مارگلہ!جب تیندوا سامنے آگیا۔۔آصف محمود

“دوپہر کا وقت تھا۔ مارگلہ میں درہ کوانی کی آخری ندی سے پہلے پگڈنڈی پر مڑا تو اچانک سامنے نگاہ اٹھی۔ میرے سامنے تیندوابیٹھا تھا۔ بے خیالی میں چلتے چلتے میں اس کے اتنا قریب آگیا تھا کہ ہمارے درمیان اب صرف پندرہ سے بیس فٹ کا فاصلہ رہ گیا تھا۔ یہ 22مارچ کا واقعہ ہے۔ ان دنوں مارگلہ کے ٹریل بند کر دیے گئے تھے۔ اور درہ کوانی میں تو تیندووں کی آمد و رفت کی وجہ سے پہلے ہی لوگوں کا داخلہ منع ہے۔ پورے جنگل میں ان دنوں سکوت اور سکون تھا۔ جانوروں کا جنگل ان کی ملکیت تھا اور اس ملکیت میں ان دنوں کسی کا تصرف نہیں تھا۔

چند دن جانوروں کو ان کا جنگل اپنے قدرتی ماحول میں ملا تو ووہ بے باک ہو گئے۔ درہ کوانی میں نیچے وائلڈ لائف انفارمیشن سنٹر کے سامنے وائلڈ لائف پوسٹ کے ساتھ ندی کنارے ہرن مٹر گشت کرتے پائے گئے اور ڈھوک جیون سے جبی جانے والے ٹریل کی دہلیز تک لومڑیاں چہل قدمی کرتی پائی گئیں۔

صبح نو بجے کا وقت تھا جب ہم درہ کوانی کے راستے مارگلہ کے جنگل میں داخل ہوئے۔ زرعی یونیورسٹی کے پانچ طلباء بھی آئے ہوئے تھے اور وائلڈ لائف رینجر ظہیر احمد صاحب بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم ندی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے چھانٹا دی گلی سے گزر کر ساڑھے بارہ کے قریب جبی پہنچ گئے۔ اسی پگڈنڈی کے پہلو سے آگے جا کر وہ راستہ نکلتا ہے، جو مس مصرو نام کی اس خاتون کی کٹیا کی طرف جاتا ہے، جس نے ساری عمر مارگلہ کے جنگل میں جھونپڑی میں زندگی گزار دی۔

جبی سے واپسی پر راستے میں چشمہ پڑتا ہے، سدا بہار میٹھے پانی کا یہ جھرنا اس جنگل میں بکھری نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ کچھ دیر ہم یہاں بیٹھے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ تیندوے یہیں کہیں آس پاس ہی ہیں اور بھلے ہم انہیں نہ دیکھ پا رہے ہوں و ہ یقینا ہمیں آتے جاتے دیکھ رہے ہوں گے اور ہماری ا س جسارت کو ہمیشہ کی طرح نظر انداز کر رہے ہوں گے۔

یہ راستہ ٹریل فائیو کی طرح آسان نہیں ہے۔ لیکن اس راستے میں آٹھ تیندوے بھی دیکھے جا چکے ہیں جن کے تصور سے ہی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔ اس چشمے سے کافی نیچے وادی میں ایک اور چشمہ ہے جس کے کنارے پر کھجوروں کے درخت لگے ہوئے ہیں۔ اس چشمے کا پھیلائو ایسا ہے کہ مارگلہ کے سارے دروں کا سب سے حسین چشمہ ہے۔ درہ کوانی کے تیندوے بھی غورالوں کی طرح پیاس بجھانے یہیں آتے ہیں کیونکہ چشمے کے ساتھ ہی اس کا پاٹ ایسا چوڑا ہو جاتا ہے گویا ایک ندی رواں ہو۔

اس چشمے سے آگے درہ کوانی کا داخلی دروازہ قریب ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے ہے۔ ہم صبح نو بجے کے نکلے ہوئے تھے اور اب پونے دو ہو چکے تھے۔ طلباء کا تھکاوٹ سے برا حال تھا۔ وادی کی وسعتوں میں کھجوروں میں گھرے اس چشمے کے پاس وہ سب سستانے بیٹھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ یہاں آرام کرو، میں جا رہا ہوں۔ آپ تھکاوٹ اتار کر آ جانا۔ ہمارے وائلڈ لائف کے ظہیر احمد صاحب بھی ان کے ساتھ ہی تھے۔

اب میں اکیلا تھا اور میں واپس آ رہا تھا۔ میں اس علاقے میں خاصا محتاط رہتا ہوں۔ میرے ہاتھ میں سٹک بھی تھی کیونکہ یہاں میں پانچ سات دفعہ سانپ دیکھ چکا ہوں۔ ایک دو دفعہ تو میرے پائوں کے نیچے بھی آ چکے تھے۔ میں نے میوزک بھی اونچی آواز میں لگا لیا اور چلتے ہوئے کچھ شور بھی کر رہا تھا تا کہ اس کی آواز سے اگر کوئی جانور آس پاس ہو تو بھاگ جائے۔ جنگل میں اگر آپ اکیلے ہوں تو آپ کے لیے یہ کافی خطرناک ہو سکتا ہے۔ اور اگر آپ گروپ کی شکل میں ہوں تو تیندواحملہ بھی کر دے تو جان کا خطرہ نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ زخمی کر سکتا ہے۔ کیونکہ وہ شرمیلا جانور ہے اور وہ خود بھی انسانوں سے دور ہی رہنا پسند کرتا ہے۔

چلتے چلتے جب میں ون پوائنٹ تھری کلو میٹر پوائنٹ تک پہنچا یعنی جہاں سے جنگل کا داخلی دروازہ اور وائلڈ لائف کیمپ آفس ایک اعشاریہ تین کلومیٹر دور رہ گیا تھا تو اچانک میری نگاہ سامنے پڑی اور میرے بدن میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ میرے سامنے پندرہ سے بیس فٹ کے فاصلے پر تیندوا بیٹھا تھا۔ دوپہر دو بجے کا وقت تھا اور وہ جنگل کی جھاڑیوں سے نکل کر کھلی جگہ پر بیٹھنے کے لیے پگڈندی کے اوپر آ کر بیٹھ گیا تھا۔ میں بے خیالی میں چلتے چلتے اس کے پاس ہی پہنچ چکا تھا۔ اتنا پاس کہ وہ ایک جست بھرتا اور مجھے دبوچ لیتا۔

وہ پتھر پر بیٹھ کر سر گھما کرمیری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ یعنی وہ مجھے اس راستے پر چل کر اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ لیکن اس نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ وہ بڑے سکون سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کے رویے میں کوئی جارحیت نہیں تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ پریشان بھی نہیں ہوا۔ ڈرا اور گھبرایا بھی نہیں۔ وہ آرام سے مجھے دیکھ رہا تھا اور میں نے بھی اس کو صحیح دیکھا۔ اس کے کلر مجھے یاد ہیں۔ اس کا منہ مجھے یاد ہے۔ اس کی آنکھوں کی بے نیازی مجھے یاد ہے۔ ایک لمحے کو مجھے یقین نہ آیا کہ میرے سامنے تیندوا بیٹھا ہوا ہے اور میں بے خیالی میں اس کے سر پر پہنچ چکا ہوں۔

ایک دو سیکنڈ کا وقفہ تھا۔ وہ مجھے دیکھ رہا تھا اور میں اس کو دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی میرے ذہن نے قبول کیا کہ یہ تیندوا ہے اور میں عملا اس کی گرفت میں ہوں، میرے منہ سے چیخ نکلی اور میں نے واپس جنگل کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہ پرسکون تھا لیکن میں خود کو پرسکون نہیں رکھ سکا۔ میرا جوتا وہیں رہ گیا اور میں ننگے پائوں ہی بھاگ پڑا۔ میں بھاگتا رہا اور شور مچاتا رہا تا کہ باقی لوگوں کو بھی پتا چل جائے۔ میں صرف جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔

جب میں بھاگتا ہوا واپس ظہیر احمد اور طلباء کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا طلباء جان بچانے کے لیے درخت پر چڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے شور مچانے سے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ جنگل میں کوئی مسئلہ ہو گیا ہے۔ جان بچانے کی کوشش کرنا ان کا حق تھا لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ مارگلہ کے درخت ایسے نہیں کہ ان پر چڑھ کر تیندوے سے محفوظ رہا جا سکے۔

پانچ منٹ ہم وہیں کھڑے رہے۔ پھر ہم مل کر آگے چل پڑے کیونکہ اس جنگل سے تو نکلنا ہی تھا۔ جب ہم وہاں سے گزرے تو اب تیندوا وہاں موجود نہیں تھا۔”

Advertisements
julia rana solicitors

درہ کوانی کے وائلڈ لائف دفتر میں وائلڈ لائف رینجر اسد حیات صاحب مجھے یہ واقعہ سنا رہے تھے۔ مجھے پہلی ہی یقین تھا کہ تیندوا نظر آیا تو اسد حیات یا ظہیر احمد میں سے کسی کو نظر آئے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اب میں اسد حیات صاحب کے پاس بیٹھا ان کی کہانی سن رہا تھا۔ چند قدموں کے فاصلے پر جنگل کا داخلی دروازہ مقفل ہو چکا تھا۔ تیندووں کی وجہ سے درہ کوانی میں داخلہ ممنوع ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply