خوف اور سیاسی کنٹرول۔۔۔۔طارق احمد

سیاست دانوں کی اور رہنماوں کی ایک نسل ھوتی ھے۔ جو تحمل مزاج ، برد بار ، با تمیز ، با لحاظ، پر امن ، صلح کن ، مددگار ، معاون اور قوم پرست ھوتی ھے۔ آپ اس نسل کو ھٹا دیں ۔ ختم کر دیں ۔ مٹا دیں ۔ یا عملی سیاست سے منفی کر دیں ۔ جیل میں ڈال دیں ۔ اس سے جو خلا پیدا ھو گا۔ وہ اسی نسل کے سیاستدانوں یا رہنماوں جیسے میٹیریل سے نہیں بھرے گا۔ ان کی جگہ جو لوگ آئیں گے۔ وہ تیز مزاج ، متشدد ، جارحانہ ، بدتمیز ، بد لحاظ ، کینہ پرور ، انتقامی ، ہنگامہ خیز ، پر جوش ، غیر مفید اور مرکز گریز ھوں گے۔ آپ اس سلسلے کو بڑھاتے جائیں یعنی سیاستدانوں اور رہنماوں کی ایک کے بعد ایک نسل کو ھٹاتے جائیں ۔ اور ایک دن وہ نسل سامنے آئے گی۔ جس پر آپ کا اختیار نہیں ھو گا۔ جو اپنی من مانی کرے گی۔ جو آپ سے ڈرے گی نہیں ۔ بے خوف ھو گی۔ اور اپنے جوش اور جارحیت سے کچھ بھی کر گزرے گی۔ اس کا سامنا بلوچستان میں ھے۔ کے پی کے اور فاٹا میں ھے۔ کراچی اور سندھ میں ھے اور اب پنجاب میں نعرے لگ رھے ھیں ۔خوف ٹوٹ رھا ھے۔ اور فلائٹ کی جگہ فائٹ سامنے آ رھی ھے۔ نسلوں کی یہ تنزلی اور یہ نقصان تب ھوتا ھے۔ جب آپ غیر فطری طور پر سیاستدانوں اور رہنماوں کو بناتے ھیں ۔ اسی عمل کو فطری رنگ دے دیں ۔ قدرتی طور پر نشو و نما ھونے دیں ۔ خوف کو ختم کر دیں ۔ تو نتائج مثبت ھو جائیں گے۔ اور سیاستدانوں اور رہنماوں کی اعلی نسل تیار ھو کر سامنے آئے گی۔ جو ھر لحاظ سے ملک و قوم کے لیے بہتر ھو گی۔
اچھا یہ خوف کیا ھے ؟ ظاھر ھے کسی خطرے کا احساس اور اس سے بچاو کی تدبیر اور کوشش ۔ خوف دل کی دھڑکن بڑھا دیتا ھے۔ پسینے کے بہاو میں اضافہ ھو جاتا ھے۔ اور گردے کی کلوی رطوبت بہت بڑھ جاتی ھے۔ جو اس خوف کی کیفیت کا مقابلہ کرتی ھے۔ فلائٹ یعنی بھاگ کر اور یا پھر فائٹ یعنی لڑ کر ۔ اور یہی خوف کی ایک مثبت خاصیت ھے۔ ھمارے اباو اجداد نے خوف کی وجہ سے مزاحمت کی۔ اور زندہ رھے۔ اور ترقی کی۔ جو خوف سے مر گئے۔ ان کا تذکرہ نہیں ۔ جنہوں نے جانوروں کا خوف ، جنگلوں کا خوف ، بھوک کا خوف ، آگ کا خوف ، بے رحم موسموں کا خوف اور ظالم حکمرانوں کا خوف تسخیر کر لیا۔ وہ انسانی تہذیب کی ترقی اور معراج کے سرخیل اور فاتح ٹھہرے ۔ انہوں نے فلائٹ کی بجائے فائٹ کی۔ اور یہ فائٹ آج بھی جاری ھے۔ خوف ایک مثبت قوت ھے۔ ان فائٹ کرنے والوں کے لیے۔ چناچہ آپ ڈرائیں مت ، نہ ھی ڈریں ۔ مل بیٹھ کر حل نکالیں ۔
اچھا غیر فطری طور پر تبدیل کردہ سیاستدانوں اور رہنماوں کے ساتھ ایک ایشو اور بھی ھے۔ اور وہ ھے ۔ اقدار ، تہزیب اور شخصیت کا تنزل ۔ پچاس کی دھائ کے جن سیاستدانوں کو آپ نے ایبڈو کا قانون لگا کر فارغ کر دیا۔ یہ وہ تھے۔ جہنوں نے انگریزوں اور ھندووں سے لڑ کر یہ ملک حاصل کیا۔ ساتھ کی دھائ میں آپ نے فاطمہ جناح کو بھی فارغ کر دیا۔ اور ایک اور وطن پرست مجیب الرحمن کو جیل میں ڈال دیا۔ نتیجہ یہ نکلا۔ سیاست ان سیاستدانوں کے ھاتھ میں چلی گئ۔ جو اب آپ کے کنٹرول میں نہیں تھے۔ جو آپ سے نفرت کرتے تھے۔ نتیجہ سب نے دیکھ لیا۔ ستر کی دھائ کے سیاستدان اپنے قد کاٹھ، بردباری اور تحمل مزاجی میں پچاس کی دھائ کے سیاستدانوں سے کم نہ تھے۔ انہوں نے پاکستان کو ایک متفقہ آئین دیا اور سیاسی شعور دیا۔ ضیاءالحق نے اس نسل کو ختم کر دیا۔ محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو ، نوازشریف اور اکبر خان بگٹی اور یوسف رضا گیلانی اور شاھد خاقان عباسی کو جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف اور اس کے حواریوں نے ختم کر دیا۔ اور ختم کر رھے ھیں ۔ اور ظلم یہ ھے ۔ مریم نواز ، حمزہ شہباز ، بلاول بھٹو اور بختاور بھٹو کی شکل میں نوجوان سیاستدانوں کی جو نسل مستقبل میں سامنے آ رھی ھے۔ آپ نے ابھی سے اس کا قلع قمع شروع کر دیا ھے۔ جبکہ ان کی سیاست کا فیصلہ کرنا عوام کا حق ھے۔ جبکہ آپ کی قسمت میں شیخ رشید، چوھدری فواد ، فیصل ووڈا ، اور ذلفی بخاری رھ گئے ھیں ۔ اور جو وزیراعظم ھے اسے روپےکی قیمت میں کمی کا خبروں سے پتہ چلتا ھے۔ جو ھمیں بتاتا ھے۔ اگر گیس لیک نہ کر گئ تو پچاس سال چلے گی۔ اور جس کا معاشی ویثرن قرض لینے تک محدود ھو گیا ھے۔ اور ان سب کی زبان اور گفتگو پر غور کریں ۔ کیا مارکیٹ میں نئ متعارف کروائ جانے والی سیاستدانوں کی کھیپ پچاس ، ستر ، نبے کے سیاستدانوں کے کسی بھی طرح برابر ھے۔ اور جو لوگ ان کے فالوورز ھیں ۔ ان کے سیاسی شعور اور انفرمیش پر کوئ دوسری رائے ھو سکتی ھے۔ تنزلی ، رزالت اور بونے پن کی یہ حالت ھو گئ ھے۔ ھماری حکومتی سیاسی قیادت کو پوری دنیا میں کوئ پوچھتا نہیں ۔ کوئ قرض یا مدد دینے کو تیار نہیں ۔ اور آپ کو خود دورے کرنے پڑ رھے ھیں ۔ اور جو قرض مل رھا ھے۔ اسے خرچ کرنے کی اجازت نہیں ۔ البتہ اس پر سود دینا پڑے گا۔ ملک سیاسی ، سماجی اور معاشی طور پر نیچے جا رھا ھے۔ تباھی نظر آ رھی ھے۔ اور ھم آج بھی ان سیاستدانوں کو ٹھکانے لگانے میں مصروف ہیں ۔ جو ھماری بالادستی کو چیلنج کرتے ہیں ۔ جو اپنا آئینی اختیار مانگتے ھیں ۔ جو ووٹ کی عزت کا مطالبہ کرتے ھیں ۔ ھماری ترجیحات کیا ھونی چاھیں لیکن ھماری ترجیحات کیا ھیں ۔ ھم نے ستر سال میں سیاست اور سیاستدانوں کو گالی بنا دیا ھے۔ تاکہ ھم نمبر ون رھیں ۔ لیکن اس چکر میں ھم نے اپنے ملک و قوم کے ساتھ بہت برا کیا ھے۔ ایک زوال ھے۔ جو ھر سو ناچ رھا ھے۔ اور ھم اس ناچ کو اپنی کامیابی سمجھ رھے ھیں ۔ لیکن نہیں سمجھ رھے۔ کہ ایک بہت بڑا طوفان ھماری جانب امڈا چلا آ رھا ھے۔ یہ طوفان ابھی بے سمت ھے۔ ٹکڑیوں میں تقسیم ھے۔ لیکن سمت ملتے اور مجتمع ھوتے دیر نہیں لگنی اس طوفان کو

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply