سیکولرازم کی مرتی روح/ رشید ودود

ہمارے ایک بزرگ دوست ہیں نور القمر سلفی’ کل انہوں نے فرمایا کہ
“سوشل میڈیا پر جس طرح سے لوگ تھوک کے بھاؤ گیان بانٹ رہے ہیں، لوگوں کا اصحاب الرائے پر سے اعتماد اور بھروسہ ختم ہوتا جارہا ہے۔
ہم نہ گیانی ہیں اور نہ ہی ہمارا شمار اصحاب الرائے میں ہوتا ہے البتہ ہمیں تھوڑی بہت نقادی کا دعویٰ ضرور ہے ان دنوں جو گیان بٹ رہا ہے اس کے ایک پہلو میں نقد کا امکان ہے سو ہم وہی کرنے جا رہے ہیں۔
آج کل تواتر سے یہ بات کہی جا رہی ہے ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کچھ زیادہ روشن نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے؟
ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے دوست ہم سے زیادہ اپ ڈیٹ ہیں، حالات پر ان کی گہری نظر ہے، باقاعدہ اعداد و شمار پیش کر کے وہ مسلمانوں کے مستقبل سے مایوس ہوتے ہیں لیکن ہمارے دوست ایک غلطی کر جاتے ہیں اور وہ یہ کہ حالات صرف مسلمانوں کیلئے خراب نہیں ہیں بلکہ پورے ملک کے حالات خراب ہیں۔

ہماری ذہنیت نہ تو شکست خوردہ ہے اور نہ ہم کسی کو فاتح سمجھ رہے ہیں اور نہ ہی ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہے لیکن گردش ماہ و سال پر جب ہم نظر دوڑاتے ہیں تو یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ ہم وہ پیڑت آتما ہیں جو کبھی خوش نہیں ہو سکتے، ہم وہ ناشکرے ہیں جنہیں شکر گزاری کا جذبہ مِلا ہی نہیں، کانگریس دور میں بھی ہم مطمئن نہیں رہے اور اب کانگریس دور کو یاد کر کے آہیں بھرا کرتے ہیں، ہم بس رد ِعمل کے شکار ہیں، ہمیں کبھی اسلام خطرے میں نظر آتا ہے اور کبھی مسلمان، لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ مسلمان چاہتے کیا ہیں؟ سیدھا جواب ہے کہ وہ بس رونا چاہتے ہیں، کوسنا چاہتے ہیں، ہمیں اپنوں سے شکایت ہے، غیروں سے شکایت ہے، ہم اپنوں سے لڑتے ہیں، غیروں سے لڑتے ہیں اور جب لڑنے کیلئے کوئی نہیں ملتا تو خودکشی کر لیتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے حالات بہت خراب ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کہاں کے حالات صحیح ہیں؟ نیپال کے؟ جی ہاں نیپال کے حالات صحیح ہیں لیکن اس وقت نیپال اپنی تاریخ کے بدترین کساد بازاری کے دور سے گزر رہا ہے، نیپال معاشی سست روی کا اس حد تک شکار ہے کہ انڈسٹری ٹھپ ہے، ملک میں پیسہ نہیں، ڈالر کا ذخیرہ ختم ہونے کے کگار پر پہنچ گیا تھا لیکن سنبھال لیا گیا، معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کم از کم دو سال تک نیپال کی یہی معاشی صورتحال رہے گی۔

اب پاکستان کو دیکھتے ہیں، ماشاءاللہ مملکت خداداد ہے لیکن کسی بھی زاویے سے مملکت ہند اور مملکتِ خداداد میں کوئی فرق نہیں بس نام کا فرق ہے، ہندوستان میں مسلمان لنچ ہوتے ہیں تو پاکستان میں مسلمان مسلمان کے ہاتھوں لنچ ہوتا ہے، رہی داڑھی و ٹوپی تو یہ دونوں ملکوں کیلئے یکساں طور پر پریشانی کا باعث ہے، ہمارے ایک محترم کالم نگار پاکستان کے حالات سے اتنے بد دل ہوئے کہ اب وہاں کی سیاست پر لکھنا ہی بند کر دیا، ایک صاحب ابھی پرسوں کہہ رہے تھے کہ اب بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کوئی بُرا بول جائے تو بھی بُرا نہیں مانتا۔

آیئے سری لنکا چلتے ہیں، سری لنکا میں پہلے تمل اقلیت کو دیوار سے لگایا گیا پھر مسلم اقلیت کو۔۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک دیوالیہ ہو گیا۔۔
میانمار کا حال سب کو پتہ ہے اب رہے ایران و توران تو انہیں کسی اور موقعے کیلئے چھوڑتے ہیں۔
تو پہلا نکتہ یہ ہے کہ حالات صرف ہندوستان میں خراب نہیں ہیں بلکہ پڑوسی ملکوں سے موازنہ کیا جائے تو یہاں کے مسلمان خوش و خرم نظر آئیں گے لیکن ابھی یہ موازنہ چھوڑ کر ہم صرف ملکی حالات کی بات کرتے ہیں۔

اس وقت بُرا وقت صرف آزاد پر نہیں آیا ہے بلکہ گاندھی پر تو ایسا آیا ہے کہ اب ناتھو رام گوڈسے کو مہان ماننے والے ملک میں حتی کہ سنسد تک میں موجود ہیں۔ رہے نہرو تو ہمارے موجودہ وزیراعظم کو نہرو سے کچھ خاص لگاؤ معلوم ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں ادارے اس حد تک ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں کہ اب یا تو وہ اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں یا پھر حکمراں طبقے کی جنبش ابرو پر رقص کرنے پر مجبور ہیں، صوبے کمزور سے کمزور تر بنا دیئے گئے ہیں وفاق دن بدن مضبوط ہو رہا ہے یہ خطرے کی وہ گھنٹی ہے جو اب بہروں کو بھی سنائی دینے لگی ہے، کسان پریشان، جوان حیران، طالب علم اُلجھن میں، سیاست داں جیلوں میں، متوسط طبقہ بھکمری کا شکار ہو کر بھکاری بن گیا ہے، مہنگائی آسمان پر، تارے زمین پر، سرکاری نوکری پیشہ لوگ روز ٹھگے جاتے ہیں، اس حکومت نے تو پہلوانوں کے بھی کَس بل نکال دیئے ہیں ایسے میں آپ بتائیں کہ خوشحال کون ہے؟ کہنے کیلئے بی جے پی والے خوشحال ہیں لیکن صاحب! بی جے پی ہے کہاں؟ کانگریس سے آنے والوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے اور بی جے پی والوں کو لات مار کر باہر کیا جا رہا ہے، یوگی جیسے سخت جان کی لگام بھی گجرات لابی کے ہاتھوں میں ہے۔

تو دوسرا نکتہ یہ ہے کہ سب پریشان ہیں اور تیسرا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو خاکم بدہن کملیشور جی کے ناول کا نام بدلنا پڑے گا۔

اب یہ کہنا کہ ہندوستان میں صرف مسلمان پریشان ہیں یہ آدھا سچ ہے پورا سچ یہ ہے کہ پورا ملک پریشان ہے اس لئے مسلمان تجزیہ نگاروں کے تجزیے میں یک رخا پن، مفاد پرستی اور خود غرضی پائی جاتی ہے۔
جب ملک خطرے میں ہو، ملک والے خطرے میں ہوں، جمہوریت خطرے میں ہو، چیف جسٹس تک کو مرڈر آف ڈیموکریسی کا اعتراف کرنا پڑ رہا ہو، مہنت خطرے میں ہوں اس لئے کہ وزیراعظم خود ہی سب کچھ کر رہے ہوں اور سب کچھ کر کے اگر سیکولرزم کی روح مر رہی ہے تو مرنے دیں اسے۔ مندر تو بن رہا ہے ایسے میں یہ کہنا کہ صرف مسلمان پریشان ہیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے پورا بدن زخموں سے چور ہو اور آپ صرف ہونٹوں کے کٹنے پر واویلا مچا رہے ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ مسلمان کیا کریں تو مائی ڈیئر قارئین! یہ بتانا ہمارا کام نہیں گیانیوں کا کام ہے، ہم تو بس نقاد ہیں سو ہم نے نقد کا فریضہ انجام دے دیا اب آپ جانیں اور آپ کا کام جانے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply