مُلا صدرا کا تصورِ علم / حمزہ ابراہیم

ملُا  صدرا 1572ء میں شیراز کے ایک وڈیرے کے ہاں پیدا ہوئے۔ مالی طور پر تگڑے خاندان سے تعلق کی وجہ سے انہیں مختلف کتابیں جمع کرنے اور عربی، فقہ، قدیم فلسفہ اور تصوف وغیرہ سیکھنے میں آسانی ہوئی۔ جوانی میں وہ مزید تعلیم کیلئے اس دور کے دار الحکومت اصفہان چلے گئے جہاں سے 1601ء میں واپس شیراز آ گئے اور پھر شہر کے علما  سے وحدت الوجود جیسے مسائل پر لڑ کر قم چلے گئے۔وہاں کہک نامی ایک گاؤں میں دس سال سکونت اختیار کی اور پھر واپس شیراز آ گئے۔ دولت کی ریل پیل کی وجہ سے  سات مرتبہ حج پر گئے۔ انہیں کاغذ کی کمی کا سامنا کبھی نہ ہوا، جو اس زمانے میں نایاب ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ ان کی مظلومیت کے قصّے داستان سرائی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ انہوں نے چالیس کے قریب کتابیں لکھیں جو ہزاروں صفحات پر مشتمل ہیں۔ ان کا انداز ایک محقق والا نہیں بلکہ ایک ناول نگار والا ہے، جو اپنے خیالات کو لفظوں میں پرو رہا ہے اور کوئی شواہد مہیا کرنے کا پابند نہیں ہے۔ مُلا صدرا کی تحریروں میں فرسودہ یونانی خیالات کے وسیع مطالعے کا اظہار ہوتا ہے، البتہ آپ کسی علم میں اصلاح یا پیشرفت کا سبب نہ بنے۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ ملا صدرا اکثر باتیں اپنے حافظے کے زور پر لکھتے تھے اور جو ذہن میں آ جاتا اس کو پرکھنے کے بجائے اسے الہام قرار دیتے تھے، اسی وجہ سے اندھا دھند لکھتے جاتے تھے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ دوسروں کے خیالات جو آپ نے ماضی میں پڑھے تھے وہ گڈ مڈ ہو کر یاداشت سے ظاہر ہوتے ہوں تو آپ ان کو اپنا کشف سمجھتے ہوں، اور اسی لیے ان کا نام نہ لیتے ہوں۔ ملا صدرا اپنے زمانے میں مغرب میں ہونے والی پیشرفت سے بالکل ناواقف نظر آتے ہیں، جو ان کے الہام اور کشف کے دعوؤں کے باطل ہونے کی دلیل ہے۔ مثلاً کوپرنیکس، جو کہ 1543ء میں وفات پا چکے تھے، ان کے بعد پیدا ہونے والے ملا صدرا زمین کو ایک نام نہاد ”عقلی دلیل“ کی بنیاد پرساکن مانتے ہیں۔ [1] اپنے ہم عصر گلیلیو، کپلر، ڈیکارٹ وغیرہ کے بارے میں بھی ملا صدرا بالکل اندھیرے میں ہیں۔ ملا صدرا کا مشہور ناول، اسفارِ اربعہ، بیروت سے دار احیاء التراث العربی نے نو جلدوں اور ساڑھے تین ہزار صفحات میں شائع کیا ہے۔ بقول غالب:

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

 مولانا مناظر احسن گیلانی(متوفیٰ 1956ء) نے اس کے ابتدائی حصّے کا اردو میں جو ترجمہ کیا تھا وہ 2018ء میں لاہور سے حق پبلیکیشنز نے ”فلسفۂ ملا صدرا“ کے عنوان سے دوبارہ شائع کیا ہے۔ یہ ترجمہ بیروت کی چھاپ کی تین جلدوں کا احاطہ کرتا ہے اور نو سو بیس صفحات پر پھیلا ہوا ہے[2]۔ اس ناول کا ہر باب فرضی خرافات کا پلندہ ہے۔ اختصار کے تقاضے کے پیش نظر اردو ترجمہ سے چند ایک اقتباسات ہی پیش کئے جا سکتے ہیں۔ ملا صدرا فرماتے ہیں:

  1. ”دوام ریاضت و مجاہدے سے بالآخر میری روح ایک نورانی کیفیت کے ساتھ بھبھک اٹھی، اور دل ایک قوی روشنی سے چمک اٹھا جس کی بدولت ملکوت کے انوار کی بارش مجھ پر ہونے لگی۔۔۔ حق تعالیٰ نے مجھے الہام فرمایا کہ جس جرعے سے میں خود فیضیاب ہوا ہوں اس کی تقسیم ان پیاسوں میں بھی کروں جو علم کے طالب ہیں۔ “ (فلسفۂ ملا صدرا، صفحہ 11)
  2. ”ظاہر پرستوں کے ایک جھوٹے فرقے کے سوا حکما متفق اللسان ہیں کہ تمام اشیا کے لیے وجود ظاہر اور اس کے ظہور کے سوا جو ہر شخص کو معلوم ہے، ایک اور وجود، ایک اور ظہور بھی ہے جس کی تعبیر وجود ذہنی سے کی جاتی ہے جو اس شے کا مظہر ہوتا ہے، بلکہ دراصل اس شے کے ظہور کا مقام عقل کی ادراکی قوتیں اور حس کے شعوری تاثرات ہوتے ہیں۔ “ (فلسفۂ ملا صدرا، صفحہ 179)
  3. ”حق تعالیٰ ایسے موجودات کا بھی خالق ہے جو کسی چیز یعنی مادہ کے بغیر پیدا ہوتے ہیں، جن کو موجودات مبدعہ کہتے ہیں۔ اور ایسی چیزوں کا بھی پیدا کرنے والا ہے جو دوسری چیزوں سے پیدا ہوئی ہیں جن کو موجودات کائنہ کہتے ہیں۔ الله تعالیٰ نے اسی سلسلے میں انسانی نفس کو بھی پیدا کیا جو اپنی ذات، اپنی صفات اور اپنے افعال میں حق تعالیٰ کی مثال ہے۔ کیوں کہ ذات حق اگر منزہ و مقدس ہے تو مثل سے نہ کہ مثال سے، اور جب اس کے لیے مثال ہو سکتی ہے تو اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ نفس انسانی کی تخلیق اسی لیے ہوئی ہے کہ وہ ذات میں، صفات میں اور افعال میں خدا کی مثال بن سکے تاکہ نفس انسانی کی معرفت، معرفت حق کے لیے زینہ بن سکے۔۔۔ نفس سے جو چیزیں اس طرز پر صادر ہوتی ہیں اور جن کا ظہور اس شکل میں ہوتا ہے اسی کا نام وجود ظلی اور ذہنی ہے، اور ظہور کی وہ نوعیت جس پر واقعی آثار مرتب ہوتے ہیں اسی کا نام وجود خارجی اور عینی ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کی تائید شیخ جلیل محی الدین ابن عربی اندلسی کے اس کلام سے ہوتی ہے جسے انہوں نے اپنی کتاب فصوص الحکم میں ان الفاظ میں ادا کیا ہے: ’وہم کے ذریعے انسان اپنی خیالی قوت کے دائرے میں ان چیزوں کو پیدا کرتا ہے جن کا وجود بجز خیال کے اور کہیں نہیں ہوتا، اور یہ بات تو ہر عامی آدمی کو حاصل ہے، لیکن عارف ہمت کے ذریعے سے ان چیزوں کو پیدا کرتا ہے جن کا وجود خارج میں ہوتا ہے‘۔ “ (فلسفۂ ملا صدرا، صفحات 181 و 182)
  4. .”ہم جب ستاروں کے مقامات اور افلاک وغیرہ کی تعداد پر ایمان محض ایسے حکما، جیسے ابرخس وغیرہ، کی ان رصدی اطلاعات و تجربات کی بنیاد پر لاتے ہیں جن میں عموماً علم کا ذریعہ حس ہوتا ہے، جہاں غلطی اور بھول چوک کا احتمال بہت زیادہ ہے، تو ظاہر ہے جن بزرگ حکما نے عقلی رصد گاہوں کے ذریعے سے علوم حاصل کئے ہیں اور انہیں اپنے ایسے مسلسل تجربات کے نتائج قرار دیتے ہیں جن میں خطا کی گنجائش نہیں، ان کی باتیں زیادہ قابل یقین ہیں۔ “(فلسفۂ ملا صدرا، صفحہ 208)
  5.  ”وجود ذہنی کے متعلق چوتھی مشکل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اگر اشیا کیلئے وجود ذہنی مانا جائے تو لازم آتا ہے کہ آدمی کا ذہن گرمی اور حرارت کے تصور کے وقت گرم ہو جائے اور برودت و سردی کو تصور کرتے ہوئے سرد ہو جائے۔ اسی پر دوسرے مشتقات کو قیاس کر لو۔ الغرض یہ لازم آتا ہے کہ نفس اجسام کے صفات اور متضاد و متناقص امور کے ساتھ موصوف ہو جائے حالانکہ یہ ایک بدیہی البطلان امر ہے۔۔۔ پہلا جواب تو یہی ہے کہ اس کا شمار عرشیات میں ہونا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ نفس جس وقت اشیا کا تصور کرتا ہے اس وقت ان چیزوں کی صورتیں نفس کی حکومت اور ملکوت کی سرحد میں تو رہتی ہیں لیکن اس میں ان کا حلول نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ جس طرح دیکھنے کے دوران یہ ہوتا ہے کہ نفس ناطقہ، جو ایک نورانی جوہر ہے، اس سے قوت باصرہ پر ایک نور چمکتا ہے۔ اسی نور کے ذریعے سے آنکھ کو اس چیز کا جو جلیدیہ کے سامنے ہے، ایک حضوری اشراقی علم حاصل ہو جاتا ہے، جس میں آنکھ کے اندر کوئی چیز نہ چھپتی ہے اور نہ منطبع ہوتی ہے جیسا کہ پرانے زمانے والوں کا خیال تھا۔ بہر حال کچھ اسی طرح جب قوت متخیلہ پر نفس ناطقہ سے نور کی ریزش ہوتی ہے تو اس صورت متخیلہ کا، جو اس کی ذات سے خارج ہے اور نفس کی ذات سے بالکل جدا اور مبائن ہے، اس کا حضوری اور اشراقی علم نفس کو حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس میں نہ صورت کا حلول نفس میں ہوتا ہے اور نہ نفس اس صورت سے متصف ہوتا ہے۔ بلکہ جس طرح خارجی اشیا کا احساس قوت بینائی اور باصرہ وغیرہ سے ہوتا ہے، اسی طرح نفس باطنی صورتوں کو دیکھتا ہے اور ان کا اپنے باطنی حواس کے ذریعے مشاہدہ کرتا ہے۔ مگر ان صورتوں کا نفس میں حلول نہیں ہوتا۔ خواب میں صورتوں کا مشاہدہ ہوتا ہے، ان دونوں مشاہدوں میں وجدان اور ذوق کسی قسم کا فرق محسوس نہیں کرتا۔ “ (فلسفۂ ملا صدرا، صفحات 208 و 209)

مختصر تبصرہ

ملا صدرا کے خیالات سے ایسے لگتا ہے کہ گویا وہ معلومات (data) اور خیالات کو ہی علم کہہ رہے ہیں، لہٰذا قاری کو اس بارے میں احتیاط کرنی چاہیے اور جہاں وہ علم کا لفظ استعمال کریں، اسے ڈیٹا یا تخیل ( imagination)کے معنوں میں سمجھنا چاہیے۔ واضح ہے کہ ذہن کے بارے میں ملا صدرا جو کچھ فرما رہے ہیں وہ سب غلط ہے، اگرچہ ان کے مرید ان کی حماقتوں کو ”عقلی دلائل“ کہتے رہتے ہیں۔ صحیح اور غلط معلومات کی جانچ کے بعد حاصل ہونے والے کلی قاعدے جو درست پیشگوئی کر سکیں علم کہلاتے ہیں۔ انسان کے دماغ میں معلومات کیسے پہنچتی ہیں اور ان میں سے علم کیسے اخذ ہوتا ہے، ایک ایسا موضوع ہے جس پر نیورو سائنس، سائیکالوجی، زبان شناسی اور کوانٹم انفارمیشن سائنس کے شعبوں میں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں تحقیق ہو رہی ہے۔ چنانچہ ان علوم میں ہزاروں کتابیں اور لاکھوں مقالے سامنے آ چکے ہیں، جن میں شواہد کی روشنی میں نظریات پیش کیے  جاتے ہیں اور جنہیں کوئی بھی پرکھ سکتا ہے اور ان سے نئی معلومات نکال سکتا ہے۔ اوپر دئیے گئے چوتھے اقتباس میں ملا صدرا قیاس مع الفارق (false.analogy) اور  توسل بہ شخصیت (argument.from.authority) کے مغالطے  استعمال کررہے ہیں۔ وہ  فلکیات کا قیاس پیروں فقیروں کے عرفانی دعووں پر کر رہے ہیں، جبکہ فلکیات میں جن مشاہدات کا بیان آتا ہے وہ سب کیلئے قابل تکرار اور پیش گوئی ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اب فلکیات کا علم ابرخس کے نظریات سے کہیں عمیق تر اور صحیح تر شکل میں آ چکا ہے۔ عرفانی دعوؤں  میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، اگرچہ مریض کو پکا یقین ہوتا ہے کہ اس نے بارہا کچھ دیکھا ہے۔ محض اس وجہ سے کہ نفسیاتی امراض کے ہسپتال میں موجود کسی دماغی مریض کو اپنے تخیلات پر یقین ہے، ان کو درست نہیں سمجھا جا سکتا کیوں کہ نہ تو وہ دوسروں کیلئے قابل تکرار ہیں نہ خارجی دنیا کے بارے میں کوئی پیشگوئی کر سکتے ہیں۔ وہاں کسی کو یہ یقین ہے کہ اسے ملک کا وزیراعظم بنا دیا گیا ہے تو کوئی مرد ہو کر خود کو حاملہ سمجھے بیٹھا ہے تو کسی کو یقین ہے کہ ایک دیو اسکا گلا دبانے آتا ہے تو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دائیں ٹانگ اسکی ٹانگ نہیں ہے۔ ایسے یقین کی کیا علمی قدر و قیمت ہے؟ یہی معاملہ پہلے اقتباس میں ملا صدرا کے الہام کے دعوے کا ہے۔ رہی دوسرے اور پانچویں اقتباس میں وجود ذہنی کی بات تو اشیا ذہن میں داخل نہیں ہوتیں نہ ذہن میں ان کی تصویریں بنتی ہیں، بلکہ ان کے بارے میں برقی سگنلز کی مدد سے معلومات ذہن تک پہنچتی ہیں اور وہاں خلیوں میں ذرات کی ترتیب کی شکل میں محفوظ ہوتی ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کمپیوٹر کی میموری میں کسی تصویر کا ڈیٹا محفوظ ہوتا ہے یا جیسے  کسی کوئلے کے ٹکڑے کے جلنے اور اس کے رنگ اور درجہ حرارت اور حجم کے بارے میں معلومات کاغذ پر لکھی جائیں۔ اس سے کاغذ کیوں جلے گا؟ جلنا اصل میں مالیکولز کی اتنی تیز تھرتھراہٹ کا نام ہے کہ تعادل بگڑنے سے ٹوٹنے اور روشنی خارج کرنے لگیں۔ یہ بھی جاننا چاہیے کہ دیکھنے کے عمل میں انسان کے اندر سے کوئی روشنی آنکھ پر نہیں جاتی بلکہ باہر کی چیزوں سے ٹکرا کر آنے والی روشنی آنکھ پر پڑتی ہے تو اس سے برقی سگنل پیدا ہوتا ہے جو دماغ تک معلومات پہنچاتا ہے۔ جہاں تک تیسرے اقتباس کا تعلق ہے تو عارف کا زور لگا کر خارج میں کسی نئی چیز کو پیدا کرنا قانون بقائے توانائی کی خلاف ورزی ہے۔ اگر کوئی عارف ایسا کر کے دکھا دے تو اسے نوبل انعام ملے گا۔ البتہ چونکہ وجود اصالت نہیں رکھتا اور ماہیت اصالت رکھتی ہے، لہٰذا انسان چیزوں کی ماہیت کو تبدیل کر کے نئی چیزیں بنا لیتا ہے جیسے سمارٹ فون، گاڑی، کمپیوٹر، ادویات، وغیرہ۔ یہ کام بھی عارفوں نے نہیں بلکہ انجینئرز نے سائنس کی روشنی میں کئے ہیں۔ جہاں تک خیالی پلاؤ تناول فرمانے کا تعلق ہے تو اس میں یہ جاننا چاہئیے کہ انسان کے دماغ کا دیاں حصہ تخیل کا کردار ادا کرتا ہے اور مختلف معلومات کو ملاتا اور نئی نئی شکلیں دیتا رہتا ہے، جیسا کہ خواب میں ہوتا ہے۔ یہاں سے یہ خیالات بائیں حصے میں منتقل ہوتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے یہ غیبی دنیا سے آ گئے ہیں۔ بایاں حصہ شعور کا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ ان خیالات پر تجزیہ و تحلیل کرتا اور ان کو خارجی شواہد کی روشنی میں تصدیق یا تردید کے عمل سے گزارتا ہے۔ شعور ہی کی مدد سے انسان خارجی دنیا میں کردار ادا کرتا ہے۔ [3] تخیل کو کچلنا ذہنی صحت کیلئے اچھا نہیں لیکن اگر تخیل پر شعور حاکم نہ ہو تو تخیل شعور کو برباد کر دیتا ہے اور ایسی ایسی چیزیں باور کروا دیتا ہے کہ انسان حقیقت سے کٹ جاتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے کہ وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگے۔ علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:

”عالم برزخ سے نکلنے کے ابتدائی مرحلے میں جب نفس کی تجلیات شروع ہوتی ہیں تو سالک اپنے آپ کو مادی صورت میں مشاہدہ کرتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر اسے بسا اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے برابر کھڑا ہے۔ یہ مرحلہ تجرد نفسی کی ابتداء ہے۔“ [4]

عرفا کا اصل مسئلہ تخیل کو اپنا پیشوا بنانا ہوتا ہے۔ اپنے ذہن پر ریاضت کا بوجھ ڈالنے اور عقل و شعور کو معطل کرنے سے ان کا تخیل بہت قوی ہو جاتا ہے اور دور تک پرواز کرنے لگتا ہے۔ اسی لیے وہ اکثر شاعر اور افسانہ گو تو اچھے ہوتے ہیں لیکن علم اور حقیقت کی دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کے مکاشفے اور خواب میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہوتا ہے، یوں وہ زندگی ایک جھوٹ اور سراب کے تعاقب میں ضائع کر دیتے ہیں۔ نوجوانوں کو چاہئیے کہ اپنے آپ کو جدید علوم سے محروم نہ رکھیں اور صوفی ازم میں نہ پڑیں۔ اگرچہ یہ کافی محنت طلب کام ہے اور اس میں خیالی پلاؤ جیسا نشہ نہیں ہے، لیکن زندگی کا مزہ حقائق کو جاننے میں ہی ہے۔

حوالہ جات:

[1] ملا صدرا، ”المبدأ والمعاد“، صفحہ 278، تصحیح: سيد جلال الدين آشتيانی، طبع سوم، 2001ء۔

لا تقبل التغير كما لا يجوز أن يكون طبعا محضا لأن الثابت على حالة واحدة لا يصدر منه إلا ثابت على حالة واحدة فيجوز مثلا أن يكون سكون الأرض مثلا عن علة ثابتة لأنه دائمة على حالة واحدة.

[2]ملا صدر الدین شیرازی، ”فلسفۂ ملا صدرا“، ترجمہ اسفار اربعہ از سید مناظر احسن گیلانی، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔

[3] ڈاکٹر خالد سہیل، ”روحانیات۔ نفسیات اور سائنسی تحقیقات (دوسری قسط)“، ہم سب، 30 ستمبر 2022ء۔

[4] علامہ طباطبائی، ”سیر و سلوک“، صفحہ 115، جامعہ تعلیمات اسلامی، کراچی، 2002ء۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بھی پڑھیے: سونے کا زرد رنگ اور ملا صدرا کی حرکتِ جوہری

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مُلا صدرا کا تصورِ علم / حمزہ ابراہیم

  1. ملا صدرا علم کی مضحکہ خیر تعریف کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:
    ”علم تو نام ہے شے کا شے کے سامنے حاضر ہونے کا، اور جس کے سامنے کسی شے کا حضور ہی نہیں ہے، اس شے کا اس کو علم بھی نہیں ہو سکتا- الغرض وجود جتنا کمزور اور ضعیف ہو گا اسی نسبت سے علم بھی کم ہو گا اور وہ چیزیں بھی کم ہوں گی جو علم پر مرتب ہوتی ہیں-“
    ملا صدر الدین شیرازی، ”فلسفۂ ملا صدرا“، ترجمہ اسفار اربعہ از سید مناظر احسن گیلانی، صفحہ 462، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء

Leave a Reply