• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جنوبی وزیرستان میں بلدیاتی الیکشن اور تحریک انصاف کی ممکنہ حکمت عملی۔۔۔     امجد خان

جنوبی وزیرستان میں بلدیاتی الیکشن اور تحریک انصاف کی ممکنہ حکمت عملی۔۔۔     امجد خان

جنوبی وزیرستان میں بلدیاتی الیکشن اور تحریک انصاف کی ممکنہ حکمت عملی۔۔۔     امجد خان/گزشتہ دنوں ٹوئیٹر پر افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی سے متعلق بہت سے صارفین نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اشرف غنی اچھے اخلاق و کردار کے انسان تھے مگر ان کو ٹیم اچھی نہیں ملی جس کی وجہ سے وہ افغانستان کو مستحکم نہیں کر سکے اور بالآخر افغانستان کو طالبان کے سپرد کر کے جلاوطنی قبول کی۔ مگر میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کسی لیڈر کو اس بات پر کلین چٹ نہیں دی جاسکتی کہ اسے ٹیم اچھی نہیں ملی ورنہ وہ بہت کچھ کر سکتا تھا کیونکہ اچھی ٹیم کی سلیکشن کرنا بھی لیڈر ہی کی ذمہ داری ہے اور ان سے بہتر انداز میں کام لینا بھی ایک بڑے لیڈر کی لیڈر شپ کا امتحان ہوتا ہے۔

کچھ ایسی ہی صورتحال حالیہ خیبر پختون خوا  کے بلدیاتی الیکشن میں دیکھنے کو ملی جہاں تحریک انصاف کے کئی منتخب نمائندے اپنے اپنے حلقوں میں اپنے بلدیاتی امیدواروں کی فتح یقینی نہ بنا سکے۔ مختلف میڈیا رپورٹس اور تجزیہ نگاروں کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے جب میں نے اپنے شہر ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا باریک بینی سے جائزہ لیا تو ایک چیز یہاں بھی بڑی واضح تھی کہ تحریک انصاف کے منتخب نمائندوں کی نچلی سطح کی ٹیم نے وہ کارکردگی نہیں دکھائی جس کی ان کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ عموماً منتخب نمائندے اپنے حلقہ میں اپنی ٹیم بناتے ہیں جن کے ذمہ مختلف محکموں میں عوام کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر افسوس یہ ورکرز اپنے لیڈر سے بھی بڑے لیڈر بن جاتے ہیں اور عوام اور منتخب نمائندوں کے درمیان پل کی بجائے دیوار کا کردار ادا کرنا شروع کردیتے ہیں اور منتخب نمائندوں کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ عوام سے دور ہوتے جا رہے ہیں کیوں کہ ان کو سب اچھا کی رپورٹ مل رہی ہوتی ہے۔ مگر یہی نمائندے جب دوبارہ عوام میں جاتے ہیں تو عوامی ردعمل ان کے چودہ طبق روشن کر دیتے ہیں۔ کوئی بھی منتخب نمائندہ یہ کبھی نہیں چاہتا کہ ان سے ان کے حلقہ کی عوام ناراض ہو مگر بیچ کی یہ دیوار نفرت کی دیوار ثابت ہوتی ہے کیوں کہ جب کبھی کوئی سائل یہ بیچ کی دیوار پھلانگ کر اپنے منتخب نمائندے تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان کا نمائندہ اس بھیانک تصویر سے یکسر مختلف ہوتا ہے جو اس کی ٹیم کے اکثر ممبران نے عوام کے سامنے پیش کی ہوتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے علی امین خان گنڈہ پور کو اپنی ٹیم پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کی ٹیم کے کون کون سے ممبران ان کے اور عوام کے درمیان پل کی بجائے دیوار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہی کچھ ہمارے فاٹا کے نمائندوں کے ساتھ بھی ہورہا ہے کہ ان کی ٹیم کے اکثر کھلاڑی خود کو منتخب نمائندوں سے بڑھ کر پیش کرتے ہیں اور عوام سے ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں کہ عوام اور ان کے منتخب نمائندے میں دوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اکثر اوقات یہ شکایت سننے کو ملتی ہے کہ ایم این اے اور ایم پی اے سے زیادہ ان کے کارندوں سے ملاقات مشکل ہوتی ہے۔ مگر اس ساری صورتحال میں منتخب نمائندوں کو بری الذمہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ بالآخر وہی عوام کو جواب دہ ہیں اور یہ انہی کا کام ہے کہ وہ خود کو عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ میں رکھے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کی ٹیم کے ممبرز دیوار کی بجائے پل کا کردار ادا کریں۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو خود سے براہ راست رسائی کے مواقع فراہم کرے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے حلقہ کے عوام کے ساتھ رابطے میں رہیں اور ان کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوں۔

اس سارے تناظر میں اگر ہم فاٹا سے تعلق رکھنے والے سینٹر دوست محمد خان محسود کی حکمت عملی کو دیکھیں تو وہ یکسر مختلف ہے۔ سینٹر دوست محمد خان کی شخصیت اس حوالے سے ایک الگ مقام رکھتی ہے کہ وہ خود کو عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ میں رکھتے ہیں اور عوام کو ان تک رسائی میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے خود کو فیس بک، ٹوئیٹر اور واٹس ایپ کے ذریعے اپنے حلقہ کی عوام سے ہر وقت جوڑے رہنے کا بہترین طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آپ ان کو اپنے مسائل سے آگاہ کرسکتے ہیں اور وہ حتی الوسع مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ شروع میں ہمارے چند دوستوں نے روایتی سیاستدان کی طرح سینٹر صاحب سے ان کے رفقاء کے ذریعے ملاقات کی کوشش کی تو یہ کوشش بار آور ثابت نہ ہوئی تو کچھ ہم خیال دوستوں کے مشورہ سے سینٹر دوست محمد خان سے براہ راست واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کیا تو نہ صرف انہوں نے ملاقات کا وقت دیا اور آئندہ کے لیے ان سے ملاقات اور مسائل کے حل کی خاطر براہ راست رابطہ کی تلقین کر کے یہ ثابت کر دیا کہ  وہ خود کے اور عوام کے درمیان دیوار حائل کرنے کے عادی نہیں ہیں ان کا نظریہ ہے کہ وہ عوامی نمائندے ہیں اور عوام کو ان سے براہ راست رابطہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ خود کو عمران خان کا قریبی دوست ہونے کے باوجود کارکن سمجھتے ہیں اور اپنے لیڈر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے علاقے جنوبی وزیرستان کو تعلیم ،صحت اور بہترین انفراسٹرکچر جیسے بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ وہ نئے پاکستان کے فلسفے کی بنیاد پر نیا جنوبی وزیرستان بنانا چاہتے ہیں جہاں ہر شخص کو زندگی کی بہترین سہولیات سمیت امن اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ سینٹ میں فاٹا اور خصوصا ً جنوبی وزیرستان میں لینڈ مائینز اور دہشت گردی کے واقعات کے خلاف جو آوازیں بلند ہوتی ہیں ان میں سب سے توانا، پُرجوش اور جاندار آواز سینٹر دوست محمد خان محسود ہی کی ہوتی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ میرے علاقے کی ہر بچی زیور تعلیم سے آراستہ ہو۔ یہاں کا ہر نوجوان برسر روزگار ہو۔ یہاں کے کھیت کھلیان سرسبز و شاداب اور تعلیمی ادارے آباد ہوں۔ یہاں کے ہسپتالوں میں صحت کے بہترین سہولیات عوام کو مفت میسر ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں کی خواتین کو ان کے گھروں میں صاف پانی فراہم کیا جائے تاکہ وہ میٹھے پانی کے چشموں سے پانی بھرنے کی تکلیف سے نجات حاصل کر سکیں۔ قدرتی گیس کی فراہمی سے جہاں خواتین کو پہاڑوں کی خاک چھانتے، لکڑیاں لانے کی اذیت سے چھٹکارا نصیب ہو گا وہاں جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کو بھی یقینی بنا کر موسمی تبدیلیوں اور آفات سے بچا جا سکتا ہے۔ جدید اور تیز ترین انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن کی فراہمی سے یہاں کے لوگوں خصوصاً  نوجوانوں کو جہاں باقی دنیا سے رابطوں میں آسانی ہوگی وہاں سیاحت کے فروغ میں بھی یہ بہترین کردار ادا کرے گا۔ یہ اور اس جیسے اور بہت سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے کوشاں سینیٹر دوست محمد خان محسود کی ایک ہی آرزو ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا دیکھے اور اس کے علاقے کی عوام کو بھی وہ حقوق اور سہولیات میسر ہوں جن سے پشاور، اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینیٹر دوست محمد خان عوام خصوصا ً نوجوانوں کے ساتھ خود کو براہ راست رابطہ میں رکھ کر اپنے علاقے کی تقدیر بدلنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو اپنا بازو سمجھتے ہیں اور اپنے قائد عمران خان کے اس نظریے کے قائل ہیں کہ پاکستان کا درخشندہ مستقبل نوجوانوں کی بدولت ہی ممکن ہے۔

Facebook Comments

امجد جہانگیر
میرا تعلق درس و تدریس سے ہے۔ شوق مطالعہ نے تحریر کی راہ دیکھائی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply