• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/عراقی اور افغانی دنیا کی مشکل اور عجیب قومیں اور امریکہ دونوں سے پنگا لے بیٹھا تھا(قسط5)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/عراقی اور افغانی دنیا کی مشکل اور عجیب قومیں اور امریکہ دونوں سے پنگا لے بیٹھا تھا(قسط5)۔۔۔سلمیٰ اعوان

بغداد کا نقشہ پوچھا۔نہیں تھا۔پرانے بغداد کیلئے رہنمائی چاہی۔
یہ کاظمین یا الکاظمیہAL.Kazimiaa ملحقہ حرّیہ (Huriya)آگے قدیم شہر یہیں وہ جگہ جہاں مدینتہ المنصورکی بنیاد رکھی گئی۔بس ذرا احتیاط۔ بغداد میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت خاصی مایوس کن ہے۔شنوائی نہیں۔کسی کو ساتھ لے لیں۔بم دھماکوں کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا۔
بم دھماکوں کی وجہ پوچھنے پر مروان بولا تھا۔
”خیر سے استعماری طاقتیں مفاد پرست سُنّی اور شیعہ ٹولوں کو لڑا لڑا کر مروا رہی ہیں۔دونوں بڑے فرقے ایک دوسرے کا بیج مارنے میں دل و جان سے مصروف ہیں۔
ڈپریشن سا ہونے لگا تھا۔کمرے میں آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ لیٹ گئی۔پھر اُٹھ بیٹھی اور پھر باہر نکل گئی۔
دو رویہ دوکانوں میں طعام خانے تھے۔کپڑے تھے۔ ڈھیروں ڈھیرسونا آنکھوں کو چُندھیاتاتھا۔تربوز، گرما، انگور اور مالٹے تھے۔بڑے بڑے تھالوں میں تلوں سے سجے گرما گرم طبون تھے جو تازہ تازہ بیکریوں کے تندوروں سے نکل کر آئے تھے۔
دھوپ کا جوبن تھا اور لوگوں کے پُرے تھے۔رونقیں اور گہما گہمی تھی۔رنگا رنگ کھجوریں تھیں۔کہیں بچپن چھلانگ مار کر سامنے آ گیا تھا۔جب ریڑھیوں والے آوازیں لگاتے تھے۔کھجوریں بصرے کی۔یہ بصرہ ہمیشہ سے ذہن کی گچھاؤں میں بیٹھا ہوا تھا۔چلو اب بصرہ میں تو نہیں پر اُس سر زمین پر تو تھی۔
سو ڈالر بھنایاتو تقریباً ایک لاکھ سولہ ہزارکے نوٹ ہاتھ آئے۔۵۲ ہزار کا نوٹ باہر رکھا۔بقیہ پرس میں گھسیڑا۔دودھ لیا۔۰۱ کلو وزنی تربوز اُٹھایا۔کرنسی اتنی بے وقعت سی تھی کہ سینکڑوں چھوڑ ہزاروں کے نوٹ بے اوقاتے اور بے توقیرے تھے۔
صد شکر کمرے میں مُنّی سی فرج تھی۔کِسی سے پلیٹ چھُری مانگی۔کپڑا بچھا کرآدھے تربوز کو دوائی جان کر ٹھونسا۔صُبح سے اناج نام کی ایک کھِیل اندر نہیں گئی تھی۔نسرین اُونگھتی تھی۔فرج میں بقیہ آدھا رکھ کر اُسے کھانے کو کہا۔منہ ہاتھ دھویا۔کنگھی پٹی کی۔نرم ڈوپٹے کا حجاب بنا کر اوڑھا۔عبا یا پہنی او رنکل پڑی۔
مجھے اس مختصر سے وقت میں یہ اچھی طرح سمجھ آگیا تھا کہ میرا وہ بسوں ٹراموں میں بیٹھ کر ہر نئے مُلک میں اُس کے شہروں سے متعارف ہونے کا سستا ترین پیکج فارمولایہاں عراق میں نہیں چلے گا۔شہر اور ملک جس ابتلا سے گزر رہا ہے وہ ایسی من مانی کی اجازت نہیں دیتا۔ مجھے ڈالروں والی تھیلی کا منہ کھولنا ہے۔سلامتی اور تحفّظ سے بغداد کو دیکھنا ہے۔
روضۂ مبارک کی بیرونی دیوار کے سامنے کا سارا علاقہ بازاروں اور ہوٹلوں سے بھرا پڑا ہے۔ بڑے بڑے تنبو نما چیک پوسٹوں پر بیٹھی لڑکیاں جدید وضع کے میٹل ڈیٹکٹر ہاتھوں میں پکڑے آپکو خارجی جانتے ہوئے دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پر بکھیرے آپ کے سینے سے ٹانگوں تک پھیرتے اور اوکے کرتے ہوئے باہر کا اشارہ کردیتی ہیں۔
ٹیکسی سٹینڈ تک آتے آتے میرے ہونٹوں پر دعائیں تھیں۔اپنی آرزوں کے شہر بغداد کی سر زمین پر قدم دھرنے کی خوشی تھی۔اِس خوشی کے سنگ سنگ خدشات کی بھی ایک لام ڈور تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے چلتے چلتے اپنے آپ سے کہا تھا”کہ اب دھماکوں سے کیا ڈرنا۔آنی نے جیسے لکھا گیا ہے آنا ہی ہے۔بندہ ڈریا موت توں تے موت اگے۔وہاں دیس میں بھی تو یہی سب ہوتا ہے۔“
اور جب میں ٹیکسی ڈرائیوروں سے بات کرتی تھی جو شہد کی مکھیوں کیطرح ارد گرد آ کھڑے ہوئے تھے۔نظریں عینک کے سیاہ شیشوں کے عقب سے چہروں کو تنقیدی انداز میں ٹٹولتے ہوئے ایک قابل اعتماد، ایک قابل بھروسہ بندے کیلئے خدا کی مدد کی طلبگار تھیں۔
پھر جیسے وہ ٹھک سے میری نظروں کو بھا گیا۔کوئی پچیس چھبّیس کے چکر میں ہوگا۔مہذب، سنجیدہ، متین سا۔آنکھیں جیسے اندر کے کسی دُکھ کو عیاں کرتی ہوں۔انگریزی میں رواں تھا۔ بس پتہ نہیں میرا دل اُس سے سودے بازی اور مُک مُکا پر کیوں نہ مائل ہوا؟
دروازہ کھول کر بیگ سیٹ پر پھینکتے ہوئے میں خود کو ربِ کائنات کی تحویل میں دے چکی تھی۔کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں نا جن پر اعتماد کرنے کو دل گواہی دیتا ہے۔
اور وہ چہرہ بھی ایسا ہی تھا۔
گاڑی میں بیٹھنے کے ساتھ ہی میرے اندر کی شوخ و چُلبلی سی خواہشیں فی الفور پھسل کر ہونٹوں پر آگئیں۔
میں نے خود سے سوال کیا۔
”مجھے سب سے پہلے کہاں جانا ہے؟“میرے اندر نے فی الفور جواب میں کہا تھا۔
”دجلہ پر۔“
دجلہ پر دیر تک ٹھہرنا ہے کہ مجھے اُس سے باتیں کرنی ہیں۔شام کو رخصت ہوتے، سورج اور اس کی کرنوں کو دجلہ کے پانیوں پراُترتے ہوئے دیکھنا ہے۔پھرمجھے اُس قدیم ترین بغداد سے ملنا ہے جس کا سحر مجھے یہاں لایا ہے۔ دن کی روشنیوں میں، رات کی روشنیوں اور تاریکیوں میں۔ جنگوں سے متاثر لوگوں سے ملنا ہے۔اسپتالوں میں جانا ہے۔
امام اعظم جناب ابوحنیفہ، جناب ابوموسیٰ کاظم اور پیران پیر غوث اعظم کے روضۂ مبارک پر حاضری صبح پاک صاف ہو کر ہوگی۔“
عینک اُتار کر اُس سے مخاطب ہوئی جو افلاق تھا اور جو مجھے بھرے مجمع میں بڑا منفرد لگا تھا۔
”عراق تہذیبوں کا گھر اور بغداد مسلمانوں کی عظمتوں کا نشان جسکی کہانیاں پڑھ پڑھ کر ہم بچپن سے اسکی محبت میں گرفتار ہیں۔یہ دجلہ اور فرات جن کے کناروں پر ہمارے آبا ء کے قافلے اُترے اور جنکے پانیوں میں ان کے گھوڑوں نے چھلانگیں ماریں۔
میں بہت دور سے آئی ہوں۔محبتّوں اور چاہتوں کے اس سفر میں اکیلی بھی ہوں اور خوف زدہ بھی۔بس اتنی سی منّت ہے کہ بغدادکو دکھادو۔اُس سے بصری تفصیلی تعارف کروادو۔ اس کے زخمی اور نڈھال لوگوں سے ملادو۔ تمہارا احسان یاد رکھوں گی۔“
اب آواز میں بھی جذبات ہوں۔آنکھوں میں بھی۔اور چہرہ بھی انہی تاثرات میں بھیگ جائے۔مخاطب بھی جوان بچہ ہو تو متاثر ہونا ضروری امر ہے۔
”کیسے وقت میں آئی ہیں آپ۔ہم بدقسمت لوگ تو شعلوں کی برستی بارش میں نہا رہے ہیں۔آتش فشاں کے کھولتے لاوے میں بہہ رہے ہیں۔
کلیجے پر گھونسہ لگا۔کیا کہتی؟ تھوڑی سی چپ کے بعد لڑکا بولا۔
”آپکو اپنے گھر لے کر جاتا۔ماں بہنوں سے ملاتا۔“
میں اُس کے سنجیدہ سے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہے بغیر نہ رہ سکی۔
”خواہشیں کتنی بھی منہ زورکیوں نہ ہوں۔دانے پانی کا اختیار بھی بہت اہم ہے۔ہاں یہ شعلوں اور آتش فشاں کی بھی تم نے خوب کہی۔پاکستانی بھی تو اسی بربریت کا شکار ہیں۔آگ اور شعلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہمارے فیصلے، ہماری پالیسیاں، ہمارے حکمران، سب غیرت و حمیت سے عاری مغرب کے غلام ہیں۔ انکے دست نگر۔تمہاری عنایت ہوگی اگر تم اپنے گھر مجھے لے کر جاؤ۔“
کون سے گھر؟ لمبی سی آہ اس کے سینے سے نکلی تھی۔گھر تو کوئی رہا ہی نہیں۔ماں بہنیں سب بمباری میں مرگئیں۔گھرزمین بوس ہو گیا۔
”تو تم کہاں تھے؟“
میں زکو(Zakhu) شمالی عراق میں تھا۔عراق پٹرولیم کمپنی میں اپنی جاب پر۔ چار دن بعد پہنچا تھا۔المامون میں میرے انجنیئر ابّا کے ہاتھوں کا بنا ہواخوبصورت گھر تو 20مارچ کی خوفناک صبح کی وحشیانہ بمباری میں ہی زمین بوس ہوگیا تھا۔اور اس میں رہنے والی مہربان صورتیں جانے کہاں اور کن کمروں میں رزق خاک ہوہیں۔مجھ سے چھوٹی بہن جو صرف دو ماہ بعد بیاہی جانے والی تھی نے جانے اپنی خوابوں سے معمورآنکھوں سے کیسے موت کو آنگن میں اترتے دیکھا ہوگا؟مجھے تو ان کا آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔نہ کہیں قبریں نہ کہیں غسل کا اہتمام اور نہ کفن دفن کہ بغداد کربلا بناہوا تھا۔اور صدام کے محل پر وحشیانہ بمباری ہورہی تھی اور المامون کا علاقہ گرین زون سے بہت قریب تھا۔
وہ کیمیکل ٹیکنالوجی میں ایم ایس سی کیمیکل انجنئیر اب ایک ٹیکسی ڈرائیور ہے کہ ملازمتوں کا قحط پڑا ہوا ہے۔ یوں سیاحت،تاریخ سے دلچسپی اور گائیڈ جیسے شوق اور مشاغل اُس نے زمانہء طالب علمی سے پال رکھے تھے۔اُس کی چھٹیاں اکثر و بیشتر غیر ملکیوں کے ساتھ گزرتیں۔باپ اُس کی اِن بے قاعدہ اور بے ڈھبی سی سرگرمیوں سے بڑا الرجک رہتا تھا۔جاب تو اُسنے کوئی سال بھر پہلے شروع کی تھی۔سب کچھ لٹ جانے پر اُسے تو مہینوں کچھ یاد ہی نہیں رہا تھا۔ ایک بار خودکشی کی کوشش کرچکا تھا۔کاظمیہ کے علاقے الحریت میں رہنے والے چچا چچی نے بانہوں میں سمیٹاہوا ہے۔ان کا بہت ممنون تھا۔
”آپ کو لے کر چلوں گاان سے ملانے۔اِس ٹیکسی ڈرائیوری نے مجھے زندگی کی طرف دوبارہ کھینچا ہے کہ میں لوگوں کے دُکھوں کو ُسنتا ہوں اور اپنے بُھولتا ہوں۔درد میں ڈوبے گیت احساس دلاتے ہیں کہ زندگی ابھی باقی ہے۔مجھ جیسے لوگوں کیلئے۔علی اسماعیل عباس جیسے بچوں کیلئے جس کا کوئی عزیز بھی نہیں بچا۔جس کے بازو بھی نہیں بچے جس کے ڈاکٹر بننے کے خواب بھی نہیں بچے۔
اِس نوحے کو ذرا سُنیے۔اس نے گاڑی کا ٹیپ آن کیا اور میں سُنتی تھی۔
The children of Iraq have names
They are not the nameless ones
The children of Iraq have faces
They are not the faceless ones
The children of Iraq do not wear Sadam’s face
They each have their own face
The children of Iraq have names
They are not all called Sadam Hussain
The children of Iraq have dreams
They are not the dreamless ones
The children of Iraq have hearts that pound
They are not meant to be statistics of war
They are quick and lively with their laughter
What do you call the children of Iraq
Call them Omar, Muhammad Fahad
Call them Tiba, Marwa.
میں دائیں بائیں دیکھتے دوکانوں کے سائن بورڈ پڑھتے کہیں سمجھ آنے،کہیں نہ آنے کی کیفیت میں ڈوبی اور عراقی بچوں کی ترجمان یہ انگریزی نظم سُنتے سنتے اس وقت چونکی جب گاڑی ایک اسپتال کے یارڈ میں داخل ہوئی۔
”سب سے پہلے یہاں بچوں کو دیکھئیے اُن سے ملیئے۔“
میرا تو وہ حال تھا کہ جسے کہیں سرمنڈواتے ہی اولے پڑیں۔یہاں تک پہنچنے میں تکالیف کا ہی کوئی انت نہ تھا۔مروان نے کمپیوٹر پر ایک سے بڑھ کر ایک المناک مناظر دکھا کر پتّہ پانی کردیا۔اوپر سے افلاق کی غم انگیز داستان، اس پر بھی بس نہ ہوا لا کر ایرموک اسپتال میں کھڑا کردیا۔
ایرموک اسپتال اور یہ منصور سٹی کا علاقہ ہے۔میں نے جانا تھا۔پاؤں من من بھر کے ہوگئے تھے اور دل جیسے وزنی پتھروں تلے آگیا تھا۔اسپتال کے شعبہ اطفال کے انچارج ڈاکٹر کے کمرے میں داخلہ ہوا۔چشمہ پہنے جس شخص سے تعارف ہوا وہ درمیانی عمرکا حواس باختہ ساتھا۔ڈاکٹر سعد معروف۔ڈاکٹر تو کہیں سے نہیں لگتا تھاتاہم پاکستان کاجان کر بہت خوش ہوا۔قہوہ پیتے ہوئے پتہ چلا کہ گلف وار کے بعد جنگ کے تین چارسال تک تنخواہوں کی کوئی باقاعدگی نہیں تھی۔
ایک اقتصادی پابندیوں سے زندگی اجیرن۔دوسرے دوائیں نہ ملنے سے مریضوں کی ابتر حالت اور اموات۔جی چاہتا تھا دنیا کو آگ لگادیں۔
وارڈوں میں ہمیں خود لے کر گیا۔کاش مجھے تھوڑا ساپتہ چل جاتا تو ان معصوم بچوں کیلئے ٹافیاں ہی خرید لاتی۔
اچھے بھلے پرسکون اور خوشحال ملکوں میں بیمار بچوں کو دیکھنا تکلیف دہ امرہوتا ہے کہ اسپتال اور مریض دونوں خوفناک۔ تو اب ایسے ملک کی بات ہی کیا جو جنگوں اور پیہم جنگوں میں ہی اُلجھا رہا ہو۔جس کا بیج مارنے کی ہر کوشش ہوتی رہی ہو۔
جنرل وارڈ میں کیسے کیسے بچے تھے۔پانچ سال پہلے جنگ کے شعلوں میں جھلستے بچوں اور عورتوں سے وارڈ بھرے تھے اور اب خود کش دھماکوں میں مرتے اور جلتے بچے، عورتیں اور مرد بستروں پر پڑے تھے۔تیکھے نقوش اور سرسوں جیسی رنگتوں والے malnutritionکی مختلف اقسام کے مریض تھے۔ڈاکٹر سعدی خوفناک حقیقتوں سے پردہ اٹھاتے تھے۔بلیک مارکیٹ میں بیکار ہونے والی دواؤں کی تفصیلات جنہیں والدین بیچارے خرید کر لاتے اور بچوں پر اُن کے منفی اثرات پڑتے۔ایک افراتفری اور ماردھاڑ ہوئی پڑی تھی۔اِن بستروں پر بچے نہیں تھے جیسے لاشیں تھیں۔کہیں ٹوٹی ٹانگوں،ٹوٹے بازوؤں،جلے چہرے،بارود سے جھلسے وجودلیکموئیاLeukemia،Lymphatic cancer،جگر اور جانے کن کن بیماریوں میں مبتلا تھے۔بچوں سے بات کرنا چاہی تو زبان درمیان میں تھی۔
دل چاہتا تھایہیں بیٹھوں اور پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔پہلے امریکی جارحیت کا سامنا تھا۔اب دھماکوں اور خودکش حملوں نے قیامت برپا کررکھی تھی۔
جب وہ خواتین کے وارڈ کی طرف جانے لگے۔میں رُک گئی۔میں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے شکستہ سی آواز میں کہا تھا۔
”ڈاکٹر صاحب میں ایک جہنم سے نکل کر دوسرے جہنم میں داخل ہوگئی ہوں۔یہ سب منظر میر ے ملک کے بھی ہیں۔میں بہت ڈپرس ہورہی ہوں۔اور وہ حساس منفرد طرز کا شاعر منصور آفاق یاد آیا تھا۔اُسکا نوحہ یاد آیا تھا۔لب دھیرے دھیرے گنگنانے لگے تھے۔
میرے ہارے ہوئے مظلوم دل کو مرثیہ خوانی کی ہمت دے
ہمارے عہد کے اِس کربلا پر تیری امت کی یہ مجبوری بھی کیسی ہے
کہ ہم مرتے ہوؤں پر بین کرنے سے گریزاں ہیں۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply