مولانا رضوی کا سفرِ عالمِ بالا۔۔سعید چیمہ

مولانا رضوی کا سفرِ عالمِ بالا

دل کے عشرتکدے پر اب ویرانی کے آثار ظاہر ہوں گے، ویرانی بھی ایسی کہ الو بولیں گے، گلستاں کے پیڑوں کی شاخوں پر سبز پتے زرد ہو کر زمین پر گرتے ہوئے عجب سرسراہٹ سے فضا کو سوگوار کریں گے، باغوں میں پرندوں کی چہچہاہٹ میں افسردگی عود کر آئے گی، طبیعت میں اب عالمِ بالا جکانے تک بوجھل پن رہے گا، بار بار خود یہ سوال پوچھتا ہوں کہ دل پر جو زخم لگا ہے کیا وہ رفو ہو سکے گا، کیا اس دنیا میں چین پڑ سکے گا، جون ایلیا کا جواب تو نفی میں ہے

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

مولانا خادم حسین رضوی عالمِ بالا چلے گئے ہیں،  اختلاف کس سے نہیں ہو سکتا، ہر کسی کو کسی سے ممکن ہے، ان سے بھی تھا، بتہیروں کو تھا بہت سے معاملات میں، عرض پرداز بھی ان سے اختلاف رکھتا تھا،  مگر ان کی عزت میں کبھی کمی نہ آنے دی، خواہش تھی، ہے اور رہے گی کہ ان ایسا عاشقِ رسول بنا جائے، جب سے بالغ ہوئے ہیں بہت سارے لوگوں کو دعوی کرتے سنا کہ ہمیں رسالتمآبﷺ سے محبت ہے،  مگر جو حدت رضوی صاحب کی محبت میں تھی وہ باقیوں کے ہاں مفقود ہے، رسالتمآبﷺ سے بھلا اب ایسی محبت کون کرے گا،  موت پر مگر کس کو اختیار ہے،  دینی جماعتوں کے بت کدوں میں لا الہ کا صور دوبارہ پھونکنے والے مولانا رضوی ہی تو تھے،  اور خاص طور پر بریلوی مکتبہ فکر میں مولانا شاہ احمد نورانی کے بعد قیادت کا فقدان تھا اور یہ فقدان مولانا رضوی کی صورت میں ختم ہوا، مولانا نے اپنی تحریک کو ایسی جلا بخشی کہ مخالفین بھی انگشتِ بدنداں رہ گئے،  عرض پرداز سمیت اوریا مقبول جان بھی اس بات سے ڈرتے ہیں کہ مولانا کے بعد اب شاید قیادت کے فقدان رہے گا،  ان کے بعد نتائج سے بے پروا ہو کر ان ایسی شعلہ بیانی پر کون قادر ہو گا، اقبال کے اتنے اشعار کو اپنے حافظے پر کون نقش کرے گا، دیسی لبرلز کی بینڈ کون بجائے گا، مرحوم کی حسِ مزاح بھی کمال تھی، لبوں پر وہ دل ربا مسکراہٹ اب کون بکھیرے گا، ان کے لہجے میں جو درد تھا اور جو اشعار کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا، اس درد کو اپنے سینے اب جگہ کون دے گا، ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں وہ نعت پڑھ رہے تھے، لہجے میں ایسا سوز تھا کہ اوس کے قطرات ایسے آنسو پلکوں پر رقصاں ہو گئے

ہم سوئے حشر چلیں گے شہِ ابرار کے ساتھ

اور قافلہ ہو گا رواں قافلہ سالار کے ساتھ

یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ

کون روتا ہے لپٹ کر درودیوار کے ساتھ

ہم بھی مظہر سے سنیں گے کوئی نعتِ رنگیں

گر ملاقات ہوئی شاعرِ دربار کے ساتھ

حوالہ اس وقت ذہن سے محو ہے، مخالفین کہتے ہیں کہ قرآن خدا کی مخلوق ہے،  مگر امام احمد ابن حنبل ایسے حق پرست کہتے ہیں کہ قرآن خدا کا کلام ہے، مخالفین کا دعوی ہے کہ ہم حق پر ہیں، امام احمد جواب دیتے ہیں کہ ہمارے اور تمھہارے جنازے یہ فیصلہ کریں گے کہ کون حق پر تھا، اور پھر چشمِ لک نے دیکھا کہ امام احمد کے جنازے میں ستاروں کی مانند سر ہی سر تھے،  جب کہ مخالفین کا نام تاریخ کے نقوش سے  مٹ چکا ہے، مولانا رضوی کا جنازہ دیکھا تو یادوں کے دریچوں پر مطلقاً کچھ اختیار نہ رہا اور وہ وا ہوتے گئے،  سبھی مسالک کے علما تاریک کوٹھری کو اپنا مسکن بناتے ہیں، مگر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس طرح تو جنازے میں شرکت نہیں کرتا،  ماننا پڑے گا کہ کچھ تو تھا جو مولانا رضوی کو دوسروں سے ممتاز کر گیا،  اقبال نے کہا تھا کہ

اقبال کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے

رومی فنا ہوا اور حبشی کو دوام ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

رسالتمآبﷺ سے عشق و محبت نے ہی مولانا رضوی کو دوام بخشا ہے، مولانا کا حافظہ اور حاضر جوابی کمال تھی، بعض اینکر جب سوال پوچھتے تو گماں ہوتا کہ مولانا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہیں گے، مولانا مگر ایسا جواب دیتے کہ اینکر کے ساتھ ساتھ سننے والے کی بھی طبیعت صاف ہو جاتی، عالی جنابﷺ کا فرمان ہے کہ جب کوئی اس دنیا سے چلا جائے تو اس کے بارے میں گمان اچھا رکھو، اور اچھی باتیں ہی منہ سے نکالو، کیوں کہ اس کا معاملہ اب خدا کے سپرد ہو چکا ہے، دعا ہے رب العالمین مولانا کی خطاؤں سے درگزر فرما کر ان کو جنت کے عالیشان محلوں کا مکین بنا دے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply