سفرِ حجاج؛اِ ک جہانِ حیرت/انجینئر ظفر اقبال وٹو(قسط1)

دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال ہے جس میں مورتیوں کی تعداد بندوں کی تعداد سے زیادہ ہے ۔نیپال کی آبادی اس وقت تین کروڑ ہے۔ جب 2010 میں میں کھٹمنڈو میں گھوم پھر رہا تھا توگلی کے عین وسط میں پاؤں کے نیچے ،لوگوں کے گھروں کے دروازوں سیڑھیوں پر،دکان کے کاؤنٹر پر، شاپنگ مال، گھر دفتر اور پبلک ٹرانسپورٹ، ہر ہر جگہ یہ مورتیاں میرا پیچھا کرتے نظر آئیں اور تو اور ہوٹل میں ڈنر کرتے ہوئے یہ آپ کی کرسی کی پشت یا لابی کے صوفے کے پہلو میں بیٹھی بھی نظر آجاتی ہیں ۔

نیپال سے اسلام آباد واپسی پی آئی اے سے ہورہی تھی ۔دوران ِسفروقت گزاری کے لئے نشست کی پچھلی جیب میں رکھا پی آئی اے کا اِن فلائیٹ میگزین کھولا تو اس میں پی آئی اے کی عمرہ فلائیٹس کے ا یک مضمون پر نظر پڑی جس کے ساتھ بیت اللہ شریف کا خوبصورت تصویری منظر بھی تھا۔میری آنکھیں جو گزشتہ نصف ماہ سے شہر بتاں کی عادی ہوچکی تھیں بیت اللہ کی تصویر دیکھ کر چھلک پڑیں۔کتنی حیرت کی بات تھی کہ پچھلے دس سال میں مَیں تعلیم، کام اور سیر کی غرض سے  پورا ویسٹرن یورپ اور ملائیشیا گھوم چکا تھا اور اب نیپال کی بُت نگری سے بھی ہوکر آرہا تھا لیکن میرے دل میں کبھی بیت اللہ جانے کا خیال کیوں نہ آیا؟دل کے اندر اپنی مسلمانی کو دیکھ ایک شرمندگی سی ہوئی۔میں کافی دیر اس تصویر کو دیکھتا رہا اور پھر دل میں عہد کیا کہ انشاللہ اب اگلا جو بھی بیرون ملک پہلا سفر اخیتار کروں گا وہ بیت اللہ شریف کی طرف ہی ہوگا۔

اس بات کو بمشکل چند ماہ گزرے ہوں گے۔ میں گاؤں میں اپنے چھوٹے بھائی کی دعوتِ  ولیمہ میں موجود تھا کہ ہیڈ آفس سے فون موصول ہُوا کہ سوڈان میں ہمارے ڈیم پراجیکٹ سے ایک انجینئر کو گھریلو ایمرجنسی کی وجہ سے فوراً  پاکستان واپس آنا پڑرہا ہے اور اس کی جگہ دو مہینے کے لئے آپ کو بھجوانے کے لئے آپ کی فوری رضامندی چاہیے تاکہ ارجنٹ ویزے کا بندوبست کیا جا سکے اور روانگی بھی ہفتہ دس دن میں ہوگی۔ میں اتنی جلدی بیرون ملک جانے سے انکار ہی کرنے والا تھا کہ کمپنی کے نمائندہ نے ایک ایسی بات کہی کہ جس سے مجھے نیپال واپسی کی فلائٹ میں کیا گیا اپنا عہد یاد آگیا۔

سوڈان آنے جانے کے لئے اگر سعودی ائیر لائن استعمال کی جاتی تو راستے میں جدہ ائیرپورٹ پر تین دن کا ٹرانزٹ ویزہ ملتا تھا اور یوں عمرہ کیا جاسکتا تھا۔اس آپشن کے سامنے آتے ہی میں نے فوری طور پر دومہینے کی سوڈان اپائنمنٹ کے لئے اپنی رضا مندی دے دی ۔چند دن میں ہی ویزہ پراسس ہوکر ٹکٹ میرے ہاتھ میں تھا۔سوڈان کا قیام بہرحال لمبا ہوگیا اور اس دوران عیدقربان پر پاکستان واپسی کا پروگرام بنا تو میں نے سعودی ائیر لائن سے ٹکٹ لینے اور ٹرانزٹ ویزہ سے سہولت اٹھا کر عمرہ کرنے کا پلان بنایا۔

تاہم مسئلہ یہ ہوگیا کہ حج کے دوران سعودی عرب میں عمرہ کے لئے داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔لیکن میں اس بات پر اَڑا ہُوا تھاکہ چونکہ میرے سوڈان آکر کام کرنے کی بنیادی وجہ ہی ٹرانزٹ ویزہ پر عمرہ کی سہولت لینا تھی لہذا میں ضرور کوشش کروں گا ،آگےسعودی ایمبیسی والوں کی مرضی۔تاہم دل کے اندر مجھے پورا یقین تھا کہ میرا ویزہ لگ جائے گا جب کہ میرے باقی سب ساتھیوں کی رائے میں حج سیزن میں عمرہ ویزہ ملنا ممکن ہی نہ تھا۔

حیرت انگیز طور پر ایمبیسی نے مجھے ٹرانزٹ ویزہ لگا دیا اور حج سے ایک ڈیڑھ ہفتہ پہلے میں خرطوم سے احرام باندھ کر جدہ کی فلائیٹ میں سوار ہونیوالا واحد بندہ تھا۔جدہ ائیرپورٹ پر سعودی امیگریشن والوں نے مجھے حج سیزن میں عمرہ ویزہ پر آنے پر روک لیا ۔ پورے ائیرپورٹ پر دنیا بھر سے آنے والے حجاج کے قافلوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں اور میں اکیلا ٹرانزٹ ویزہ لے کر گھوم رہا تھا۔ 6 گھنٹے کے طویل انتظار اور بحث و مباحثے کے بعد آخر کار مجھے امیگریشن نے ریلیز کردیا لیکن ان 6 گھنٹوں میں ایک لمحے کے لئے بھی مجھے عمرہ کئے بغیر واپسی کے خیال سے پریشانی  نہ ہوئی  کیونکہ میں تو کئی مہینوں سے ایک خاص روحانی چکر کی کڑیاں اپنے سامنے پوری ہوتے دیکھ رہا تھا، لہذا غم کیسا؟

امیگریشن کے بعد سامان لے کر جیسے ہی ائیرپورٹ سے باہر آیا تو کوئی ٹیکسی یا بس مجھے بغیر حج ویزہ یا اقامہ مکہ کے  شہر لے کر جانے کو تیار نہ تھی۔کافی تلاش بسیار اور منت سماجت کے بعد ایک نوجوان بدو مجھے اس شرط پر مکہ لے کر جانے کو تیار ہوا کہ اگر باب ِ مکہ (قرآن گیٹ)پر مجھے روک لیا گیا تو وہ آنے جانے کا دوگناکرایہ مجھ سے لے گااور ہم مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔شاہراہ  پر حجاج کی بسوں کی لمبی قطاریں مکہ جار رہی تھیں اور ان کے درمیان ہماری ٹیکسی بھی۔جب دور سے باب ِ مکہ نظر آیا تو وہاں کافی سختی تھی بڑی تعداد میں شرطے ہر آنے جانے والی گاڑی  کو روک کر ڈرائیور اور مسافروں کی چیکنگ کر رہے تھے۔ میرا ڈرائیور تھوڑا پینک ہوا اور گاڑی موڑنے کا ارادہ کر لیا۔ تاہم میں نے اسے کہا کہ میں درود شریف پڑھتا ہوں اور تم پرسکو ن انداز سے گاڑی لے جاؤ انشا اللہ کچھ نہیں ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جیسے ہی ہماری گاڑی آہستہ آہستہ چیکنگ پوائنٹ تک پہنچی دونوں سائیڈ کے شرطوں نے دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا اور ہمیں مکہ کی طرف آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ میرا ڈرائیور ابھی تک ششدر تھا اور اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ انہوں نے بغیر چیکنگ کے ہماری گاڑی کو کیسے جانے دیا تھا۔ وہ مذاق میں مجھے شیخ کبیر کہنے لگا جب کہ میں روحانی چکر کی ایک اور کڑی پوری ہونے پر مسکرا رہا تھا۔ مالک اپنے رنگ دکھا رہا تھا۔ جب طلب سچی ہو تو ایک قدم آگے بڑھنے سے مطلوب نے بھی تو دس قدم آپ کی طرف بڑھنے کا وعدہ کر رکھا ہے جو کہ آنکھوں کے سامنے وفا ہوتا نظر آرہا تھا۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply