• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہائبرڈ کلائمبنگ (Hybrid Climbing)- پہاڑوں کی دوست یا دُشمن؟-تحریر/عمران حیدر تھہیم

ہائبرڈ کلائمبنگ (Hybrid Climbing)- پہاڑوں کی دوست یا دُشمن؟-تحریر/عمران حیدر تھہیم

شہر کے کسی جدید سکول کی جونیئر کلاس کے طلباء کا مطالعاتی دورہ ایک جدید مُرغی خانہ یعنی Hatchery میں جاری تھا اور کلاس ٹیچر بچوں کو incubator میں لگے انڈوں کے بارے میں تفصیل سے بتا رہی تھی کہ کس طرح ایک انڈے کو ایک مخصوص درجہء حرات میں رکھ کر اُس سے چوزوں کی پیدائش کا عمل مُکمّل کیا جاتا ہے اسی دوران ایک بچّے نے ایک حیرت انگیز سوال کر کے کلاس ٹیچر کو لاجواب کر دیا۔ بچّے نے پُوچھا “ٹیچر ابھی کل ہی آپ نے ہمیں مامتا پر لیکچر دیا تھا اور آپ نے بتایا تھا کہ اس زمین پر موجود ہر مخلوق کے اندر مامتا کا جذبہ ہوتا ہے اور سب کے new born babies اپنی ماما سے بہت پیار کرتے ہیں تو ٹیچر ہمیں یہ بھی بتا دیجیے کہ کیا اس مشین (incubator) سے نکلنے والے بچّے بھی اپنی ماما سے پیار کریں گے اور کیا یہ مشین ہی اب انکی ماما ہوگی۔” ٹیچر کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا لہٰذا اُس نے بچّے کو naughty baby کہہ کر ٹال دینا ہی مناسب سمجھا۔

گُزشتہ سال جولائی 2022 میں پاکستانی سرزمین کے شہنشاہ پہاڑ K2 پر بین الاقوامی ‘ماؤنٹین ٹورسٹس’ کی جانب سے ہونے والی “رولر کوسٹر یلغار” کے بعد سے مَیں نے بوجوہ کوہ پیمائی کے موضوع پر لکھنا ترک کر دیا تھا۔ اُس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ جس انداز میں نیپالی کمپنیوں کی قیادت میں دیگر بین الاقوامی اور مقامی ٹور آپریٹرز نے جس بےدردی کے ساتھ تمام تر جدید کوہ پیمائی آلات و اوزار کے ساتھ لیس ہو کر صرف اپنی ذاتی تشہیر و کاروبار کو دوام بخشنے کےلیے قُدرت کی صنّاعی کے اس عظیم قُدرتی شاہکار پر مصنوعی طریقے سے حملہ کیا اور اسکی چوٹی کو سَر کرنے کےلیے پہاڑ کے برفانی سینے کو چَھلنی کیا اُس پر میرا دل کُڑھتا تھا۔ مَیں نے سوچ لیا تھا کہ مَیں جو دیوانوں کی طرح پاکستان میں کوہ پیمائی کے اصل فن اور سیاحت کے نتیجہ خیز فروغ کا خواب سجائے گُزشتہ کئی سالوں سے اپنے تئیں آگاہی مُہم چلائے ہوئے ہوں اُس کا کچھ بھی اثر نہ تو عام پاکستانیوں اور نہ ہی فطرت کے اصل نگہبان گلگت۔بلتستانی عوام پر ہو رہا ہے اور ہر طرف ایک مُجرمانہ خاموشی چھائی ہوئی ہے تو پھر مجھے کیا آفت آن پڑی کہ مَیں اس موضوع پر لکھ کر خُود کو ہلکان کرتا رہوں۔ لیکن کبھی کبھی دل مچل بھی اُٹھتا تھا خاص طور پر جب مجھے K2 کے کیمپ 3 کی بالائی ڈھلوانوں (upper slopes) پر ایک افغان کوہ پیما علی اکبر سخی کی موت یاد آتی تھی کہ کس طرح ایک پاکستانی ٹُور کمپنی نے محض اس لیے اُس بیچارے کو تنہا مصنوعی آکسیجن کے بغیر مرنے کےلیے چھوڑ دیا کیونکہ اُس کمپنی کے 6 پورٹرز کو اپنی کمپنی کے مالک کی بہن کو اس لیے K2 سر کروانے میں مدد دینا تھی تاکہ وہ اسے سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما کا ریکارڈ اپنے نام کر سکے۔۔ اس ظُلم پر کسی بھی پاکستانی کوہ پیما، کوہ پیما کمپنی یا اربابِ اختیار کو صدائے احتجاج بُلند کرنے کی توفیق ہونا تو درکنار اس واقعے کو منظر عام پر لانے والی دوسری پاکستانی خاتون کی زباں بندی کےلیے اُسے سوشل میڈیا پر طرح طرح کی bullying کرکے اُسے ہراساں کیا گیا۔ دل چاہتا تھا کہ اس پر لکھوں لیکن پھر مَیں نے سوچا کہ وہ خاتون خُود بھی تو ہائبرڈ کلائمبر ہے اور صرف اپنی ذاتی شہرت اور پذیرائی کےلیے کوہ پیمائی کرتی ہے۔ لہٰذا مَیں نے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ مَیں نے سوچا کہ K2 پہاڑ خود اس واقعے کا گواہ ہے کہ علی اکبر سخی کو کس طرح مرنے کےلیے تنہا چھوڑ دیا گیا اگر علی اکبر سخی پہاڑوں کا سچّا عاشق تھا تو عین ممکن ہے ایک دن پہاڑ ہی علی اکبر سخی کے قاتلوں سے اپنے عاشق کا بدلہ لے لے۔ بہرحال بہت دردناک کہانی تھی جسے نائلہ کیانی منظرِ عام پر لائی اور پھر اس واقعے پر پہلے عالمی شہرت یافتہ ExplorersWeb کی خاتون لکھاری Angela Benavides نے ایک تفصیلی آرٹیکل لکھا اور پھر BBC Urdu نے بھی لکھا۔ ان آرٹیکلز میں بیان کیے گئے حقائق کا متذکرہ پاکستانی کمپنی کے پاس کوئی معقول جواب نہیں کہ آخر کیوں افغانی کلائمبر کے ساتھ ایسی criminal negligence برتی گئی۔ افغان کلائمبر کی بیوی کریمہ اور اُسکے بچّوں کی پاکستان میں کہیں بھی شُنوائی نہ ہو سکی اور یوں وہ بھی بالآخر تھک ہار کر خاموش ہو چکے ہیں لیکن علی اکبر سخی کا بیٹا آج بھی اپنے بابا کی طرف سے بھیجے گئے آخری واٹس ایپ پیغامات کو گلے سے لگا کر سوتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اس واقعے کی ذمّہ دار پاکستانی کمپنی نے علی اکبر سخی کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ بھی علی اکبر سخی کی بیوی کریمہ کو واپس نہ کیا اور اگر کیا بھی تو تمام ثبوت مٹا کر۔
جبکہ گلگت۔بلتستان کے شعبہ سیاحت نے بھی آج تک اس واقعہ پر کوئی فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کا آغاز نہیں کیا ہے اور نہ ہی پاکستان میں کوہ پیمائی کی گورننگ باڈی الپائن کلب آف پاکستان نے علی اکبر سخی کی بیوہ کریمہ کی داد رسی کی۔

اس دلدوز واقعہ کے بارے میں دستیاب تفصیلات نے میری رُوح کو اس قدر چھلنی کر دیا تھا کہ مجھے کئی روز عہدِ حاضر کے ہائبرڈ کوہ پیماؤں اور کوہ پیما کمپنیوں کے نام تک سے نفرت ہو گئی تھی۔ اس نفرت میں مزید اضافہ اُسوقت ہوا جب بین الاقوامی خاتون کوہ پیما K2 پر چھوڑے گئے کچرے کے ڈھیر پر مشتمل ویڈیو منظرِ عام پر لے آئی جسے دیکھ کر بین الاقوامی کوہ پیما کمیونٹی نے سخت ردّعمل دیا جس کو زائل کرنے کےلیے قراقرم نیشنل پارک کو صاف رکھنے والی کمپنی نے ایک stereo type اور cosmetic طرز کے کلین۔اپ مشن کی تصاویر جاری کیں جو کہ محض eye-wash عمل تھا۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جس مُلک کے پہاڑوں پر بھی غیرمُلکی کوہ پیما کمپنیاں ہائبرڈ بزنس ماڈل مُسلّط اور نافذ کر دیں جبکہ مقامی ریگولیٹری اتھارٹیز خاموش تماشائی بنی رہیں وہاں ایک میری تحریر اور میری آواز کہاں سُنی جائے گی۔ اس خیال نے نہ صرف مجھے کوہ پیمائی کے موضوع پر کچھ لکھنے سے بددل کر دیا تھا بلکہ مَیں اس کھیل سے بھی مُتنفّر ہو گیا۔ اس دوران مُجھے جگر اور گُردوں سے متعلق خرابئ صحت کے مسائل نے بھی آن گھیرا جس کا باقاعدہ علاج اور پھر صحتیابی کی طرف رُحجان ابھی ماہ مارچ میں ممکن ہوا ہے تو دل میں ایک نیا ولولہ جاگا ہے۔ بہار کی آمد نے مجھے تازہ دَم کیا تو مُجھے احمد فراز کے ان مشہورِ زمانہ اشعار نے دوبارہ اس موضوع پر قلم اُٹھانے پر مجبور کر دیا کہ

شکوہء ظُلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اُس کی وہ جانے، اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تُم فراز ! اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے

مَیں نے فیصلہ کیا کہ چونکہ ہمیشہ تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہونے کی جدوجہد کرنے کا ہمیں بطور مُسلمان حُکم دیا گیا ہے تو کیوں نہ اسے مذہبی فریضہ سمجھ کر پُورا کیا جائے۔

پاکستان کے تینوں بڑے سلسلہ ہائے کوہ (قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش) پاکستان کی topography کو دُنیا بھر میں ایک منفرد مقام عطا کرتے ہیں۔ ان سلسلہ ہائے کوہ کی گھاٹیوں میں صدیوں سے آباد لوگوں کے حقِ ملکیت کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم انہیں بھی mountaineering incubator بننے دیں تاکہ غیرمُلکی ٹور آپریٹرز اور کمپنیاں ان پہاڑوں میں اپنے کاروباری انڈے رکھ کر اُن سے ہائبرڈ کلائمبرز کے چُوزے نکالیں۔ چوزے تو یقیناً بہت نکل آئیں گے لیکن میرا بھی گلگت۔بلتستان کی عوام اور پاکستان میں کوہ پیمائی کے اسٹیک ہولڈرز سے اُسی بچّے والا سوال ہے کہ کیا اس قسم کے mountaineering incubators سے نکلنے والے ہائبرڈ کلائمبرز بھی پہاڑوں کو اپنی ماما سمجھ کر ان سے وہی پیار کریں گے جو ایک مامتا کا تقاضا ہے؟
فیصلہ پاکستان کی ٹورازم اور کوہ پیما کمیونٹی نے اور ان پہاڑوں میں بسنے والے مقامی اسٹیک ہولڈرز نے کرنا ہے کہ کیا اُنہیں قبول ہے کہ شہنشاہ پہاڑ K2 یا دیگر پاکستانی پہاڑوں پر کلین۔آپ آپریشن کا جھانسا دیکر نیپالی ہائبرڈ کلائمبرز اور فراڈ کمپنیاں فنڈ بٹوریں؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی پاکستان میں بیٹھ کر پیرس کا ایفل ٹاور بیچنے کی مارکیٹنگ شروع کردے۔ بالکل اسی طرح سال 2021 سے ایک نیپالی فراڈ کلائمبر K2 کلین۔اپ آپریشن کےلیے دُنیا بھر سے ڈالرز بٹور چُکا ہے۔ حکومتِ پاکستان کو چاہییے کہ اس بار سیزن میں جب وہ پاکستان میں اپنی کمرشل ٹیم لیکر آئے تو اس بابت اُس سے تحقیقات کرنی چاہییں۔ بہت سادہ سی بات ہے کہ جس نے پاکستان کے پہاڑوں کو سر کرنا ہے وہ پہلے اس بات کی گارنٹی دے کہ بین الاقوامی اُصولوں کے عین مطابق یا تو خُود پہاڑ صاف کرکے جائے گا یا پھر کلین۔اپ آپریشن کے تمام اُتنے واجبات و اخراجات حکومتِ پاکستان یا حکومتِ گلگت۔بلتستان کو جمع کروا کر یہاں سے واپس جائے گا جتنے نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ کلین۔آپ کےلیے ادا کیے جاتے ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی آٹھ ہزاری پہاڑوں پر کوہ پیمائی کے فروغ کےلیے نہ صرف پرمٹ فیسیں نیپال کے برابر کی جائیں بلکہ پاکستانی پورٹرز کی ویجز بھی نیپالی شرپاز کے برابر کی جائیں اور ہر پرمٹ کے ساتھ پاکستانی پورٹر کو ہر حال میں کم از کم 1:1 کی شرح کے ساتھ ہائر کرنے کی پابندی عائد کی جائے۔ یعنی ایک غیرمُلکی کمرشل کوہ پیما کےلیے کم از کم ایک پاکستانی پورٹر ہائر کرنا لازم ہو۔

پاکستان کے تمام آٹھ ہزاری پہاڑوں کو سر کرنے والے ہائبرڈ کلائمبرز کے fake heroism سے نوجوان نسل کو بچانے کےلیے ضروری ہے کہ اس کھیل کی ٹیکنیکل تربیت کےلیے اعلان کردہ “مُحمّد علی سدپارہ سکول آف ماؤنٹینیئرنگ” کو فعال کرنے کے علاوہ لوئر ہمالیہ یعنی وادئ کاغان، سوات اور چترال وغیرہ میں بھی ٹریکنگ گائیڈز اور low altitude porters کے تربیتی کورسز کروائے جائیں۔
ضلعی سطح پر سکولز اور کالجز میں وال کلائمبنگ کی تربیت دی جائے۔
یونیورسٹیز کی سطح پر کسی بھی 5 یا 6 ہزاری پہاڑ کو باقاعدہ تربیت حاصل کر کے سر کرنے پر اعزازات سے نوازنے کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے تاکہ اس صحت مندانہ کھیل کی طرف نوجوان نسل کا رُحجان بڑھے۔

یہ چھوٹے چھوٹے اقدامات ہیں جن کے ذریعے بغیر کسی بڑی انویسٹمنٹ کے گلگت۔بلتستان کا شُعبہء سیاحت بہت زرِمبادلہ کما سکتا ہے۔

دو سال قبل مَیں نے گلگت۔بلتستان کے محترم وزیرِ سیاحت کو سیاحت و تکنیکی کوہ پیمائی سے متعلق جامع قوانین وضع کرنے کےلیے گُزارش کی تھی اور اس متعلق اپنی بلامعاوضہ خدمات پیش کرنے کی بھی آفر کی تھی جس پر وزیر موصوف نے صرف ایک بار فون پر واٹس ایپ میسج کے ذریعے رابطہ کیا تھا لیکن بعد ازاں نہ تو رابطہ بحال کیا اور نہ ہی تاحال خود کوئی قانون سازی کی ہے جس کی اشد ضرورت ہے تاکہ گلگت۔بلتستان کی عوام اپنے سیاحتی کاروبار کو پیشہ ورانہ انداز میں فروغ دے کر بےروزگاری کا خاتمہ کرکے اس خطّے میں خوشحالی لا سکے۔

بہرحال ذاتی طور پر مَیں نے سیاحتی اور کوہ پیما کمیونٹی کے اپنے چند سنجیدہ سینئر دوستوں کے ساتھ مل کر سیاحت و کوہ پیمائی کے فروغ سے متعلق ایک جامع اور مربوط پلان بنانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اُمید ہے کہ بہت جلد اس کی لانچنگ کردی جائے گی۔ ہم سب نے مل کر کوشش کرنی ہے کہ ہائبرڈ کلائمبرز کی یلغار کا مقابلہ کرکے پہاڑوں سے پیار کرنے والوں کو حقیقی کوہ پیمائی سے متعارف کروایا جائے۔ پہاڑوں سے مُحبّت کرنا بھی ایک نشہ ہے جو دیگر دُنیاوی نشے سے ہمیں بچا کر ہماری رُوح کی لطافت کو دوام بخشتا ہے۔ اس کے فروغ کےلیے الپائن کلب جیسے بوسیدہ اور ناکارہ اداروں اور ان میں بیٹھے ہوئے شخصی بُتوں کو گرانے کےلیے اس میدان میں نوجوان نسل کو اُترنا ہوگا۔ بس پہلا قدم اُٹھانے کی دیر ہے۔ آپ دیکھیے گا کہ یہ رانگ نمبرز خُود ہی بھاگ کھڑے ہونگے۔
آئیے مِل کر پہلا قدم اُٹھاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پُرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply