہو جائے، اس سے گریز کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق معلوم ہے کہ آپ نے توالد وتناسل سے متعلق بعض طریقوں سے اس بنیاد پر منع کرنے کا ارادہ فرمایا کہ ان سے بچوں کی صحت پر زد پڑتی ہے، لیکن پھر معلومات کی اطمینان بخش تصدیق نہ ہونے پر ارادہ تبدیل فرما لیا۔

جدید طبی تحقیقات کی رو سے لڑکی کی شادی کم سے کم کس عمر میں ہونی چاہیے اور بچوں کی پیدائش زیادہ سے زیادہ کس عمر تک ہونی چاہیے، اس کے متعلق اس تحریر میں ضروری معلومات دی گئی ہیں۔ مسلمان ثقافتوں میں بلوغت پر اور بعض حالات میں بلوغت سے پہلے جنسی خواہش پیدا ہو جانے کی عمر میں بھی شادی کا رواج رہا ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر طبی تحقیق ان زمانوں میں ان نتائج تک پہنچ چکی ہوتی جن تک آج پہنچی ہے تو فقہی روایت میں بھی جواز وعدم جواز کی صورت مختلف ہوتی۔ بہرحال، اصل چیز اصول ہے۔ اطلاقی فیصلے انسان کے علم کی حدود کے تابع ہوتے ہیں۔ علم میں بہتری اور وسعت آنے پر فقہی آرا کو بھی اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہماری فقہی روایت میں یہ صلاحیت بحمد اللہ ہمیشہ موجود رہی ہے۔ مدیر)

کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک لڑکی جب ماں کی کوکھ میں موجود ہوتی ہے (fetal life) تو اسکے پاس 60 سے 70 لاکھ انڈے (oocytes) ہوتے ہیں۔ جو اپنی تخلیق کے اگلے لمحے سے ہی خودکار عمل کے ذریعے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور نو ماہ کے حمل میں بچی کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی 50 سے 60 لاکھ انڈے ختم ہوچکے ہوتے۔ ایک لڑکی ایورج 10 لاکھ بیضوں (Eggs) کے ساتھ اس دنیا میں آنکھ کھولتی ہے۔ جو اسکی دونوں اووریز میں موجود ہوتے ہیں۔

اب پیدائش کے بعد پہلے ماہ سے ہی ہر ماہ تقریباً 10 ہزار Immature انڈے خود ہی مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کی سپیڈ انکی یوٹرس میں ہونے والی موت سے اب قدرے کم ہوگئی ہے۔ لڑکی کے 8 سے 15 سال کی عمر میں بالغ ہونے تک انکی ایورج تعداد 3 سے 4 لاکھ رہ چکی ہوتی۔

انڈے موجود ہیں تو مینسٹرل سائیکل پیدائش کے فوراً بعد کیوں نہیں شروع ہوتا؟

لڑکی جب بلوغت کی ایورج عمر 12 سال (جو کہ ہر لڑکی کی ایک دوسرے سے مختلف ہے) کو پہنچتی ہے تو اسکے برین میں موجود hypothalamus سب سے پہلے ایک gonadotropin-releasing hormone (GnRH) نامی ہارمون پیدا کرنے کا آرڈر جسم کو جاری کرتا ہے۔ حکم کی من و عن تعمیل میں GnRH متحرک کرتا ہے pituitary gland کو کہ اب آگے تم follicle-stimulating hormone (FSH) پرڈیوس کرو۔ یہ FSH ہارمون egg development کا پراسس شروع کرانے کے لیے فی میل ہارمون ایسٹروجن estrogen لیولز کو ہائی کرنا شروع کرتا ہے۔ اور لڑکی کا موڈ زندگی میں پہلی بار عجیب کچا پکا سا ہونے لگتا۔ پہلے پیریڈز ہوتے اور زندگی کے پہلے پیریڈز کے پہلے دن کو کاؤنٹ کرکے آگے تقریباً چودھویں دن ovulation کے بعد ایک انڈہ اووری سے باہر نکل کر فلاپئین ٹیوب میں محض 12 سے 24 گھنٹوں کی زندگی لے کر آجاتاہے۔ لڑکی ماں بننے کے لیے تیار ہے۔ جہاں پہلے سے موجود سپرم یا ان 12 سے 24 گھنٹوں کے اندر آکر fertilization کا پراسس مکمل کرکے زائگوٹ بن جاتے ہیں۔

بلوغت چاہے 10 سال میں کیوں نہ آجائے مگر 18 سال سے کم عمر لڑکی ہر گز ماں نہ بنے۔

موضوع پر واپس آتے ہیں کہ لڑکی کی پیدائش کے بعد چاہے اسکی سو سال زندگی ہو کوئی ایک انڈہ بھی نیا پیدا نہیں ہوتا۔ پیدائشی طور پر موجود انڈوں میں سے ہی ہر مینسٹرل سائیکل میں ایک انڈہ رلیز ہو کر حمل کے لیے فلاپئین ٹیوب میں آتا ہے۔ جہاں سپرم کے ساتھ ملکر زائگوٹ بنتا۔

اسکے برعکس پیدا ہونے والا لڑکا نطفوں (Sperms) کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اسکی بلوغت کی عمر میں 74 دن کے سائیکل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور ہماری وفات تک نان سٹاپ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی موت کے بعد جب دل دھڑکنا بند ہوجاتا ہے اسکے بعد بھی جسم میں موجود سپرم کچھ دیر زندہ رہتے ہیں۔ مگر 35 سال کی عمر کے بعد انکی کوالٹی اور صحت دن بدن کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ لڑکے بھی دس بارہ سال کی عمر میں بالغ ہوتے ہیں۔ اور پیدا ہونے والے سپرم کی تعداد اور صحت کے بہترین سال 20 سے 30 تک ہی ہیں۔ ان سپرمز سے پیدا ہونے والے بچے کے چانسز ممکنہ طور پر والد کی طرف سے کسی معذوری یا بیماری میں جانے کے لیے کم ہوتے ہیں۔ نسبتاً ان بچوں کے جن کے والد کی عمر بچہ پیدا کرنے کے وقت 35 سال سے زیادہ ہو۔

ڈاؤن سنڈروم ایک کروموسومل ڈس آرڈر ہے۔ ایک سپرم میں 23 کروموسوم اور ایک بیضے میں بھی 23 کروموسوم ہوتے ہیں۔ یہ دونوں مل کر 46 بن جاتے ہیں۔ جب کسی وجہ سے ٹرائی سومی یا کوئی بھی جوڑا 3 کروموسوم بن جائیں تو کوئی کروموسومل ڈس آرڈر ہوتا ہے۔ کروموسوم نمبر 21 دو کی بجائے تین بن جائیں تو بچی ڈاؤن سنڈروم ہوگا۔ مگر یہ تین کروموسوم آخر ہوتے کیوں ہیں؟ لڑکی کی عمر کا تعلق کیسے ہوا؟ آئیے دیکھتے ہیں

اس سے پہلے میں نے ڈاؤن سنڈروم پر دو بڑی ہی مفصل اور مدلل تحریریں لکھیں۔ جن سے میرے سرکل میں موجود تمام ڈاکٹرز نے کلی اتفاق کیا۔ مگر کچھ دوستوں نے بات کو مذہبی رنگ دے کر کہا کہ ماں کی ذیادہ عمر کا ڈاؤن سنڈروم سے کوئی تعلق نہیں۔ اور کہا کہ والد کو کلین چٹ نہ دیں اسکی عمر بھی وجہ بن سکتی ہے۔ آئیے اس تحریر میں اس بات کا سائنسی اور علمی جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک اچھی خبر یہ ہے کہ جیسے ہی لڑکی بالغ ہوتی۔ پہلے جو ماہانہ 10 ہزار انڈے ضائع ہو رہے تھے۔ ان کے ضائع ہونے کی ماہانہ تعداد اب 1 ہزار ہو گئی ہے۔ یہ انڈے ہر روز مر رہے ہوتے یعنی ایورج 30 سے 35 انڈے ہر روز خود ہی ختم ہو رہے ہوتے۔ ایسا نہیں کہ ایک دم ایک ہزار مر جائیں گے۔ کیونکہ خدا نے رکھے ہی لاکھوں ہیں اور ان کا مرنا باقی بچنے والوں کے لیے ضروری ہے تو یہ خود کار پراسس جاری رہتا۔ ایک کچا انڈہ جو ایسٹروجن بڑھنے سے پک کر باہر خدا کے حکم سے باہر آیا وہ اب انسان بننے جا رہا ہے۔ اگر دو انڈے باہر آجائیں تو جڑواں بچے پیدا ہونگے۔ جتنے بھی پکے ہوئے انڈے اووری سے باہر نکلیں گے اتنے ہی بچے ہونگے۔ ایک انڈہ اگر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا تو جڑواں بچے ہم جنس و ہم شکل ہوتے ہیں۔۔دو الگ انڈوں سے پیدا ہونے والے بچے ہم جنس و ہم شکل نہیں ہوتے۔

جو انڈے لڑکی کی 20 سے 30 سال کی عمر میں رلیز ہوتے وہ صحت و سائز و کوالٹی کے اعتبار اسکی پوری زندگی میں رلیز ہونے والے انڈوں سے بہترین ہوتے ہیں۔ یہی دنیا بھر میں آئیڈیل عمر ہے بچے پیدا کرنے کی۔ جوانی اپنے عروج پر ہوتی اور ہر سال بارہ صحت مند بیضے قدرت عطا کر رہی ہوتی کہ اپنی فیملی مکمل کر لو۔

جیسے ہی لڑکی کی عمر 32 ہوتی فرٹیلیٹی گرنا شروع ہوجاتی ہے۔ انڈوں کی تعداد تو ہر دن کم ہو ہی رہی ہوتی۔ جو باقی بچتے وہ بھی دیکھیں 32 سال پرانے ہیں۔ جب آپ پیدا ہوئی تھیں وہ تب ہی آپکے ساتھ دنیا میں آئے تھے۔ وہ ہر ماہ نہیں بنتے بس سٹور سے باہر نکلتے ہیں۔

بات آئی اب سمجھ میں؟

ان انڈوں کی صحت و کوالٹی ان کی بائیو لاجیکل عمر کے ساتھ وہ نہیں رہی جو آپکی اور انکی اپنی 30 سال کی عمر تک تھی۔

لڑکی کی 32 سے 37 سال کی عمر کے دوران فرٹیلیٹی اس تیزی سے گرتی کہ نیچرل حمل کے چانس بہت کم رہ جاتے۔ 40 تک آکر فرٹیلیٹی خطرناک حد تک گر چکی ہوتی۔ آی وی ایف اور سروگیسی کے آپشنز پھر دنیا بھر میں اپنائے جاتے۔ اور اسی دوران پیدا ہونے والے بچوں میں سے اکثریت کروموسومل اناملی کے ساتھ پیدا ہوتی۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟

دونوں اووریز میں لاکھوں انڈے پڑے ہیں۔ ایک انڈے میں 23 کروموسوم کے جوڑے ہیں۔ خدا کے حکم سے ان کی Division کو Pause کیا گیا ہوا ہے۔ جیسے ہی ہر مینسٹرل سائیکل میں ایسٹروجن ہارمون کا لیول بڑھتا ہے ovulation پراسس سٹارٹ ہوتا تو ان لاکھوں انڈوں میں سے صرف ایک صحت مند انڈے کی فرٹیلائزیشن سٹارٹ ہوجاتی۔ اور اسکے کروموسومز Divide ہونے لگتے ہیں۔ اور یہ Division سپرم سے ملکر مکمل ہوجاتی۔ ہر یعنی ہر ایک کروموسوم پہلے اپنے ہی ساتھی کروموسوم sister strands سے الگ ہوتا اور پھر مخالف جنس کے کروموسوم سے ملکر کرکے اپنا اپنا جوڑا بنا لیتا ہے۔ یہ 23 جوڑے 46 کروموسوم ہوتے ہیں۔ جن کے اندر DNA ہوتا ہے۔ یہ ایک خلیہ پھر تیزی سے تقسیم ہونے لگتا اور ہم پانی سے خون اور پھر گوشت پوست کا انسان بن جاتے۔ ہمارے ہر تقریباً ہر خلیے میں آج 46 کروموسوم موجود ہیں۔ جو ہمارے سٹیم سیل میں تھے۔

اب ایک لڑکی کی عمر ہے 32 سال۔ یعنی جس انڈے سے بچہ ہونے جا رہا وہ بھی 32 سال پرانا انڈہ ہے۔ ہر انڈے میں پروٹینز ہوتی ہیں۔ انسانی انڈے میں پروٹینز کے دو لیولز یہ ہیں cohesin and securin۔ یہ پروٹین کے لیول عمر بڑھنے کے ساتھ اووری میں پڑے لاکھوں انڈوں میں سے دن بدن کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیول کا کم ہونے کا مطلب ہے کہ کروموسوم جب اپنے ہی جوڑے سے الگ ہوگا تو کوئی ایک آدھ کروموسوم اپنے ہی جوڑے سے چپکا رہ جائے گا۔ یعنی uneven کروموسوم کی division ہوگی۔ لڑکی کے سب کروموسوم جوڑے کھل کر ایک ایک ہو گئے اور لڑکے کے بھی ہوگئے۔ ایک یہ آپس میں ملاپ کرتے ہیں۔ ایک نمبر سے لیکر 23 نمبر والا کروموسوم اپنے ہی پارٹنر سے ملتا ہے۔

جب لڑکی کی عمر زیادہ ہوتی تو انڈے میں پروٹینز کا لیول کم ہوتا۔ 21 نمبر کروموسوم کا جوڑا جو لڑکی کا اپنا ہے وہ جدا نہیں ہوتا۔ اور ایک مرد کا کروموسوم بھی اس کے ساتھ مل جاتا ہے۔ تو یہ تین کروموسوم ہو جاتے۔ اسے Trisomy 21 کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ کام تقریباً اسی وقت ہوجاتا جس لمحے انڈہ اور سپرم آپس میں ملتے ہیں۔ ایسا نا ہونے کے برابر یا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ مرد کے سپرم میں موجود 21 کروموسوم جدا نہ ہو سکا ہو۔ اور ٹرائی سومی 21 ہو کر بچہ ڈاؤن سنڈروم ہوجائے۔ ایسا لڑکی کی طرف سے ہی اکثریت میں ہوتا ہے۔ اور پوری دنیا میں یہ بچے بڑی عمر کی لڑکیوں کے ہاں زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ گو چھوٹی عمر کی لڑکیوں کے ہاں بھی پیدا ہوتے ہیں مگر اکثریت میں ریشو بڑی عمر یعنی 32 سے 37 سال میں ماں بننا ہے۔

ڈاؤن سنڈروم کی سو فیصد وجہ یہ ایک ہی نہیں ہے۔ دیگر وجوہات آپ میرے دیگر مضامین میں پڑھ سکتے ہیں۔ اور نہ ہی ایسا ہے کہ زیادہ عمر کی لڑکی کے ہاں ڈاؤن سنڈروم بچہ ہی ہوگا۔ مگر عمر بڑھنے کے ساتھ رسک ضرور بڑھ جاتا ہے۔

یہ کوئی تھیوری نہیں ہے ناں کو ریسرچ ہے۔ جسکا آپ حوالہ مانگنے لگ جائیں۔ یہ وہ نیچرل پراسس ہے جو میرے آپ کے اور دنیا کے ہر مرد و عورت کے جسم میں اس دنیا کے پہلے انسان سے لیکر آخری انسان تک ایسے ہی ہوتا رہے گا۔

کوشش کریں آپ لڑکی ہیں یا لڑکا 30 سے پہلے اپنی فیملی دو تین بچوں کے ساتھ مکمل کر لیں۔ کیرئیر بنتا رہے گا یار۔ ایک بھی دائمی معذور بچہ پیدا ہوگیا تو بنا ہوا کیرئیر اور سب کچھ اندھیر ہوجائے گا۔ آپ اس صدمے کو نہیں سہہ سکیں گے۔ ڈاؤن سنڈروم ہو گیا تو ہو گیا یہ کنڈیشن ساری عمر ساتھ رہے گی۔ والدین کا سب سے بڑا مسئلہ ان بچوں کی معذوری کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ میرا بھی بچہ معذور ہو تو کیسے قبول کر لوں گا کہ یہ اب ایسے ہی رہے گا۔۔حالانکہ اسنے رہنا ویسے ہی ہوتا ہے۔

یورپ میں شادیاں بہت لیٹ ہوتی ہیں۔ وہ لوگ ڈاؤن سنڈروم کو اکثریت میں دوران حمل تشخیص ہوتے ہی ابارٹ کر دیتے ہیں۔ اور ایک بچہ نیچرل یا مصنوعی طریقہ حمل سے یا سرو گیسی سے پیدا کرکے ایک بچے کے ساتھ ہی فیملی مکمل کر لیتے ہیں۔

آپ نے معذور بچے بس دیکھے ہیں۔ میں بارہ سال سے دن رات ان کی تعلیم و تربیت سے منسلک ہوں۔ سپیشل بچوں کا استاد ہوں۔ انکے والدین سے روز ملتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کاش کوئی ہمیں وقت سے پہلے بتا دیتا۔ جنکو بتاتا ہوں روز لکھتا ہوں اور آپ بات سمجھتے ہی نہیں ہیں۔

والدین سے کہوں گا اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی 25 کے اوپر نیچے کرنے کی کوشش کریں۔ سادہ شادی کر لیں۔ لڑکے اور لڑکی والے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ مادی معیارات کی من پسند تلاش میں اپنے پوتوں دوہتوں کو معذوری نہ دیں۔

آپ لڑکی ہیں۔ عمر زیادہ ہے۔ شادی لیٹ ہوئی یا بچہ لیٹ پیدا ہوا۔ 32 سے 37 میں ریڈ لائن پر ہیں۔ مالک نے ایک بچہ صحت مند دے دیا بس کریں۔ زیادہ بھی ہو تو دو بچے کر لیں۔ وہ بھی رسک ہی ہے۔ ڈاؤن سنڈروم ضروری نہیں پہلا ہی بچہ بچی ہو دوسرا تیسرا چوتھا پانچواں چھٹا ساتواں آٹھواں بھی دیکھا ہے۔ جب بچہ سپیشل ہوتا تو بچوں کو عموماً بریک لگتی۔ اور کئی جگہوں پر تو وہ بھی نہیں لگتی دو تین چار تک بغیر کسی احتیاط کے سب کچھ اللہ کی سپرد کرکے اسباب سے منہ موڑ کر سپیشل بچے ایک ہی معذوری کے ساتھ پیدا کر لیے جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوران حمل اپنا اسکین کسی تجربہ کار ریڈیالوجسٹ سے کروایا کریں۔ ساری گائنی ڈاکٹرز پراپر الٹرا ساؤنڈ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اور ایک بچہ سپیشل ہو جائے تو دوسرے حمل سے پہلے کسی ماہر و پروفیسر ڈاکٹر گائناکالوجسٹ سے مشورہ کیا کریں۔ گو اسکی فیس زیادہ ہوگی مگر وہ آپکے بچے کی عمر بھر کی معذوری سے تو زیادہ نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply