• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عربوں سے زیادہ عرب اور انگریزوں سے زیادہ انگریز۔۔فرحان جمالویؔ

عربوں سے زیادہ عرب اور انگریزوں سے زیادہ انگریز۔۔فرحان جمالویؔ

“میرا جسم میری مرضی” بظاہر ایک نعرہ ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا نعرے اور استعارے سوچ کے دھارے موڑ سکتے ہیں؟

یہ حقیقت ہے کہ معاشرے استعاروں سے بنتے بگڑتے ہیں۔بنجامین فرانکلین نے”ٹائم اِز منی”(وقت ایک دولت ہے) کا استعارہ پیش کیا ۔یہ تصور مغربی معاشروں میں آج بھی قائم ہے اور اُجرت فی گھنٹہ کے حساب سے طے اور ادا کی جاتی ہے۔ “ڈِگ فور وکٹری” (فتح کا بیلچہ)وہ استعارہ تھا جو دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ میں خوراک کی قلت پر قابو پانے کے لیے ملک گیر سطح پر استعمال کیا گیا ۔چھوٹے گھروں کی کیاریاں اور بڑے گھروں کے باغیچے بلکہ یہاں تک کہ’لندن ٹاور’کی پھلواریوں تک کو کھود دیا گیا۔ امیر اور غریب، مرد، عورت، بچے ، بوڑھے اور جوان سب ہی اپنا حصہ ڈالنے کے لیے جُت گئے۔انگریزوں نے اپنے  اجناس خود اُگائے۔ 1939سے 1943 تک اِس مہم کے چار سالہ دور میں برطانیہ کی زرعی پیداوار کے لیے مختص زمینوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے بڑھ کر چودہ لاکھ ہوچکی تھی۔ تقریباً دوگنی!

استعارے۔۔بے ہنگم ہجوم کو ایک قوم بنانے میں اہم کردار اد کرتے ہیں۔جبکہ نعرے الیکشن جتواتے ، کرسی دلواتے ہیں۔ “میرا جسم میری مرضی ” ایک نعرہ ہے جو شایداب اپنی ہئیت ا ور معنویت بدل کر فہم کے مدار سے دُور نکلتا جا رہا ہے۔

المیہ ہمارے ملک کا یہ ہے کہ قومی دھڑ دو انتہائی مختلف سمتوں میں کھینچا جارہا ہے اور سماج دوٹکڑے ہوا چاہتا ہے۔ دائیں بازو کی جماعتیں سماج کا سیدھا ہاتھ اور بائیں بازوں کی جماعتیں بائیاں ہاتھ پکڑ کر مخالف سَمت میں اِس شدت سے کھینچ رہی ہیں کہ ثقافت کی ہڈیاں اپنے جوڑ چھوڑتی محسوس ہوتی ہیں اور اِس کرب کی چیخیں نیوز چینلز سے لے کر دفتروں ، کارخانوں ، بازاروں اور قہوہ خانوں میں سنی جاسکتی ہیں۔ سیاست کے سنڈے بازار میں ، ایک بھی رہ نماایسا دکھائی نہیں دیتا جو منتشر ہجوم کو پھر سے ایک قوم بنا ڈالے ۔

“میرا جسم میری مرضی ” نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی آواز ہے یا اوپری طبقے کی سوشلائٹ لیڈیز کا نعرہ –یا اِن دونوں میں سے کسی ایک کا— یا پھر کسی کا بھی نہیں؟ دونوں کا تقابلی جائزہ لینا مشکل کام نہیں۔

مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبول سیاسی رہ نما محترمہ بے نظیر بھٹو کا تعلق اِس ملک کے نچلے طبقے سے نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس سے تھا۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں ۔ سیاست سے ہٹ کر اور ممکنہ اختلافات سے قطع نظر، محترمہ کابطور ایک خاتون مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انھوں نے امریکا کی ہارورڈ یونی ورسٹی اور انگلستان کی آکسفورڈ یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور کسی حد تک وہاں کی ماڈرن لائف کا اثر بھی قبول کیا ہوگا۔تاہم انہوں نے پاکستان آکر شادی کی، تین بچوں کو جنم دیا اور اپنے شوہر کے طویل عرصے تک جیل میں قید ہونے کے باوجود اُن سے خلع یا علیحدگی نہیں لی۔ وزیر اعظم بننے کے بعد، مغربی لبادہ ترک کر کے پاکستانی لباس اختیار کیا ، دوپٹہ اوڑھا۔ فرض کیجیے  اگر وہ اُس وقت یہ نعرہ ” میرا جسم میری مرضی” لگاتیں تو ممکن ہے مزاحمت ہوتی مگر ملک کی وزیر اعظم کی حیثیت سے شاید اُنھیں اپنی مرضی کا لباس پہننے کا اختیار مل بھی سکتا تھا۔ رسم دنیا ہی سہی، بے نظیر نے ایک نئی پرسنالٹی اپنا کر سب  سے  عزت حاصل کی۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان میں عورتوں کو مظالم کا سامنا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں عورت کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔پاکستانی خواتین ملک کی وزیر اعظم بنیں، اسٹیٹ بینک کی گورنر، پارلیمنٹ کی اسپیکر، کرکٹ ٹیم کی کپتان ، ہارٹ سرجن، پاپ سنگر ، فلم ایکٹریس یا ٹاپ ماڈل –کوئی برا نہیں مانتا۔ برا تب مانتا ہے جب کوئی پاکستانی ماڈل پڑوسی ملک جاکر اپنے بر ہنہ جسم پر “آئی ایس آئی” لکھوا کر فوٹو شوٹ کروائے ،وہاں کے فیش میگزین کی ‘کور گرل ‘بن جائے، اور ملک کی جگ ہنسائی کا باعث بنے ۔ اِس میں دو رائے نہیں کہ معافی کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں ۔ جب وہ ماڈل “میرا جسم میری مرضی” پر عمل اور حد سے تجاوز کرنے پر معافی مانگتی ہے تو اُسے معاف کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ عرصے بعدوہی ماڈل کسی چینل پر ‘رمضان ٹرانسمیشن ‘ کی میزبانی کرتی سحری اور افطار میں دکھائی دیتی ہے۔ ہم میں بہت سے لوگ پھر بھی اُسے دیکھتے ہیں، پھر بھی اُسے سنتے ہیں۔

پاکستان میں عورت آزاد ہے آپ کو یقین ہونا چاہیے۔آپ اسے مادر ، پدر، برادر ،شوہر آزاد بنا نا چاہ رہی ہیں ،اسی وجہ سے بد مزگی پیدا ہورہی ہے۔ اِس حقیقت سے انکار نہیں کہ پاکستان میں مردوں کی طرح عورتوں سے بھی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے لیکن وہ مظالم اور مسائل کچھ اور ہیں، اُن کے نعرے اور استعارے کچھ اور۔ یہ نہیں کہ “اپنا کھانا وغیرہ خود گرم کر لو” ، “طلاق یافتہ مگر خوش باش” یا “میرا جسم میری مرضی” ۔

“عورت مارچ” شاید اعلیٰ ظرف عورتوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ چاہے وہ لوور کلاس سے تعلق رکھتی ہوں یا ایلیٹ کلاس سے۔یہ مخصوص سوچ رکھنے والی عورتوں کا مسئلہ محسوس ہوتا ہے۔مثلاً یہ دیکھیے کہ سن 2009 کے آس پاس مصنف نے کراچی پریس کلب میں “آل پاکستان میوزک کانفرنس” کی پریس کوریج کی تو اپنے ادارے ‘ڈان نیوز چینل ‘کے کہنے پر مصنف نے تنظیم کی بانی رکن محترمہ عائلہ رضا کو رات آٹھ بجے ایک پروگرام میں لائیو شرکت کی دعوت دی جسے انھوں نے قبول کر لیا۔ تقریبا ساڑھے سات بجے نیوز چینل کے آہنی دروازے کھلے، ایک چھوٹی سی جیپ اندر داخل ہوئی اور دروازے بند ہو گئے۔ مصنف نےجب محترمہ سے پوچھا کہ آپ اکیلی ہی آئی ہیں تو انھوں نے سادہ جواب یہ دیا کہ آپ نے صرف مجھے بلوایا تھا اسی لیے (میرے ادارے سے) کوئی اور نہیں آیا۔ مصنف کی حیرت کی انتہا نہیں تھی کیونکہ وہ خاتون اپنی علیحدہ اور مضبوط شناخت رکھنے کے علاوہ، اُس وقت کے موجودہ صدر اور متنازعہ فوجی جنرل پرویز مشرف کی صاحبزادی تھیں جبکہ ڈان نیوز کا دفتر کراچی ویسٹ وہارف کے اندھیرے، ویران ، فشریز کی بدبودار اور کچی سڑکوں سے ہو کر گزر تا تھا جہاں چوری، ڈکیتی اور گولی مارکر ہلاک کرنے کے واقعات معمول سمجھے جاتے تھے۔ اِس کے باوجود وہ تنہا تشریف لائیں، ساتھ میں ایک عدد باڈی گارڈ تک نہیں تھا جبکہ ڈان نیوز کی اُن خواتین نیوز اینکرز کو  جو خود ڈرائیو کرتی تھیں،رات میں ڈیوٹی آف ہونے کے بعد ، دفتر کے حفاظتی دستے علیحدہ گاڑیوں میں بحفاظت محفوظ مقام تک چھوڑ کر آتے تھے۔ محترمہ عائلہ رضا نے اُس روز بھی یہ ثابت کر دیا تھا کہ پاکستان میں عورت آزاد ہے۔ایک موجودہ صدر کی صاحبزادی کو اپنے گھر سے ڈان کے دفتر تک “آزادی مارچ”کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ وہ اکیلے تشریف لائیں، اور اکیلے تشریف لے گئیں۔ البتہ، دفتر کے بیرونی دروازے پراُس رات مصنف کے ساتھ موجود چندمرد اور خواتین صحافی کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

بات سمجھنے کے لیے ایک یکسر مختلف واقعہ  کا ذکرکرنا ضروری ہے۔ اپریل 2017 میں مصنف کو ایک دوست (سید شعیب علی) کے توسط سے محترم مستنصر حسین تارڑ صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ لاہور میں واقع اُن کے نفیس گھر کے ڈرائنگ روم دلچسپ موضوعات پر اُن کی گفتگو سے فیض حاصل کیا۔ پاکستان کا موجودہ کلچر بھی زیر بحث آیا۔ دوران گفتگو تارڑ صاحب نے وہ واقعہ  سنایا جب سیاحتی سفرایک روز انھیں عراق لے گیا تھا۔ وہ ایک مقامی میزبان کے گھر مدعو تھے۔ گفتگو کے دوران، میزبان نے خالی گلاس کو بھرا اور مشروبِ ممنوعہ کی پیش کش کی۔ آپ نے انکار کردیا ۔ اُنہوں نے وجہ پوچھی۔ آپ نے وجہ بتا دی۔ جواب سن کر میزبان نے مہمان کو باور کروایا کہ حرم شریف ہماری سر زمین پر واقع ہے، یہ الہامی کتاب ہماری زبان میں نازل ہوئی، پیغمبر اسلام ہماری نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور مجھے مذہب تم سکھانا چاہتے ہو؟تم جس خطے سے ہو وہاں کے لوگوں تک کلمہ کس نے پہنچایا؟ جبکہ میں جس قبیلے سے ہوں اُس حساب سے محمد صل اللہ علیہ وسلم میرے کزن یا دُور کے رشتہ دار لگتے ہیں۔ مجھے مذہب مت سکھاؤ!۔
مصنف نے مڈل ایسٹ میں روز گار کے سلسلے میں چند سال گزارے ۔ ذہن میں عرب اقوام کا وہ تصور جو سب کی نہیں ، اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے، کچھ یوں اُبھرتا ہے، پانچ وقت کی نماز، چار شادیاں اور ایک وقت کی شراب۔

متحدہ عرب امارات میں رمضان ہوں یا غیر رمضان، مشروب ممنوعہ کی ترسیل جاری رہتی ہے، بند نہیں ہوتی۔ ہمارے یہاں رمضان آتے ہی تالے لگا دیے جاتے ہیں گویا فقط رمضان میں پینا جائز نہیں ، غیر رمضان میں جائز ہے۔ نتیجہ اِس کا کیا نکلتا ہے؟ درجنوں غریب مسلم اور غیر مسلم مزدور جو مہ خوار ہیں زہریلی شراب خرید نےپر مجبور کر دیے جاتے ہیں اورپھر جان سے جاتے ہیں۔ وہ زہر پہلے ان کی بینائی چھینتا ہے، پھر سماعت، پھر سوچنے سمجھنے اور چلنے پھرنے کی صلاحیتیں–دیکھتے ہی دیکھتے وہ منہ کے بل گرتے ہیں اور گندلی نالیوں میں تڑپ کر مر جاتے ہیں۔ حالانکہ اُنھیں شاید یہ حق پہنچتا تھا کہ وہ بھی نعرہ لگا سکیں کہ “میرا مذہب میری مرضی” ۔ اب دیکھیے اگلے ماہ رمضان ہیں۔ نہ جانے ایسے کتنے افراد لقمہ اجل بننے والے ہیں۔ شراب کو چھوڑیے، ہمارے ملک میں، خواتین تو کجا ،بیشتر مرد بھی عربوں کی چار شادیوں کے حق کو درست تصور نہیں کرتے۔ وہ صاحبِ حیثیت حضرات بھی جو چار شادیوں کی شرعی شرائط پر پورے اترتے ہیں، ایسا نہیں کرتے۔ خود کو ایک بیوی اور ایک خاندان تک محدود رکھتے ہیں۔ وہ چاہیں تو کہہ سکتے ہیں، “میرا مذہب میری مرضی” مگر نہیں کہتے۔ اِس کے باوجود بیرون ملک مقیم ایک فیمینسٹ خاتون ٹیلی  وژن پر یہ کہتی ہیں کہ “ہمارے جسم پر ہماری مرضی چلے گی، جتنے بچے ہم چاہیں گے پیدا کریں گے، نہیں چاہیں گے نہیں پیدا کریں گے۔ ہم چاہیں گے تو اپنے شوہر کے ساتھ تعلق بنائیں گے، نہیں چاہیں گے تو نہیں بنائیں گے۔۔۔”ایسی سوچ رکھنے والی خواتین کو یہ مشورہ دینا چاہیے کہ خوش رہیے، خوش فہمی میں نہ رہیے۔ مت بھولیے کہ آ پ کے پیچھے ایک لمبی قطار ہے اور آپ راستہ روکے کھڑی ہیں۔

پاکستان میں سینکڑوں حقیقی مسائل ایسے ہیں جن پرشاید سنجیدگی سے کبھی غور نہیں ہو سکے گا۔اِس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر سماجی مسئلے کو سب سے پہلے مذہب کی سوئی کے ناکے میں سے گزار کر دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ایک عام پاکستانی کو نہ عربی بول چال آتی ہے، نہ ہی اُس نے کتاب مقدس کبھی ترجمے کے ساتھ پڑھی ہوتی ہے ۔ پھر بھی وہ خود کو عربوں سے برتر مسلمان تصور کرتا ہے۔ دوسری جانب آزادی اظہار کے دلدادہ اکثر افراد،اپنے قول و فعل سے انگریزوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔بے پناہ پابندیوں سے پریشان چندصاحبِ حیثیت افراد رمضان کا پورا مہینہ، انگلستان میں کاٹتے ہیں۔اِن میں کچھ اتنے قابل ہیں کہ جن کے سامنے انگریز، لغت کھولنے پر مجبور ہو جاتےہیں۔ بے شک اِس میں کوئی برائی نہیں۔ برائی، میانہ روی اور مساوات نہ ہونے میں ہے۔ ایک طرف بالکل بھی آزادی نہیں اور دوسری طرف حد سے تجاوز کرنے کی تحریکیں چلائی جارہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مذہبی اور لبرل سوچ کے درمیان جاری اِس رسہ کشی میں ،شاید ہمیں ایک ایسے کوچ کی ضرورت ہے جو میانہ روی اور مساوات پر مبنی نئے اصول متعارف کروائے اور مثبت سوچ پیدا کرنے والے استعاروں کی پریکٹس کروائے۔ ورنہ ہماری مذہبی اور لسانی نرگسیت ہمیں ڈبو نے کا سبب بن سکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply