پاکستانی خردپسند اور مذہبی مباحث ۔۔۔ روبینہ شاہین

فیس بک پر دو طرح کےپاکستانی  مذہب بیزار ، خردپسند لوگ ہیں، ایک وہ جو حقیقتا مذہب بیزار ہیں، اور مذہبی متون و عقائد کو دل سے ڈھونگ سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ کبھی دبے الفاظ میں، کبھی کھلے الفاظ میں مذہب پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں کو “پاکستانی ملحد” کہتی ہوں۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جو خود کو مذہب بیزار سمجھتے یا ظاہر کرتے ہیں، لیکن وہ مذہب بیزار ہیں نہیں۔ وہ غالبا “مولوی بیزار “کہے جا سکتے ہیں، کہ وہ اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ خدا، رسول اور اسکا حکم برحق ہے، لیکن اس حکم کو بہت غیر منطقی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔۔۔ سو وہ اس غیر منطقی تشریح اور اس کے اطلاق پر نالاں ہیں۔

اول الذکر کی محرم میں پوسٹس ان کی روش سے متصادم نہ تھیں، جو وہ سارا سال مجموعی طور پر اسلام کے لئے پوسٹ کرتے ہیں، ویسا ہی عشرہ محرم میں کربلا و امام حسین کے لئے پوسٹ کرتے رہے۔ ایسے لوگوں کو کسی مذہب پسند کے جذبات اور احساسات کا نہ محرم سے پہلے احساس ہوتا ہے، نہ محرم کے دنوں میں، سو ان کی بات مجموعی بے حسی تک محدود ہے۔ لیکن دوسرہ گروہ جسے آپ مولوی بیزار کہہ سکتے ہیں، اس کی پوسٹس مضحکہ خیز رہیں۔ جس بات پر وہ مولویوں اور ملحدوں سے نالاں رہتے ہیں، وہ سب وہ خود عشرہ محرم میں یکسوئی اور خشوع و خضوع سے کرتے نظر آئے۔ یہ مولوی بیزار محرم میں خود مولوی نما کردار اوڑھ لیتے ہیں، اور فتوے تک لگانے سے گریز نہیں کرتے۔

اس رویے کے پیچھے ہماری قومی سفاکی اور کم ظرفی کارفرما ہے، جو فقط محرم تک محدود نہیں، بلکہ ہر اس موقع پر ہم اپنے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، جو ہمارے نظریاتی اختلاف کے حاملین کے لئے اہم ہو۔ چودہ اگست پر قومیت پسندوں کا جی جلانا، ربیع الاول میں بریلویوں کو تپانا ، محرم میں شیعوں کو نہ بخشنا، یوم دفاع پر افواج کی شان میں پوسٹنا، بقر عید پر قربانی پر اپنا فلسفہ جھاڑنا، حج کے دنوں میں حاجیوں کے کرتوت پھرولنے اور رمضان میں نماز، روزہ، تراویح کے پیچھے پڑ جانا ۔۔۔ کیا ہم یہ سب کسی مقصد کے تحت کرتے ہیں؟ کیا اس کے کوئی مثبت نتائج برامد ہوتے ہیں؟

ہم بات سنا کر حجت تمام کر دینے والے، حق پرست فیلنگ کے مارے لوگ ہیں، جو فقط اپنی بھڑاس نکالنا اور اندر کی غلاظت الٹنا جانتے ہیں، جو بنیادی احساس نام کی کسی شے کو نہیں جانتے۔ یہ معاشرتی رویہ درست ہے یا غلط، اسکا فیصلہ آپ کریں گے، لیکن میرے نزدیک یہ اہم ہے کہ یہ معاشرتی رویہ موجود ہے، اور معاشرے میں ذہنی خلیج کو بڑھا رہا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ حسین کو عظیم مانتے ہیں یا یزید کے مدح سرا ہیں، اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ موحد ہیں یا ملحد، اہم یہ ہے کہ آپ کی اخلاقی حالت کیا ہے۔ اگر آپ بے حس اور اخلاق سے عاری ہیں تو نہ آپ کو مذہب کچھ دے پایا، نہ مذہب بیزاری، اور نہ ہی الحاد۔ یہ سب عقائد تو زندگی کو سمجھنے اور اسے آسان بنانے کا ذریعہ ہوتا ہے، نہ کہ خود اور دوسروں کو ایذا پہنچانے کا۔

آپ جس کو چاہیں مانیں، جس کو چاہیں نہ مانیں، آپ کی مرضی، ہاں دوسروں کے کچھ بھی ماننے پر بھڑکنا اور برسنا چھوڑ دیجئے،کہ  یہ آپ کو زیب نہیں دیتا۔ آنے والے وقتوں میں یہ ذہنی خلیج اس ٹرولنگ کی بدولت مزید وسیع ہوتی جائے گی، جسے پاٹنا اور پر امن زندگی گزارنا آپ کی آنے والی نسلوں کے لئے ممکن نہ رہے گا۔ اپنے اردگرد والوں کے لئے نہ سہی، اپنی آنے والی نسلوں کے لئے سوچئیے!

Advertisements
julia rana solicitors

عدم برداشت ہمیں کھائے جا رہی ہے، ہمارے بچوں کو مکمل نگل لے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply