رسائی سے نارسائی تک/ڈاکٹر اظہر وحید

اگلے دن صبح ہم چار ساتھی جامع مسجد  دہلی کے لیے نکل رہے تھے۔ ہوٹل کی لابی میں چار معزز افراد سکیورٹی والوں کو انٹرویو دے رہے تھے کہ کہاں تک جا رہے ہیں اور کب تک واپسی ہو گی۔ اعتراض یہ وارد ہو رہا تھا کہ آپ لوگ کم از کم بارہ چودہ افراد کا گروپ بنا کر باہر نکلیں۔ انہوں نے ہماری طرف دیکھا اور ہم نے اُن کی طرف، اور یوں آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ طے پایا کہ ہم ٹوٹل آٹھ افراد باہر نکل رہے ہیں۔ ہم نے سکیورٹی والوں کو بتایا کہ پہلے جامع مسجد جائیں گے، وہاں ناشتہ کریں گے اور پھر درگاہ کی راہ لیں گے۔ سکیورٹی افسر کہنے لگا ”یہ غلط بات ہے کہ آپ جامع مسجد ہی سے آگے نکل جائیں، آپ واپس پہلے ہوٹل آئیں گے، اور پھر درگاہ جانے کے لیے دوبارہ اجازت لیں گے“۔ یاد رہے کہ ابھی ہمارا وفد پولیس تھانے میں رپورٹ کرنے سے مستثنیٰ تھا، اگر وہ شق بھی شامل ہوتی تو ہم دن میں دو بار مجرموں کی طرح تھانے میں بھی حاضری لگواتے۔ خیر مجرم تو ہم ہیں ہی …… ہم محبت کرنے کا جرم کر بیٹھے ہیں …… اور مدت ہوئی اقبالِ جرم بھی کر بیٹھے ہیں …… بے شک مجرم اپنے چہروں سے پہچان لیے جاتے ہیں۔
بدنظمی اور ہڑبونگ ہر جگہ نظر آئی۔ اس میں ہماری نمائندگی کرنے والوں کا دوش بھی دکھائی دیتا ہے۔ اپنا گروپ نظم اور ترتیب کا مظاہرہ کرے تو غیروں کو بے جا مداخلت کرنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں ”دوستوں کی لاپروائی دشمن کی اصل قوت ہے“ ایسی ہی کوتاہی اور بدنظمی عمرے کے سفر کے دوران میں بھی نظر آتی ہے۔ کسی مناسب تربیت کے بغیر لوگوں کو دیارِ غیر میں بھیجنے کا چلن صرف ہمارے ہاں ہی پایا جاتا ہے۔ وگرنہ دنیا بھر کے زائرین اپنے ہاں سے مناسب تربیت لے کر آتے ہیں اور وطن سے باہر ایک نظم اور ترتیب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اپنے لیے بھی عزت کماتے ہیں اور اپنے وطن کے لیے بھی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں۔
وفد کی جانب سے اجتماعی حاضری کے لیے ہفتے کی صبح تین بسوں کا بندو بست کیا گیا۔ یہاں پھر بسوں میں بار بار گنتی کرنے کے بعد بٹھایا گیا۔ درگاہ پر حکومتِ پاکستان کی طرف سے پاکستان کے ہائی کمشنر اس وفد کی سربراہی کر رہے تھے۔ باؤلی والے دروازے سے ہم لوگ ہاتھوں میں چادر بلند کرتے ہوئے، کلمہ طیبہ اور درود شریف کا وِرد کرتے ہوئے جب احاطے میں داخل ہوئے تو عجب منظر تھا، ایک عجب وارفتگی والی کیفیت تھی۔ روح میں عجب سرشاری کی لہر دوڑ رہی تھی۔ پاکستان کی طرف سے نمائندگی کرنے کا احساس بھی دل میں نمایاں تھا۔ دیوان سیّد طاہر نظامی صاحب نے دعا کرائی۔ ازاں بعد ہم نے اپنی چادریں پیش کیں، ایک چادر حضور فیضِ عالم داتا علی ہجویریؒ کے دربار سے عطا ہوئی تھی اور ایک مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کے دربار سے پیش ہوئی۔ حاضری کے بعد دیوان صاحب نے اپنے حجرے میں سب اَراکین کو لذیذ بریانی کی شکل میں لنگر پیش کیا۔ واپسی پر زائرین اپنے طور پر جب اس جگہ پہنچے جہاں انہیں بس سے اتارا گیا تھا تو وہاں بسیں ندارد! ڈرائیوروں نے اپنی سہولت کے لیے گھوم کر بسوں کا رخ دوسری جانب کر دیا تھا۔ کچھ لوگوں نے سمجھا، شائد بسیں جا چکی ہیں۔ وہ اپنے طور پر رکشہ ٹیکسی لے کر واپس ہوٹل چلے گئے۔ کچھ لوگ
تبلیغی جماعت سے نسبت رکھتے تھے، وہ قریبی تبلیغی مرکز میں ظہر کی نماز ادا کرنے چلے گئے۔ وہاں نماز کچھ دیر کے بعد اَدا ہوتی ہے۔ یہاں تبلیغی مرکز بھی درگاہ کے پہلو میں ہے۔ درگاہ میں آنے والے زائرین ہوں یا تبلیغی مرکز میں جانے والے مبلغین، سب کام تو نظامؒ ہی کا کر رہے ہیں۔ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ ساری عمر خدمت اور عبادت ہی کی تبلیغ کرتے رہے ہیں۔ القصہ! ہمارے گروپ لیڈر نے جب زائرین سے یہ کہا کہ جن لوگوں نے ہوٹل میں جانا ہے، وہ ایک بس میں سوار ہو جائیں اور جنہوں نے جامع مسجد اور قطب مینار کی سیر کے لیے جانا ہے، وہ باقی دو بسوں میں سوار ہو جائیں، ہم نے ان بسوں کو سارے دن کے لیے کرائے پر لیا ہے۔ اس بات پر سکیورٹی والے ایک بار پھر اَڑ گئے کہ سب لوگ پہلے ہوٹل واپس جائیں گے اور پھر وہاں سے جامع مسجد اور قطب مینار کے لیے نکلیں گے۔ اب عجیب تماشا لگ گیا، گنتی کیسے پوری ہو، کچھ لوگ پہلے ہی سے ہوٹل جا چکے تھے، اور کچھ شاپنگ وغیرہ کے لیے نکل چکے تھے۔ ہمارے گروپ لیڈر بے چارے پریشان، زائرین الگ پریشان، سب لوگ دھوپ میں کھڑی بسوں میں تین گھنٹے تک بیٹھے رہے۔ کچھ لوگ بار بار واپس جاتے اور عرس کے ہجوم میں اپنے ساتھیوں کو تلاش کرتے۔ تین گھنٹے کے اعصاب شکن انتظار کے بعد جب سکیورٹی اہلکاروں نے دیکھ لیا کہ اب یہ لوگ خوب پریشان ہو گئے ہیں تو گروپ لیڈر کی ضمانت پر بسوں کو روانہ ہونے کی اجازت دے دی۔ ہوٹل پہنچنے کے بعد ہر شخص اپنی مرضی سے شاپنگ اور کھانے وغیرہ کے لیے الگ الگ نکل گیا، سکیورٹی والوں نے کوئی تعرض نہ کیا۔ آج کے دن کے لیے گویا زائرین کو زچ کرنے کا کوٹا پورا ہو چکا تھا۔
سات روزہ پروگرام میں عرس کے چار دن درمیان میں آنے چاہئیں تھے۔ سات میں سے دو دن سفر کی نذر ہو گئے، اور باقی ماندہ پانچ دنوں میں صرف آخری ڈیڑھ دن عرس کے لیے بچایا جا سکا۔ چنانچہ اختتامی دعا میں پاکستان سے کوئی زائر شریک نہ ہو سکا۔ وفد نے صرف عرس کے پہلے دن یعنی ہفتے کے دن اجتماعی حاضری دی اور اتوار کی شام کو واپسی طے تھی۔ گروپ لیڈر کی طرف سے اگلے دن دوپہر ایک بجے تک سامان کی پیکنگ کے بارے میں ہدایات موصول ہو چکی تھیں۔ روانگی کے دن ہم چاروں ساتھی الوداعی سلام کے لیے دوبارہ دربارِ عالیہ حاضر ہوئے۔ واپسی پر اسی طرح ایک بار پھر قطب الاقطاب حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزارِ اقدس پر حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہاں کی قدیم مسجد میں ظہر کی نماز اَدا کی۔ مزار کے احاطے کی طرف جاتے ہوئے حضرت فخر الدین چشتیؒ کی تربتِ اقدس ہے۔ اس سے کچھ آگے حضرت حمیدالدین ناگوریؒ کا مزار ہے، یہ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کے استاد تھے۔ یاد ر ہے کہ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ خواجہ خواجگان حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ کے مرید اور خلیفہ ہیں اور بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے مرشد ہیں۔ حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے خلیفہ ہیں۔ گویا حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ محبوبِ الٰہیؒ کے دادا پیر ہیں۔ ہمارے ممدوح و مذکور کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے دادا پیر کو ظاہری حیات اور سَر کی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے۔ وگرنہ کلیہ یہی ہے کہ پوتا اپنے دادا کو سِرّ کی آنکھوں سے ”دیکھتا“ ہے۔
کلیر شریف والے حضرت خواجہ علاؤالدین صابرؒ محبوب ِ الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے پیر بھائی ہیں۔ ایک کو جلال سے نسبت ہے اور دوسرے کو جمال سے …… جمال اور پھر اتنا جمال کہ محبوبِ الٰہی کہلائے۔ صبح و مسا اپنی پریم بھٹی سے مدوے پلا رہے ہیں۔ جہاں جمال ہو گا، وہاں مستی بھی ہو گی…… یہاں کی ہوا میں بھی مستی ہے۔ زائر اپنا دل اور نظر گویا یہیں بھول جاتا ہے۔ آنکھ بند کرتا ہے تو خود کو وہیں پاتا ہے۔ زائر دیکھتا ہے اور بس …… دیکھتا ہی رہ جاتا ہے …… کیا بے بسی ہے …… وہ ایک طرف میکدے میں نظامؒ کو مدوا لنڈھاتے ہوئے دیکھتا ہے …… اور دوسری طرف اپنی کوتاہیِ فکر و نظر اور ظرف بھی دیکھتا ہے …… وہ دیکھتا ہے کہ اِس کی قسمت میں صرف ذکر کا ذکر ہے …… مذکور کی خوشبودار ذات تک رسائی کی راہ میں ایک ناقابلِ عبور نارسائی حائل ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ خوشبو کا ذکر اور چیز ہے اور خوشبو اور چیز! جنس ہی جنس کے ہمراہ چل سکتی ہے، ناجنس کب تک سنگت کرے گا؟ دنیائے حقیقت میں کلیے اور مثال کی صورت میں خبر تو یہی ہے …… کبوتر با کبوتر …… باز با باز!! پھر یہ خیال بھی عود کر آتا ہے، میاں! جس دَر پر کھڑے ہو، یہ سیّد محمد کا درَ ہے …… اِن کے دادا محمد مصطفیؐ ہیں اور نانا علی المرتضیٰؓ یہ دَرِ سخاوت ہے …… یہاں کبوتر کو باز بنا دینے کی روایت بھی موجود ہے۔ کُن سے ورا کارفرمائیاں کسی کلیے کی محتاج تھوڑی ہیں؟ تاریخ میں اِس روایت کا ذکر موجود ہے۔ حضرت امیر خسروؒ اپنے والدِ گرامی کے ہمراہ درگاہ میں حاضر ہوئے تو والد سے کہا کہ آپ اندر ملاقات کے لیے تشریف لے جائیں، میں یہیں ٹھہرتا ہوں۔ حضرت امیر خسروؒ نے ایک رقعہ اندر بھیجا جس میں یہ شعر لکھا:
تُو آن شاہی کہ بَر ایوانِ قصرت / کبوتر گر نشیند باز گردد / غریبے مستمندے بر درآمد / بیاید اندرون یا باز گردد
(تم وہ بادشاہ ہو کہ اگر تمہارے محل میں کبوتر بیٹھے تو وہ باز بن جاتا ہے، ایک غریب حاجت مند دروازے پر باریابی کا منتظر ہے، وہ اندر آ جائے، یا لوٹ جائے)
دین اور دل دونوں کا نظام چلانے والے نے اِسی رقعے کی پشت پر لکھ بھیجا:
در آید گو بود مردِ حقیقت / کہ با ما ہم نفَس ہمراز گردد / اگر ابلہ بود آن مردِ ناداں / از آن راہِ کہ آمد باز گردد
(اگر سائل حقیقت شناس ہے تو اندر آ جائے تاکہ ہمارا ہمدم و ہمراز بن جائے، اگر بیوقوف و نادان ہے تو جس راہ سے آیا ہے، واپس چلا جائے)۔
حقیقت شناس سائل، سائل نہ تھا بلکہ طالب تھا …… ترک اللہ تھا …… حقیقت کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے اُسے یوں ہم دم و ہمراز کیا کہ دونوں کے مزار ایک ہی صحن میں ہیں۔
دل کے تار ہیں کہ بِنا مضراب کے چھڑے جاتے ہیں۔ ساز میں کیا کیا نغمے ہوں گے؟ محبوبِ اَزلیؐ نے جسے ہمراز کیا وہی تو محبوبِ الٰہی ٹھہرا!! ہاں! یاد آیا، بستی نظام الدین میں داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ غالب اکیڈمی ہے اور اس کے عقب میں مزارِ غالب …… سازوں میں ایک ساز، سازِ اَناالبحر بھی ہے …… کیا عجب، یہی کارساز ہو جائے!! نارسائی کا احساس بھی وجد آفرین ہو سکتا ہے!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply