یہ زمانہ قلم کا ہے۔۔فرزانہ افضل

یہ زمانہ قلم کا ہے۔۔فرزانہ افضل/ بہت عرصے سے صحافیوں کی صحافیوں پر تنقید سننے میں آ رہی ہے ، جس میں ان کی صحافت کے طریقہ کار کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایسا کوئی شخص اس تنقید کا حصہ دار نہیں جو صحافی برادری سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ صحافی حضرات ہی آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے طنز کے تیر چلاتے رہتے ہیں۔ تمام اعتراضات میں اعتراض خصوصی یہ ہے کہ صحافی پروگراموں کی کوریج فیس لیتے ہیں ۔ غصے اور جلن کا مظاہرہ نہ صرف زبانی طور پر بلکہ بعض اوقات تو فیس بک پر انتہائی نامناسب الفاظ کے استعمال سے ظاہر کیا جاتا ہے ۔ میری اعتراض کنندگان سے چند گزارشات ہیں ایک تو یہ کہ کیا صحافیوں کو ادا کی گئی فیس آپ کی جیب سے جاتی ہے۔ نہیں۔ تو پھر آپ کیوں پریشانی کا شکار ہیں ۔ یہ تو دو فریقین، انتظامیہ اور صحافیوں کے درمیان کا معاہدہ ہے جس میں تھرڈ پارٹی کو ہرگز کوئی نقصان نہیں تو پھر اعتراض کی بھی کوئی گنجائش اور حق نہیں ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہمارے مقامی صحافی جو ایشیائی چینل یا اخبار کے لئے رپورٹنگ کرتے ہیں ان میں سے صرف چند ایک ہی تنخواہ دار ملازم ہیں ، بقایا کو چینل مالکان سے ان کی محنت کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ سب کو اپنا گھر بار چلانا ہے، بیوی بچوں اور خاندان کی دیکھ بھال کرنی ہے۔
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں۔

یہ سب ایک دن میں کئی پروگراموں کی کوریج کرتے ہیں، بھاگ دوڑ کر ریکارڈنگ اور فوٹو گرافی کرتے ہیں، پھر پروگرام کے دوران ایک سائیڈ پر کھڑے ہو کر متعلقہ افراد کا باری باری انٹرویو ریکارڈ کرتے ہیں، ہال میں موجود تمام مہمانوں کی فوٹوگرافی گروپ کی صورت میں اور انفرادی حیثیت میں بھی کی جاتی ہے۔ چونکہ صحافی برادران مقامی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، لہذا سب کے ساتھ تعلقات بھی ہوتے ہیں اور نتیجتاً اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کوئی ان سے خفا نہ ہو جاۓ کہ بھئی آپ نے ہماری تصویر تو لی ہی نہیں یا اگر لی ہے تو اچھی نہیں لی۔ بہت سی نزاکتیں ہوتی ہیں یعنی کام کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے مزاج کی بھی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ پھر رات گئے پروگرام ختم ہونے کے بعد گھر جا کر رپورٹ تیار کرنے کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے جو کہ خاصا تکنیکی عمل ہوتا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں ہمارے صحافی بھائی چھوٹے سے چھوٹے پروگرام یا کسی کاروبار کی پرموشن کی رپورٹ نہایت خوبصورتی سے بڑھا چڑھا کر تیار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ میں نے اس بات کا بھی بہت مرتبہ مشاہدہ کیا کہ چند مہمانوں کے ساتھ ہی اس طرح کی سیٹنگ کر کے رپورٹ تیار کی کہ وہ بہت بڑا پروگرام لگنے لگا۔ میں نے دل ہی دل میں بارہا اپنے صحافی بھائیوں کی صلاحیتوں کو سراہا ہے۔ کیا اگر آپ کو یا ہمیں یہ سب کام کرنا پڑے تو کیا بغیر معاوضے کے کریں گے؟۔ یہ ان کا ذریعہ معاش ہے اور ان کا حق ہے ۔ اعتراض اٹھانے والوں کو تھوڑی خدا خوفی کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ کسی کی حلال روزی پر طنز و تشنیع کر رہے ہیں۔ اور خصوصاً وہ صحافی جو کسی چینل کے پیرول پر ہیں وہ خود کو خوش نصیب سمجھیں اور اللہ کا شکر ادا کریں نہ کہ اپنے دوسرے بھائیوں کا مذاق اڑائیں اور ان کو کمتر گردانیں۔

کاروباری حضرات اور سیاسی پارٹیاں آئے دن پروگرام منعقد کرتی رہتی ہیں ، چاہے کاروباری مقاصد ہوں یا سیاسی مفاد ، دولت کی نمود و نمائش یا کمیونٹی پر اپنی دھاک بٹھا کر تسکین کا حصول، بلاشبہ ہزاروں پاؤنڈ خرچ کیے جاتے ہیں ۔ تو ان پروگراموں میں آنے والی لاگت میں سے اگر چند پاؤنڈ صحافیوں کو ان کے معاوضے کے طور پر ادا کر دیے جاتے ہیں تو دوسروں کے معدے میں کیوں درد اٹھتا ہے۔

اگر آپ کو نکتہ چینی اور احتساب کرنے کا شوق ہے تو ذرا ان دولت مندوں سے پوچھ کر دیکھیے خصوصاً نودولتیوں سے ، کہ کیا یہ ساری وائٹ منی ہے ۔ ذرا سوال اٹھایئے ٹیکس چوروں پر جو ملین پاؤنڈ کی جائیداد اور کاروبار ہونے کے باوجود اپنی سالانہ ٹیکس ریٹرن کو کیسے صفر کر دیتے ہیں، دولت کی حرص میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ اپنوں کا حق مارتے ہیں ۔ پول کھولیے ایسے افراد کا جو ٹیکس دہندگان کی محنت کی کمائی پر عیش کر رہے ہیں اچھے بھلے صحت مند ہونے کے باوجود نااہلی اور معذوری کے الاؤنس حاصل کرتے ہیں۔ میاں بیوی شادی شدہ ہونے اور ساتھ رہنے کے باوجود بھی حکومت کو علیحدگی ظاہر کر کے یونیورسل کریڈٹ حاصل کرتے ہیں۔ آواز اٹھائیے ان کے خلاف جو آدھی تنخواہ بینک میں اور باقی کیش وصول کرتے ہیں۔ ہمارے متعدد ایشیائی  دوکاندار کارڈ ادائیگی کی بجائے کیش لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔

سسٹم کا استحصال کرنے والے ان تمام لوگوں سے سے ذرا بات تو کر کے دیکھیۓ ، آپ کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دینگے بلکہ دونی کا پہاڑا بھی پھر سے یاد کرنا پڑے گا۔ کمزوروں اور غریبوں پر ہی کیوں لاٹھی چلاتے ہیں اگر آپ خود کو صحافی کہتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں اور آپ کے پاس اتنا وقت بھی ہے تو بے شمار مسائل ہیں جن پر قلم اٹھایا جا سکتا ہے۔ بقول اقبال
فتوٰی ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

Advertisements
julia rana solicitors london

برطانیہ کی حکومت ڈگمگا رہی ہے۔ بورس کے پارٹی گیٹ سکینڈل پر اس سے استعفٰی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ، اس کے اپوزیشن لیڈر پر لگائے گئے بہتان کی وجہ سے اس کے قریب ترین مشیر اس کو خدا حافظ کہہ گئے ہیں۔ پریتی پٹیل کے بنائے گئے نیشنلٹی اور بارڈر بل کی وجہ سے ہم سب خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے   ہیں ، برطانیہ میں بڑھتے ہوئے جرائم پریشانی کا باعث ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر مسائل بڑھتے جا رہے ہیں افغانستان کا بحران روزانہ ٹی وی پر دیکھ کر دل مسل جاتا ہے۔ شام کے ملک میں لوگ کیمپوں میں سردی سے مر رہے ہیں ، روس، یوکرائن پر حملہ کرنے کو تیار بیٹھا ہے، مسئلہ کشمیر کا آج تک کوئی حل نہیں نکل سکا، کشمیریوں پر ظلم گزشتہ 76 برس سے جاری ہے۔ خدا کے لئے ایک دوسرے پر نکتہ چینی چھوڑ دیجئے، مرحوم فاروق قیصر کو اگر زندگی مہلت دیتی اور وہ اپنے ٹی وی پروگرام “کلیاں” کا ریٹرن سیزن بناتے تو “ماسی مصیبتے” کا کردار عورت کی بجائے شاید اس بار مرد کو دیتے، خواتین بیچاری تو یونہی بدنام ہیں، لگائی بجھائی ، طعنہ زنی اور طنز میں مرد بھی شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ تنگ دلی اور تنگ نظری چھوڑ دیجئے ۔ صحافی حضرات کے لیے اپنی صحافی برادری کے افراد کی صلاحیتوں پر شک کرنا اور ان کا مضحکہ اڑانا بہت افسوس اور دکھ کا مقام ہے ۔ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی پر توجہ دیجیے ، اپنی توانائیاں سنجیدہ اور بڑے مسائل پر قلم اٹھانے میں صرف کریں۔کمیونٹی کے مسائل پر لکھیے،ذاتیات پر نہیں ۔
صحافی ہیں ، تو صحافی بنیں اخبار فروش نہیں
بقول احمد ندیم قاسمی
” رہنما سے بس اتنا ہی ہمیں کہنا ہے
کہ وہ الفاظ کے ناموس کو بیچا نہ کریں”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply