• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سوشلزم میں موقع پرستی کا ایک بین الاقوامی نمونہ۔۔شاداب مرتضی

سوشلزم میں موقع پرستی کا ایک بین الاقوامی نمونہ۔۔شاداب مرتضی

سوشلسٹ تحریک میں بین الاقوامی سطح پر بھی چین کے حوالے سے ایک بحث یہ ہے کہ چین سامراجی ملک ہے یا نہیں؟ ایک رائے یہ ہے کہ چین سامراجی ملک نہیں ہے۔ اس رائے کے دفاع میں یکم جولائی 2021 کو امریکہ کے “سوشلسٹ” جریدے، منتھلی ریویو (Monthly Review) میں من کی لی (Minqi Li) کا ایک مضمون شائع ہوا جس کا لنک آخر میں دے دیا گیا ہے۔ اس مضمون میں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ چین سامراجی ملک نہیں ہے یہ “تھیوری” پیش کی گئی:

“حالانکہ چین نے جنوبی ایشیاء، افریقہ اور خام مال ایکسپورٹ کرنے والے دوسرے (ملکوں) کے ساتھ “استحصالی (Exploitative)” رشتے قائم کر لیے ہیں، (لیکن) مجموعی طور پر، چین عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں موجود سامراجی ملکوں (Core Countries) کو قدرِزائد کی اس سے زیادہ مقدار منتقل کرتا ہے جتنی یہ غریب ملکوں (Periphery Countries) سے وصول کرتا ہے۔ اس لیے چین کو عالمی سرمایہ داری نظام میں ایک نیم غریب ملک (Semi-Periphery Country) کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔”

اس کا مطلب یہ ہے ک اس تھیوری کے مطابق، چین بین الاقوامی مزدور طبقے کا، غریب ملکوں کا استحصال تو کرتا ہے مگر اسے سامراجی ملک نہیں کہا جا سکتا کیونکہ غریب ملکوں کے استحصال سے اسے جو دولت (قدرِ زائد) حاصل ہوتی ہے اس کا زیارہ حصہ سامراجی ملکوں کے پاس چلا جاتا ہے! سو، اگر کوئی ملک غریب ملکوں کا استحصال مگر استحصال سے حاصل ہونے والی دولت کا بڑا حصہ سامراجی ملکوں پر خرچ کرے تو ایسا ملک سامراجی ملک نہیں کہلائے گا! یعنی، کسی ملک کے سامراجی ہونے یا نہ ہونے کا پیمانہ یہ نہیں ہے کہ وہ غریب، پسماندہ، کم ترقی یافتہ ملکوں کا استحصال کرتا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ استحصال سے حاصل ہونے والی دولت کا کتنا حصہ کہاں خرچ کرتا ہے!

مصنف:شاداب مرتضٰی

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک مارکسی، سائنسی، جدلیاتی اور حقیقت پسندانہ تھیوری۔ہے۔ آئیے اس تھیوری کے کچھ اہم دلائل کا جائزہ لیں جنہیں اس تھیوری نے معاشی “حقائق” سے اخذ کیا ہے۔

تھیوری کے مطابق لینن نے سامراج کی جو خاصیتیں بیان کی ہیں چین ان پر پورا نہیں اترتا۔ مثلاً، لینن کے مطابق سرمائے کو ایکسپورٹ کرنا سامراجی ملکوں کی ایک بنیادی خاصیت ہے۔ چین میں بھی سرمائے کی ایکسپورٹ کا عنصر شامل ہے۔ لیکن چین کی سرمائے کی ایکسپورٹ کا حجم اتنا نہیں جتنا سامراجی ملکوں کا ہے۔ سامراجی ملکوں کے مقابلے میں چین کافی کم سرمایہ ایکسپورٹ کرتا ہے۔ لہذا کسی ملک کے سامراجی ہونے کا پیمانہ یہ نہیں ہے کہ وہ سرمایہ ایکسپورٹ کرتا ہے بلکہ یہ ہے کہ اس کے سرمائے کی ایکسپورٹ کا حجم کتنا ہے۔ اگر یہ حجم کم ہو تو سرمائے کی ایکسپورٹ کے باوجود وہ ملک سامراجی ملک نہیں سمجھا جائے گا! دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر کوئی ملک غریب ملکوں کا کم استحصال کرے تو وہ سامراجی ملک نہیں ہے۔ سامراجی ملک وہ تبھی کہلائے گا جب وہ غریب ملکوں کا اتنا ہی استحصال کرے گا جتنا کہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور دیگر سرمایہ دار، سامراجی ملک وغیرہ کرتے ہیں۔

اس تھیوری کے مطابق “عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کی بین الاقوامی تقسیم، تجارت کے پیچیدہ تعلقات اور سرمائے کے بہاؤ” کی وجہ سے آج کے دور میں کوئی بھی ملک سو فیصد سامراجی یا سامراجی استحصال کا سو فیصد شکار نہیں ہو سکتا۔ دنیا کا ہر ملک بیک وقت دوسرے ملکوں کا استحصال بھی کر رہا ہے اور خود دوسرے ملکوں کے استحصال کا شکار بھی ہے۔ چین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ اس لیے چین کو سامراجی ملک نہیں کہا جا سکتا۔ موقع پرستی کی اس سے اچھی دلیل کا ملنا یقیناً  مشکل ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تھیوری کے مطابق چین جن غریب ملکوں  کا استحصال کر رہا ہے وہ خود بھی استحصالی ہیں اس لیے اگر چین ان کا استحصال کررہا ہے تو چین کو سامراجی ملک نہیں کہا جا سکتا! دوئم یہ ہے کہ اس تھیوری کے مطابق دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو کسی دوسرے ملک کا۔استحصال نہ کرتا ہو۔ اس اعتبار سے دنیا کے موجودہ سوشلسٹ ملک، مثلاً  کیوبا یا شمالی کوریا وغیرہ، بھی کسی نہ کسی طرح استحصالی ملک ہیں اور کسی نہ کسی ملک کا استحصال کر رہے ہوں گے۔

اسی طرح یہ تھیوری بتاتی ہے کہ لینن کے مطابق سامراج کی ایک اور اہم خاصیت یہ ہے کہ اس میں مٹھی بھر امیر ریاستیں دنیا کی کثیر آبادی کا استحصال کرتی ہیں، جس کا تناسب ایک بٹا پانچ یا ایک بٹا چار ہوتا ہے، یعنی لینن کے مطابق سامراج وہ حالت ہے جس میں دنیا کی ایک فیصد آبادی دنیا کی چار یا ہانچ فیصد آبادی کا استحصال کرتی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے چین دنیا کا اکثریتی ملک ہے۔ اکثریتی آبادی کی وجہ سے چین کو سامراجی ملک قرار نہیں دیا جا سکتا بے شک چین پسماندہ ملکوں  کا استحصال ہی کیوں  نہ کرتا ہو! گویا،کسی ملک کے سامراجی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ملک کا حکمران طبقہ سامراجی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کی پوری آبادی سامراجی ہے! مثلاً  امریکہ ایک سامراجی ملک ہے اس لیے امریکہ کی ساری آبادی، اس کے مزدور اور محنت کش عوام بھی امریکہ کے ہاتھوں دوسرے ملکوں کے استحصال میں شامل ہیں! یہ مارکسی یا جدلیاتی دلیل نہیں بلکہ ٹھیٹھ قسم کی قوم۔پرستانہ دلیل ہے۔

یہ تھیوری تسلیم کرتی ہے کہ چین غریب ملکوں کی قوتِ محنت کا استحصال کررہا ہے لیکن یہ اس استحصال کے دفاع کے لیے جواز پیش کرتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر چین اور سامراجی ملکوں کے مزدوروں کی محنت کی قدر تبادلہ میں کافی نابرابری ہے۔ مثلاً ، امریکہ یا برطانیہ کے ایک مزدور کی محنت کی قدر تبادلہ چین کے چار یا تین مزدوروں کے برابر ہے۔ البتہ پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں چین کے مزدور کی محنت کی قدر تبادلہ زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے چین غریب ملکوں  کی قوتِ محنت کا استحصال تو کرتا ہے لیکن پھر بھی چین سامراجی ملک نہیں ہے کیونکہ اس کی محنت کی قدرِ تبادلہ دوسرے سامراجی ملکوں سے کم ہے!

اس تھیوری کے مطابق عالمی نظام کی تھیوری (World Systems Theory) کے تحت دنیا کے ملک تین قسموں کے ہیں: بنیادی، ضمنی اور نیم ضمنی۔ بنیادی (Core) ملک سامراجی ملک ہیں جو صنعت و ٹیکنالوجی میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ ضمنی (Periphery) ,ممالک وہ ہیں جن کی معیشت پسماندہ ہے اور وہ بنیادی یعنی سامراجی ملکون کے استحصال کا شکار ہیں اور نیم ضمنی (Semi-Periphery) ممالک وہ ہیں جو ان کے درمیان میں ہیں۔ اس اسکیم کے تحت چین نیم غریب ملکوں کی فہرست میں آتا ہے اس لیے چین سامراجی ملک نہیں ہے یہاں ہمیں یہ یاد کرنا چاہیے کہ اسی تھیوری کے مطابق دنیا کا ہر ملک بیک وقت بنیادی بھی ہے اور ضمنی بھی کیونکہ ہر ملک استحصالی بھی ہے اور استحصال کا شکار بھی اور کوئی ملک ایسا نہیں جو نہ سامراجی ہو اور نہ سامراجی استحصال کا شکار ہو!

اس تھیوری کا لبِ لباب یہ ہے کہ چین کے ہاتھوں غریب ملکوں کے، بین الاقوامی مزدور طبقے کے، استحصال کے باوجود چین سامراجی ملک نہیں ہے کیونکہ چین کے استحصال کی شدت کا پیمانہ وہ نہیں جو امریکہ، برطانیہ وغیرہ جیسے سامراجی ملکوں کا ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

https://monthlyreview.org/2021/07/01/china-imperialism-or-semi-periphery/

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply