• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • اے غریب الدیار، ابن سبیل کون ہے تو؟(مکالماتی تمثیلچہ)۔۔۔۔صائمہ نسیم بانو

اے غریب الدیار، ابن سبیل کون ہے تو؟(مکالماتی تمثیلچہ)۔۔۔۔صائمہ نسیم بانو

اے غریب الدیار، ابن سبیل کون ہے تو؟

اے میرے ہم جلیس، رفیقِ کنج تنہائی!
میں ایک راہرو ہوں، حالتِ مسافرت میں ہوں اور راہ بھول بیٹھا ہوں.

تیری پوشاک پر یہ دھبے کیسے ہیں؟

راہ بھول بیٹھا تھا، راستی سے منحرف ہوا
تو گمراہی نے مجھے الائش اور کثافت سے نوازا

یہ گریہ و زاری، یہ تیرے نوحے، اب کیا چاہتا ہے تو؟

میں اپنی لطافت کو کھو بیٹھا ہوں.
میری شریکِ سفر پاکدامن اور پردہ نشیں ہے
وہ سلیم الطبع میرے ساتھ سفر کرنے کو اس وقت تک آمادہ نہ ہو گی کہ جب تک میں اپنی لطافت کو دوبارہ نہ پا لوں.

کیا تو جانتا ہے کہ لطافت کا حصول کیسے اور کیونکر ہو گا؟

ہاں مجھے خود سے چمٹی ہوئی کثافت کو استغفار کے آبِ طہور سے دھونا ہوگا, ذکر کا عطر، بندگی کا لباس اور حیا کی نماز ادا کرنا ہوگی۔۔۔۔۔

تو ہوشمند ہے آگاہ ہے، جا اور اپنا فریضہ ادا کر۔۔۔۔

میں تجھ سے دست گیری کا سوال کرتا ہوں،
تیری رسد ہی میری نصرت کا پیام ہے

ارے کم بخت تو مجھ سے کیا چاہتا ہے۔
میری اعانت تیرے کسی کام نہ آئے گی، میں تو اپنے ہی نفس کے ہاتھوں لٹا بیٹھا ہوں، ہائے! مار گیا مجھے میرا نفسِ امارہ۔۔۔۔۔
ہائے!! کیا مجھ سا قلاش اور محتاج بھی کوئی اس روئے زمین پر ہو گا!

نہیں, نہیں! ایسا نہ کہہ-
تیری یہ تڑپ ہی تیری ندامت پر گواہ ہے, تیرا نفس ملامت پر راضی اور تیرے سامنے اطمینان کی منزل ہے۔
مجھ غریب کو دیکھ ایک طرف میری رفیق حیات میری روح, میری کثافت پر تڑپ اور سسک رہی ہے اور دوجی طرف تو ہے. جو میرا رفیقِ سفر اور میرا قالب ہے لیکن مجھے بھول بیٹھا ہے، تیرے نفس نے تیری آنکھوں میں جو دھول جھونکی تھی وہ تجھے ایسا نابینا کر گئی ہے کہ تجھے میری ہی پہچان نہ رہی۔
اے حبیب من! اپنے پوروں سے مجھے چھو کر دیکھ, یہ میں ہوں تیرا اپنا ہی قلب کہ جسے اس کی سختی اور ٹیڑھ نے اسے اس کے اپنوں سے جدا کر ڈالا۔۔۔۔

قلب؟ تم میرے قلب ہو، کیا تم میرے قلب ہو؟
اے یار من! تو مجھے چھوڑ کر کہاں چلا گیا تھا؟
دیکھ, دیکھ! تیرے پیچھے میرے نفس نے مجھے کیسا رسوا کیا, ہائے میں تو برباد ہو گیا۔۔۔

اے میرے محبوب، میرے قالب! مجھے زنگ لگ گیا تھا،
اس ظالم نے میرے جوہر کو کاٹ ڈالا، مجھے حق سے متنفر کیا.اور متشابہات میں مبتلا کیا۔۔۔۔۔میں پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو گیا کہ میرا رب کہتا ہے ان پتھروں میں کئی ایسے رقیق ہیں کہ جن میں سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں لیکن میری ٹیڑھ نےتو مجھے اندھا کر دیا اور بنجر بھی
میری شریک حیات, میری روح تڑپ اٹھی- لیکن میں نے اس سے بھی منہ موڑ لیا, مجھ پر مہر لگ چکی تھی، میں اندھا دھند شر کی طرف بھاگنے لگا اور میری روح خیر کو پکارتی, تڑپتی, سسکتی میرے ساتھ بے سکونی کے صحرا میں خاک چاٹتی رہی۔۔۔
میرے تکبر نے مجھے ایسا جھوٹا تفاخر عطا کیا کہ میں نے اپنی روح کی اپنی پاک روح کی ہر پکار کو بے رحمی سے کچل دیا۔۔۔۔۔ ہائے یہ میں نے کیا کیا!
اب میری روح مجھ سے کٹ چکی ہے، وہ میری کثافت پر مجھ سے منہ موڑ بیٹھی ہے, وہ حالتِ غم ناک پر نوحہ کناں ہے اور میں خفت کے مارے دلگیر اور نادم

اے محرمِ ہستی اے قلبِ عزیز!
اپنی جان پر ایسا ظلم نہ کر آ میرے سینے میں سما جا
کہ یہی تیرا درست مسکن ہے، میں تجھے تیرے سبھی غموں سے چھپا لوں گا کہ میں تیرا اپنا ہی قالب ہوں- ہم مل کر اپنے نفس کو راضیة مرضیة کا حسین تاج پہنائیں گے.
مت رو, اے میرے قلب! اے میرے محبوب! مت رو

اے قالبِ من, میرے محترم امین!
روح کا کیا ہوگا؟ وہ, وہ تو بری طرح پامال ہوئی ہے-
وہ تیری پناہوں میں مضروب اور مجروع حالت میں پڑی ہے اور میری طرف نگاہ بھی نہیں کرتی, وہ تیری خلوت میں ہی مجھ سے منہ موڑے بیٹھی ہے۔۔۔

مان جائے گی، بس یہ مسافرت لمبی اور صبر آزما ہو گی
تجھے زنگ، آلودگی، ٹیڑھ، پتھریلے پن, تفکر سے دوری کی عادت، حدود پھلانگ جانے والی مُہروں، جرم پر مائل سرشت، اندھے پن، بے ایمانی اور تکبر سے بچ بچ کر چلنا ہوگا۔۔۔۔۔اور میں نفسِ امارہ سے چوکنا رہوں گا. ہم مل کر نفسِ لوامہ کو حیات مند اعمال کی مدد سے اپنی خلوت اور جلوت کا امین بنائیں گے۔۔۔۔ تم دیکھنا ہماری منزل دور نہیں ہم جلد ہی راضیة مرضیة کے عرش کو چھو لیں گے اور ہماری یہ روح لطافت کے نور میں نہا جائے گی۔۔

لیکن ہم اس راہ پر بنا راہبر کے کیسے چلیں گے، مجھے ڈر ہے کہیں ہم پھر سے نہ بھٹک جائیں۔۔۔

اے جان من قلبِ محترم! اس بار ہم نہ بھٹکیں گیں وہ دیکھیے آپ کے رب نے اپنے صحیفے میں ہمارے لیے جا بہ جا سنگِ میل بنا رکھے ہیں ہم تسلیم کے چراغ کی حیا پرور روشنی میں آگہی, ایمان, دانش, خشیت اور درد مندی کی چوکھٹوں پر جبیں ٹیکتے ٹیکتے ایک قلبِ سلیم تک پہنچیں گے کہ رستہ روح پرور اور سہانا ہے اور فنا سے بقا کا سفر ہے کہ میرا ربِ لطیف کہتا ہے

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَo اِلَّا مَنْ اَتَی ﷲَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍo

’’جس دن نہ کوئی مال نفع دے گااور نہ اولاد۔ مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوا۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

الشعراء، 26: 88-89)

Facebook Comments

صائمہ بخاری بانو
صائمہ بانو انسان دوستی پہ یقین رکھتی ہیں اور ادب کو انسان دوستی کے پرچار کا ذریعہ مان کر قلم چلاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply