دونظمیں ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

دوستو: میں غالب کے کلیدی اشعار کو یورپی اور امریکی جامعات میں مستعمل طریق کارVirtual Textual Analysis کی رو سے منظوم تشریح و تفسیر و دید بافی کے عمل سے گذار رہا ہوں۔ اب تک تیس نظمیں ہو چکی ہیں۔ ان میں سے دو آپ کے تفنن طبع اور رائے کے لیے پوسٹ کر رہا ہوں۔ اس تکنیک کی رو سے متن یعنی ٹیکسٹ پر مکمل انحصار رکھتے ہوئے شاعر، اس کی حیات یا اس کے حالات یا دین یا مذہب یا فلسفہ ٔ زیست کو بالکل غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔ فقط اور فقط متن۔۔۔اور ما سواء اس کے کچھ اور نہیں۔
تو ، دوستو دیکھیں۔ اردو میں یہ پہلا تجربہ کیا گیا ہے۔

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہو ا
۔۔۔۔۔
چشم ِ بینا نہ ہو گر چشم ِ تماشا تیری
اور یہ چشم ِ تماشا نہ ہو اگر تیسری آنکھ
تو میاں ، صرف ٹٹولو گے ، کہاں دیکھو گے؟

ژرف بیں ہو بھی ، مگروقت کٹی کی خاطر
محض نظّارے کی خاطر ہی اسے دیکھتے ہو
جھانکتے ہو کسی کج چشم ہونّق کی طرح
جی نہیں، ایسی نظرتو ہے صریحاًبے جا
پھر کہاں قطرے میں دجلہ ہے؟ کہاں جزو میں کل؟
پھر’’چھپن چھوت‘‘ہے، اک کھیل جسے
لڑکے بالے ہی اگر کھیلیں۔۔خوشا، عمر دراز!

برملا، سامنے ہونا بھی ہے اضمار کا بھیس
ہاں، اگر ذہن کو ہے ’’ظاہر و باطن‘‘ کا شعور
اور مشہود ہے بے پردہ، بر افگند، نقاب
ٹیبلو ۔۔ اوپرا ۔۔ سیناریو، بے پردہ ہیں

‘ قطرہ ‘ پھر ایک ‘قیافہ’ نظر آئے گا تمہیں

اور ‘دجلہ’ وہی برّاق استکمال، کہ ہے
اسوۂ حسنیٰ، جسے عرشِ معلیٰ کہیے!

ایک ہی شرط ہے اے ناظر ِ کم بین، اعمیٰ
تیسری آنکھ کو ماتھے پہ ذرا کھول کے دیکھ
ایک قطرے میں نظر آئے گا دجلہ سارا!
۔۔۔۔۔

نظم نمبر دو

آتش و آب و باد و خاک نے لی
وضع ِ سوز و نم و رم و آرام
۔۔۔۔
آتش و آب و باد و خاک ہیں کیا؟
جسمیت، مادیت، خس و خاشاک
ما و طین و طبیعیاتِِ زمیں
عنصری، چار دانگ ِ عالم میں
غیر شخصی زمین و کون و مکاں
ثقل ہو یا سبک ، کثیف و لطیف
اپنی بنیادمیں ہیں چار فقط!
اثریت کا نہیں کوئی بھی وجود
صرف اجزائے دیمقراطیسی
’’آرکی ٹائپ‘‘ ہیں سبھی اجزاء
آتش و آب و باد و خاک سمیت
اِس جگہ، اُس جگہ، یہاں اور وہاں!

Advertisements
julia rana solicitors london

آب’ نم‘، باد ’رم‘، و آتش ’سوز‘
خاک چسپیدہ ، ٹھس، فقط ’آرام‘
ہاں، مگر غالب حزیں کے لیے
جذبہ و جوش کے ظوا ہر تو
رنج، دکھ، درد کی علامتیں ہیں
آب، آنسو ہیں، جلتے تپتے ہوئے ( ۱)
آب شبنم ہے، لمحہ بھر کی حیات( ۲)
خاک سے کیا ہوا کا رشتہ ہے
جانئے گا تو رویئے گا، جناب ۔۔
’سوز‘ اور ’رم‘ سے ہے یہی مقصود! ( ۳)
’آب‘، ’آتش‘ ، ’ہوا ‘ سے خاک تلک
ہے سبک گام زندگی ہر دم ( ۴) (۵)
ہے ازل سے روانئ آغاز
ہو ابد تک رسائئ انجام!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۰(۱) آتش پرست کہتے ہیں اہل،ِ جہاں مجھے : سر گرم ِ نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر
۰(۲) پرتو ِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم: میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہو نے تک
۰(۳) مگر غبار ہوئے پر ہوا اُڑا لے جائے : وگرنہ تاب و توں بال و پر میں خاک نہیں
۰ (۴) ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہو ا : باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
۰ (۵) ہے مجھے ابرِ بہاری کا برس کر کھُلنا : روتے روتے غم ِ فرقت میں فنا ہو جانا

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply