• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اپوزیشن اور میڈیا کی باسی کڑھی میں اُبال۔۔ارشد غزالی

اپوزیشن اور میڈیا کی باسی کڑھی میں اُبال۔۔ارشد غزالی

اپوزیشن اور میڈیا کی باسی کڑھی میں اُبال۔۔ارشد غزالی/ وطن عزیز کے نام نہاد دانش وروں,صحافیوں اور سیاست دانوں کی اکثریت جھوٹ اور ڈھٹائی میں اس حد تک خود کفیل ہے کہ جوتوں سمیت آنکھوں میں گھستے ہوئے ذرّہ بھر شرم و حیا  محسوس نہیں کرتی۔ یہ لوگ اگر یہ سب کسی مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں کرتے تو عوام خود انھیں کچرے کے ڈھیر میں پھینک چکی ہوتی مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اجتماعی طور پر آگہی اور شعور کی کمی ہے جس کا خمیازہ زرد صحافت کے پیروکاروں اور بدبودار موروثی سیاست کے وارثوں کی صورت میں ان لوگوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے جو عقل وشعور سے عاری ہجوم میں سے الگ ہو کر سوال اٹھانے کے گناہ گار ٹھہرتے ہیں بقول احمد فراز

یہی کہا تھا میری آنکھ دیکھ سکتی ہے
تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا

یہ تمام لوگ جنہیں ریاست پاکستان اور ملکی مفادات سے ذرّہ بھر کوئی غرض نہیں اور اس نام نہاد تعفن زدہ موروثی جمہوری نظام کے بینیفشری ہیں، ان کا واحد مقصد صرف اپنے اپنے نام نہاد شخصیت پرستی کے تراشے بتوں کی پوجا کرنا, اپنی ذات اور اپنی آئندہ آنے والی نسلیں ہیں ،ان سے کسی اچھائی اور بہتری کی بعید رکھنا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے کے مترادف ہے۔ پچھلے ستر سالوں سے ہمارے ملک اور نظام پر حکومت کرنے والے صرف معیشت سے کاروبار تک ہر شعبے میں ملک کی بربادی اور تباہی کے ذمہ دار ہی نہیں ہیں بلکہ انھوں نے ذہنی غلاموں کی ایک ایسی نسل تیار کردی ہے جسے سود و زیاں کا احساس تک نہیں مگر رب کائنات کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت “امید” مایوسی کے اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن کی صورت ہے کہ ہر اندھیری رات کے بعد سحر قانون فطرت ہے۔

عمران خان کا بطور سربراہ ریاست چین کا دورہ ملک اور معیشت کے حوالے سے کامیاب ترین دوروں میں سے ایک ہے ،جس میں اربوں ڈالر کے منصوبوں پر دستخط ہوئے اور بیجنگ اولمپکس کے موقع  پر واضح طور پر دنیا کے افق پر ایک نیا بلاک ابھرتا نظرآیا، جس میں پاکستان نے اپنا وزن ماضی کے برعکس مغرب کے بجائے چین اور روس کے پلڑے میں ڈالا ہے مگر جن صحافیوں اور سیاست دانوں کو بائی لیٹرل اور ملٹی لیٹرل کا مطلب تک نہیں پتہ وہ بھی بجائے اس دورے کے اثرات و فوائد یا نقصانات پر بات کرتے،   عمران خان کے دورہ چین میں نائب وزیر خارجہ کے استقبال کرنے اور ریاست کی عزت گھٹ جانے, چینی صدر سے ملاقات کی تصویر لیٹ آنے اور دیگر بے مقصد معاملات پر مباحثہ کرتے نظر آئے۔

کسی نے مگر یہ سوال نہیں اٹھایا کہ بیجنگ اولمپکس کے سٹار گیسٹ پیوٹن سمیت دیگر سربراہان کو رسیو کرنے کون آیا تھا ملٹی لیٹرل پروٹوکول کیاہے چین اور پاکستان نے مشترکہ اعلامیہ کیا جاری کیا , کن کمپنیوں سے اور کیا معاہدے ہوئے, سی پیک کے حوالے سے کیا پراگریس ہوئی , یہ دورہ کس حد تک کامیاب یا ناکام رہا ؟۔۔ہاں مگر اس کے بجائے ان سب کی طرف سے منفی پروپیگنڈہ ضرور جاری رہا۔انتہا یہ ہوئی کہ نون لیگی سینئر قیادت چینی صدر کے کئے ہوئے دورہ پاکستان پر میاں صاحب کی طرف سے کئے گئے چینی صدر کے استقبال کی تصویر کو گمراہ کن طور پر میاں صاحب کے دورہ چین کی تصویر ظاہر کر کے عمران خان کے چینی دورے سے ملاتی رہی اور جواب میں تحریک انصاف والے میاں صاحب کی دورہ چین کے موقع  پر چین کی مقامی میونسپل کمیٹی کے نائب چئیرمین کے میاں صاحب کے استقبال کے لئے آنے کی تصاویر شئیر کرتے رہے۔

پچھلی حکومت معیشت میں جو بے شمار ٹائم بم لگا کر گئی تھی پچھلے سوا تین سال وہ پھٹتے رہے، رہی سہی کسر کرونا وبا نے پوری کردی اور اس کے علاوہ جو باقی تھا اسے چند حکومتی وزراء کی نا اہلیت, ناتجربہ کاری, بد انتظامی, مفاد پرستی اور اقرباء پروری نے عروج پر پہنچا دیا تھا مگر اب حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔آئی ایم ایف کی قسط, زر مبادلہ کے ذخائر, ٹیکس کلیکشن, ایکسپورٹس میں اضافہ, امپورٹس میں کمی, ڈیمز اور موبائل مینوفیکچرنگ سمیت کئی نئی صنعتتوں کے قیام , صنعتی زونز اور سی پیک کے اگلے مرحلے کے آغاز سمیت لاتعداد ایسے معاملات ہیں جن سے یقینی طور پر آئندہ آنے والے وقت میں نہ صرف ملکی معیشت استحکام کی طرف جائے گی بلکہ عام عوام کو بھی اچھا خاصا ریلیف ملے گا اور یہی سب دیکھتے ہوئے اپوزیشن دانت تیز کر کے ایک بار پھر ملک اور ملکی وسائل پر ٹوٹ پڑنے, لوٹ مار اور اپنی کرپشن زدہ لوٹی ہوئی دولت بچانے کے لئے اکٹھی ہوتی نظر آرہی ہے دوسری طرف ذہن سازی پر معمور مخصوص صحافی ایک بار پھر تحریک عدم اعتماد کا شور شرابہ  کرتے نظر آرہے ہیں جو باسی کڑھی میں ابال کے سوا کچھ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

حکومت کی مدت ختم ہونے سے ڈیڑھ پونے دو سال پہلے یہ سوچنا کہ اگلے الیکشن کی تیاری کے لئے اتحادی حکومت کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں خاص کر ق لیگ جس میں ق مقتدر حلقوں کا ہو محض خوش گمانی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں کہ اتحادی یہ حقیقت جانتے ہیں کہ حکومت کی بقایا مدت میں عوام کو ریلیف بھی ملے گا اور معیشت بھی مستحکم ہوگی نیز عمران خان جلسوں کی صورت میں پاور شوز کے لئے بھی تیار ہیں جب کہ ان کے جلد روس اور جرمنی کے دورے بھی شیڈول ہیں ایسے میں فیصلہ سازوں کی مرضی کے خلاف کسی قسم کی ان ہاؤس تبدیلی صرف بلی کے خواب میں چھیچھڑے ہیں کیونکہ اپوزیشن کے پاس اتحادیوں کو تحریک عدم اعتماد لانے کو آفر کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے خاص کر جب یہ شو آف ہینڈ سے ہونی ہو جب کہ یہ بات بھی طے ہے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں عمران خان اسمبلیاں توڑ کر عوام میں چلیں جائیں گے جو کہ نہ تو اتحادیوں کے مفاد میں ہوگا نہ ہی پیپلز پارٹی کے جو کسی صورت سندھ حکومت سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہوگی کہ جس کا نتیجہ ان کی تباہی کی صورت نکلے اور نہ ہی اس وقت کسی بھی سیاسی پارٹی اور نمائندوں کی نئے انتخابات کے لئے تیاری ہے اس لئے مبینہ طور پر سارے شور و غل کا مقصد حکومت پر دباؤ بڑھا کر اسے الجھائے رکھنے, خود کو سیاست میں متعلق رکھنے اور متبادل آپشن کے طور پر دکھانے نیز عدالتی کیسز پر اثر انداز ہونے کے سوا کچھ نہیں جس کا اپوزیشن کو تو کوئی خاص فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہاں مگر اتحادی مزید وزارتیں اور فوائد حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے اور یہی اتحادیوں کے جعلی تیوروں کا مقصد بھی ہے۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply