برطانیہ کرپشن کے طوفان میں۔۔آصف جیلانی

وزیر اعظم عمران خان برطانیہ میں ایمانداری کے بہت گن گاتے ہیں کہ یہاں ایمانداری کا یہ عالم ہے کوئی شخص جس پر کوئی الزام ہو وہ پارلیمنٹ کی رکنیت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ عمران خان کو یہ جان کر سخت صدمہ ہوگا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین اور حکومت اس وقت کرپشن کے اسکینڈلوں کے طوفان میں اس بری طرح سے گھری ہوئی ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔

پچھلے ہفتہ حکمران ٹوری پارٹی کے ایک سابق وزیر اون پیٹرسن پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے پارلیمنٹ کی رکنیت کے ساتھ رینڈاکس لیبارٹریز سے آٹھ گھنٹے کے کام کے عوض ایک لاکھ پونڈ ماہانہ سے زیادہ معاوضہ حاصل کیا۔ اس انکشاف کے بعد جب پیٹرسن نے استعفیٰ دیا تو بورس جانسن نے مخالفت کی اور پارلیمنٹ میں ان کی رکنیت کی تنسیخ کو روکنے کی کوشش کی جس پر اس قدر ہنگامہ ہوا کہ اس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران میں وزیر اعظم بورس جانسن پر یہ الزام عائد ہوا کہ انہوں نے ڈاوننگ اسٹریٹ میں اپنے فلیٹ کی آرائش کے لیے ٹوری پارٹی کو چندہ دینے والے ایک شخص سے دو لاکھ پونڈ وصول کیے۔

ایک عرصہ ہوا یہ انکشاف ہوا تھا کہ ٹوری پارٹی دارالامرا میں رکنیت کے دولت مند خواہش مندوں کو اس وعدے پر ایوان بالا کی نشست پیش کر رہی ہے کہ وہ ٹوری پارٹی کے خزانچی کی حیثیت سے کم سے کم تین لاکھ پونڈ جمع کریں گے دوسرے معنوں میں تین لاکھ پونڈ کے عوض وہ دارالامرا کی رکنیت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ٹوری پارٹی کی یہ روایت ہے کہ وزیر اعظم پارٹی کے خزانچیوں کو دارالامرا ء کی رکنیت سے نوازتا ہے۔ سنڈے ٹائمز کے مطابق پچھلے بیس برسوں میں ٹوری پارٹی کے سولہ خزانچیوں کو دارالامرا ء کا رکن نامزد کیا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بتایا جاتا ہے کہ 2010 سے اب تک ٹوری پارٹی کو اس کے مالی حامیوں نے پانچ کروڑ چالیس لاکھ پونڈ چندہ دیا جن میں سے 22 افراد کو دارالامرا کی رکنیت پیش کی گئی۔ ٹوری پارٹی کے ایک سابق چیئرمین کا کہنا ہے کہ پورا سیاسی اسٹیبلشمنٹ یہ جانتا ہے کہ دارالامرا کی نشستیں یوں فروخت ہوتی ہیں لیکن کوئی اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ سیدھی سادی بات یہ ہے کہ اگر آپ تین لاکھ پونڈ ادا کر سکتے ہیں تو آپ دارالامرا کے رکن بن سکتے ہیں۔ یہ انکشاف ہوا ہے کہ پارلیمنٹ کے اراکین میں ایوان کی رکنیت کے ساتھ جزوقتی دوسرے کام کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور اس وقت ایک سو چالیس اراکین پارلیمنٹ کی رکنیت کے ساتھ دوسرا کام کرتے ہیں اس میں مختلف کمپنیوں اور بڑے بڑے اداروں کے مفاد کے لیے کام بھی شامل ہے۔ اس صورت حال میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا اراکین پارلیمنٹ کے دوسرے کام کی وجہ سے کیا یہ صحیح نہیں کہ یہ اراکین پارلیمنٹ عوام کی نمائندگی کا فرض پوری طرح سے ادا نہیں کر رہے ہیں۔ دوسرے معنوں میں اراکین پارلیمنٹ کا یہ کرپشن جمہوریت پر اثر انداز ہورہا ہے اور حقیقت میں برطانیہ کی جمہوریت کو کھوکھلاکر رہاہے جس پر اسے ناز ہے۔

Facebook Comments

آصف جیلانی
آصف جیلانی معروف صحافی ہیں۔ آپ لندن میں قیام پذیر ہیں اور روزنامہ جنگ اور بی بی سی سے وابستہ رہے۔ آپ "ساغر شیشے لعل و گہر" کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply