ظہیرالدین بابر بانی سلطنت مغلیہ۔۔مہرساجدشاد

مسلمانوں نے برصغیر پاک و ہند میں ایک لمبا عرصہ حکومت کی, اسکی بنیاد سلطان محمود غزنوی نے رکھی۔ غزنوی خاندان کے بعد غوری، غلاماں، خلجی، تغلق، سادات اور لودھی خاندان حکمران رہے۔
اس کے بعد 1526ء میں ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی، وہ امیر تیمور کی پانچویں نسل میں 14فروری 1483ء کو ریاست فرغانہ کے دارالحکومت میں پیدا ہوا۔ ابھی گیارہ سال کا بھی نہ ہوا کہ والد شیخ مرزا وفات پا گیا۔ بابر تخت نشین ہوا تو حقیقی چچا احمد مرزا والئی سمرقند نے اسکی ریاست پر حملہ کر دیا اور کئی علاقوں پر قابض ہو گیا۔ اسکا حقیقی ماموں محمود خان بھی پیچھے نہ رہا اور اس نے بھی حملہ کیا لیکن ناکام رہا۔

سمرقند اسکے جدِامجد امیر تیمور کا دارلسلطنت تھا، چچا احمد مرزا کے فوت ہونے کے بعد بابر نے سمرقند پر قبضہ کیلئے حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا، بابر نے فوج کو سمرقند میں لوٹ مار سے منع کر دیا، یہاں کے لوگ بابر کے مطیع ہو گئے لیکن ایک نیا بحران پیدا ہو گیا۔ اسکے منگول سپاہی جو مال غنیمت کے لالچ میں آئے تھے وہ ساتھ چھوڑ گئے اور ایک امیر احمد تمبل کیساتھ فرغانہ واپس جا کر بابر کے سوتیلے بھائی جہانگیر مرزا کو تخت پر بیٹھا دیا۔ بابر واپس فرغانہ حملہ کرنے کیلئے نکلا تو سمرقند پر اسکے چچا زاد بھائی سلطان مرزا نے قبضہ کر لیا۔ بابر دونوں ریاستوں سے محروم ہو گیا، فوج ساتھ چھوڑ گئی اور صرف دو سو جوان ساتھ رہ گئے۔

قدرت مہربان ہوئی اور ریاست کے ایک علاقہ مرغنان کے حاکم علی دوست نے اطاعت قبول کی اور پوری معاونت کی ،یہاں فوج بھرتی کر کے ریاست فرغانہ پر حملہ کیا، قبضہ تو نہ کر سکا لیکن بھائی سے معاہدہ ہو گیا کہ مل کر سمرقند فتح کریں اور سمرقند بابر جبکہ فرغانہ جہانگیر مرزا کے پاس رہے گا، ایسا ہی ہوا، لیکن سکون کہاں تھا، شیبانی خان ازبک نے بابر کو سمرقند سے بے دخل کر کے جلاوطن کر دیا۔

اب بابر نے اپنے پرانے دشمن ماموں کو ساتھ ملایا اور فرغانہ پر حملہ کر دیا۔ یہ اخصی پہنچے تو پرانے امیر احمد تمبل کے بھائی با یزید نے ساتھ دیا اور اخصی پر قبضہ کروا دیا، یہ قبضہ بھی زیادہ دیر نہ رہا کیونکہ یہ با یزید اسکے خلاف ہوگیا۔ بابر کی اپنی آبائی ریاست پر قبضہ کی یہ آخری کوشش تھی کیونکہ سمرقند کے حاکم شیبانی خان ازبک نے احمد تمبل اور بابر کے حامیوں سب کو شکست دے کر فرغانہ کی پوری ریاست پر بھی مکمل قبضہ کر لیا۔

اب کہانی دوسری طرف چلتی ہے، بابر کا چچا کابل کا حکمران الغ بیگ 1501ء میں وفات پا گیا، اس کا چھوٹا بیٹا عبدالرزاق تخت نشین ہوا لیکن وزیر مقیم بیگ نے اسے معذول کر کے خود تخت پر قبضہ کر لیا۔ بابر 1504 میں کابل کی طرف بڑھا تو قسمت مہربان تھی ،مقیم بیگ کا بھائی باقی بیگ اور والئی حصار خسرو شاہ نے اطاعت قبول کر لی، بابر نے کابل فتح کر لیا۔ یہاں بھی اسکے سوتیلے بھائی جہانگیر مرزا نے رشتہ داروں کے ذریعے سازشیں جاری رکھیں ،بابر کو حالات کا علم ہوا تو سب رشتہ دار غدار کابل سے بھاگ نکلے۔

قدرت کی ایک اور مہربانی اسے میسر آئی کہ اسکے طاقتور دشمن شیبانی خان ازبک کو شہنشاہ ایران اسماعیل صفوی نے قتل کر دیا۔ بابر نے شاہ اسماعیل صفوی سے اتحاد کر کے ایک بار پھر سمرقند پر حملہ کر دیا اور ازبک فوج کو شکست دے کر سمرقند فتح کر لیا۔

ایرانی واپس چلے گئے تو بابر کی سختی پھر شروع ہو گئی ازبک فوج نے بابر کو بُری طرح شکست دے کر سمرقند پر پھر قبضہ کر لیا ، بابر کے منگول سپاہیوں نے بھی بغاوت کر دی بابر کو بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگنا پڑا۔

یہاں سے اب کہانی ہندوستان کی طرف مڑتی ہے، بابر آبائی سلطنت پر قبضے  سے مایوس ہو گیا اور ہندوستان پر قبضے کا منصوبہ بنایا وہ درہ خیبر کے راستے کوہاٹ بنوں، عیسی خیل، اور دمن پر حملہ کرتے ہوئے درہ گومل سے ہوتا ہوا دریائے سندھ تک آ پہنچا، 1519ء میں باجوڑ کو فتح کیا، پھر بھرہ خوشاب جہلم و چناب کا درمیانی علاقہ اور گکھڑوں کی سرزمین پر قبضہ کر لیا، بھرپور حملہ کیا اور بھرہ کیساتھ سیالکوٹ پر بھی قبضہ کر لیا۔ یہاں سے آگے دہلی اور آگرہ پر قبضہ کیلئے اس نے اپنے جانشین ہمایوں کو بھیجا ، بابر دہلی کے اقتدار پر قابض ہو گیا، یوں ہندوستان میں مغل بادشاہت کا آغاز ہوا۔
مہا رانا سانگا کا اصل نام سنگرام سنگھ تھا اسے رانا سانگا کہا جاتا ہے اس نے بابر کو ہندوستان حملہ کرنے کی دعوت دی تھی اس کا خیال تھا کہ بابر اپنے جد امجد امیر تیمور کی طرح دہلی فتح کر کے واپس چلا جائے گا اور ہندوستان میں راجپوتوں کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ پانی پت کی جنگ کے بعد بابر واپس نہیں گیا تو رانا سانگا نے ابراھیم لودھی کے بھائی محمود لودھی کو ہندوستان کا حاکم بنا دیا اس کے نتیجے میں 1527ء میں کنواہیہ کے مقام پر دونوں کی جنگ ہوئی۔

رانا سانگا نے 80 ہزار فوج کیساتھ بابر کی مغل فوج کو اڑا کر رکھ دیا، یہاں بابر نے پریشان ہو کر خدا کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دعائیں مانگیں اور شراب سے توبہ کی شراب زمین پر بہا دی، داڑھی رکھ لی، فوج سے ایک جذباتی مذہبی رنگ میں خطاب کیا اور ہر شخص نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی۔ بھرپور جنگ یہیں کنواہیہ پر ہوئی اور ظہیر الدین بابر فاتح ٹھہرا۔

وہ دسمبر 1530ء میں بڑے عجیب واقعہ کے بعد فوت ہوا، اسکا بیٹا ہمایوں سخت بیمار ہو گیا بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو بابر نے اسکی چارپائی کے گرد سات چکر لگائے اور کہا اے خدا ہمایوں کی بیماری میں نے لے لی، ہمایوں تندرست ہونے لگا اور بابر کی صحت خراب ہو گئی بالآخر بابر کا انتقال ہو گیا۔ اسے وصیت کے مطابق کابل میں ایک پہاڑی پر واقع محبوب باغ میں دفن کیا گیا۔ اسکی قبر کا تعویز بیش قیمت پتھر لاجورد کا بنایا گیا، یہی پتھر علامہ اقبال کے مزار پر بھی لگایا گیا ہے اس شفاف پتھر سے روشنی گزرتی ہے تو لاجوردی رنگ کی شعائیں نکلتی ہیں۔

ظہیر الدین بابر کی پوری زندگی میدان جنگ کی زندگی ہے اقتدار کی کشمکش اور اپنی جان بچانے اپنی زندگی کو محفوظ بنانے کی جدوجہد ہے، اسکی زندگی میں اپنے قریبی عزیزوں کی بے وفائی غداری بھی تحقیق و تحریر کا ایک الگ موضوع ہے۔ بابر نے ہندوستان میں جس سلطنت مغلیہ کی بنیاد سخت محنت اور جنگ و جدل سے رکھی آنے والوں کی نالائقی نااہلی اور عیاشی و بزدلی نے اسکا انجام رسوا کن بنا دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ معاونت وتحقیق راو جاوید اقبال لوہ کوٹ کلچرل اینڈ ہیریٹج سوسائٹی لاہور

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply