شاہی اور آنڈو بکرا۔ داستان عشق قسط 2

ہم نے مارکیٹنگ کے سبجیکٹ میں پڑھا تھا کہ صارف کی کئی قسمیں ہیں ۔ کچھ پرائز کونشس ہوتے ہیں تو کوئی کوالٹی کونشس۔۔ ہمارا شاہی کوانٹٹی کونشس واقع ہوا ہے۔ یعنی جتنے پیسے جیب میں ہوں ا ن میں سب سےزیادہ تعداد۔۔ اب معیار کچھ بھی ہو چلے گا۔اس کے علاوہ میں بتا چکا ہوں کہ  بکروں میں خصی اور آنڈو بکروں کا تناسب 100:1 ہے۔ تو شاہی جس دن بکرا لینے پہنچا اس دن منڈی کے کل دو ہزار بکروں میں کل بیس کے قریب آنڈو بکرے تھے اور ان میں سب سے بڑا اور سب سے بدبودار آنڈو شاہی کو پسند آیا۔ ایک اور بات یہ کہ  شاہی دائمی نزلے  کا شکار ہے اور کسی بھی بو کو محسوس کرنے سے معذور ہے ورنہ تاریخ گواہ ہے کے آسمان دنیا نے اتنا بدبو دار آنڈو بکرا کبھی نہ دیکھا تھا۔ دوسری جانب بکرے کے مالک کو بھی اس کے بکنے کی کو ئی  امید نہ تھی۔۔ تو اس نے  اسی واحد خریدار کو غنیمت جان کر بیس ہزار میں ایک من کا بکرا بیچ کر اس مصیبت سے جان چھڑا لی۔

جس وقت شاہی بکرا لے کر گھر پہنچا اس وقت ہمیں قربانی کا اصل مفہوم سمجھ میں آیا۔ ایک دروازے سے شاہی بکرے کی رسی پکڑ کر گھر میں داخل ہوا تو دوسرے دروازے سے اس کے اہل و عیال ایک ہاتھ میں اٹیچی تھامے اور دوسرے ہاتھ سے ناک کے جلے ہوئے بال جھاڑتے ہوئے ٹنڈو الہ یار کی ٹیکسی میں بیٹھ چکے تھے کہ  اب عید کے بعد ملاقات ہوگی لیکن آفرین ہے شاہی کے جذبہ قربانی پر کہ  اس نے بکرے پر کمپرومائز کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ مختصر یہ کہ  اب اس شاہی کے وسیع و عریض 80 گز کے مکان میں صرف دو ہی افراد بچے تھے۔ ایک شاہی اور دوسرا وہ آنڈو بکرا ۔

گو عید میں محض پانچ دن ہی بچے تھے لیکن مختصر مدت میں شاہی اور وہ بکرا یک جان د وقالب کے مصداق شیر و شکر ہو گئے تھے۔ وہ بکرا گلی کی کیاری کے پودے کترنے اور گاڑیوں پر اپنی ٹکر سے ڈینٹ  ڈالنے  کے علاوہ کافی لوز کریکٹر بھی واقع ہوا تھا اور سونے پر سہاگہ یہ کہ کافی لبرل اور آزاد خیال بھی تھا۔ عورتوں اور مردوں کی برابری کا علمبردار تھا اور کامل ایمان رکھتا تھا کہ  جو کام مؤنث جنس کر سکتی ہے وہ مذکر بھی کر سکتے ہیں ۔ اسی لیے گلی کے باقی بکرے پہلے دروازوں کی اوٹ سے جھانک کر دیکھ لیتے تھے کہ  وہ موجود تو نہیں اور تسلی کے بعد گھر سے باہر نکلتے تھے۔

اس بکرے کے محلے میں آنے کے بعد پہلی رات تمام اہل محلہ پر بہت بھاری تھی ۔ رات بارہ بجتے ہی تمام علاقہ “بو بو” کی دلخراش چیخوں سے گونج اٹھا ۔ یہ سلسلہ صبح صادق تک جاری رہا ۔ لیکن اگلے دن سے یہ سلسلہ کچھ تھم سا گیا جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آگیا ہو۔ صبح جب شاہی سے وجہ دریافت کی تو بولا ” وہ بکرا اکیلا پن محسوس کرتا ہے تو چیختا ہے ۔ جیسے ہی میں سامنے آجاتا ہوں خاموش ہو جاتا ہے بلکہ مسکرا کر میری طرف دیکھتا رہتا ہے۔”” اس کمینے نے مسکرانے کے علاوہ اور تو کچھ نہیں کیا” میں نے شاہی کے جسم کے مختلف حصے ٹٹولتے ہوئے پوچھا۔


“ارے نہیں یار وہ تو نہایت ملنسار اور معصوم جانور ہے ۔ تم خوامخواہ بیچارے پر شک کر رہے ہو” شاہی نے طرفداری کی۔
“چلو بس یہ یاد رکھو کہ  شب کے اوقات میں تم اس سے کم از کم 10 فٹ کی حد فاضل بر قرار رکھو گے” یہ کہہ  کر میں نے تو اپنا فرض پورا کر دیا۔اب بات صرف قاتل مسکراہٹ تک ہی رہی یا اس سے آگے بھی بڑھی اس بارے میں راوی انگلی ہونٹوں پر رکھے کھڑا ہے لیکن اس کے مکروہ چہرے پر صاف لکھا ہے کہ  وہ جانتا بہت کچھ ہے  اور  بتا نہیں رہا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply