شاہد عباس کاظمی۔۔۔اس پر کہانی اترتی ہے /کے ایم خالد

ا س میں کوئی دوروغ گوئی نہیں کہ الفاظ کی بندش کی نئی اصطلاع ’’سو لفظوں کی کہانی ‘‘ کو اردو ادب میں مبشر علی زیدی نے متعارف کراویا گو کہ اس سے قبل مائیکرو فکشن مختلف اشکال میں لکھا جا رہا تھا لیکن اس کو بندش کا روپ مبشر علی زیدی نے دیا ۔ان کی پاکستان کے سب سے بڑے اخبار ’’جنگ ‘‘ میں چھپنے والی سو لفظوں کی کہانیوں نے پرنٹ ،الیکٹرونک میڈیا میں بھونچال سا  پیدا کر دیا ۔
بہت سے سینئرز اور جونیئرز لکھاری اس ’’سیلابی ریلے ‘‘ میں بہتے چلے گئے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اردوادب کو مائیکرو فکشن کے حوالے سے بہت سی اچھی کہانیاں نصیب ہوئیں ۔مگر جو عروج مبشر علی زیدی کے حصے میں آیا اس کی گرد کو بھی کوئی نہ چھو سکا ۔یکے بعد دیگرے تقریباً تمام لکھاری سنچری سے قبل ہی آوٹ ہوتے چلے گئے ۔کچھ اخبارات نے بھی اس سلسلے کو  پسند کرتے ہوئے ’’سو لفظوں کی کہانی ‘‘ کو اپنے ادارتی صفحے پر جگہ دی ۔
مبشر علی زیدی اپنی ہزارویں کہانی پر تھے جب شاہد عباس کاظمی کے دفتر میں  زردے کی پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھ کر شاہدعباس کاظمی نے کہا ’’آپ سو لفظوں کی کہانی کیوں نہیں لکھتے ۔۔۔؟‘‘
’’روزانہ کالم یا کسی خبر پر پر مزاح تبصرہ تو میں لکھ سکتا ہوں لیکن روزانہ ایک کہانی لکھنا شاید میرے لئے ممکن نہ ہو ‘‘میں نے زردے کا میوووں سے بھرا چمچ منہ میں  ڈالتے ہوئے کہا۔۔
’’میں نے چند کہانیاں لکھی ہیں چائے پر آپ کو دکھاتا ہوں ‘‘ شاہد نے ہنستے ہوئے کہا
ہم ڈائننگ روم سے اٹھ آئے دفتر میں چائے ہمارا انتظار کر رہی تھی ۔شاہد نے کمپیوٹر کھولا میں نے چائے کی چسکی لی ۔اس نے مجھے کمپیوٹر میں موجود کہانیاں پڑھنے کے دیں میں چائے پیتے ہوئے اس کی لکھی ہوئی سات یا آٹھ کہانیاں پڑھ لیں ان پیج کا سسٹم بتا رہا تھا کہ سو لفظوں پر مشتمل نہیں ہیں ۔
شاہد عباس کاظمی اور میں نے مبشر علی زیدی کے بتائے ہوئے بندش کے اصولوں کا موازنہ کیا اور اس فریم پر اس کی ایک کہانی کو فٹ کیا ایک اچھی کہانی بندش کے بعد وجود میں آگئی ۔
’’لیں سر ! آج سے ایک کہانی روزانہ آپ نے اور ایک میں نے  لکھنی ہے ‘‘۔اس نے مجھے گھورتے  ہوئے کہا
’’ یہ سو لفظوں والی بندش یہ تو ٹھیک ہے لیکن روزانہ ایک کہانی والی بندش میں شاید نہ نبھا پاؤں کیونکہ اگر اپنی ودیعت ہونے والی کہانی کے ساتھ  زیادتی کروں گا تو کہانی بھاگ جائے گی ۔‘‘میں نے چائے کی آخری چسکی لی اور اس سے رخصتی کا مصافحہ کیا ۔اس نے اپنی کر سی سے اٹھ کر جپھی ڈالتے ہوئے کہا ’’ میں تو انشا اللہ روزانہ لکھوں گا ‘‘۔
میں ہنستا ہوا اس کے دفتر سے نکل آیا ۔
شاہد عباس کاظمی نے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں اس بات سے مبرا کہ کوئی پڑھتا ہے یا نہیں میں نے کچھ کہانیاں لکھیں جنہیں سوشل میڈیا پر پزیرائی ملی تو مجھے روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ کا پلیٹ فارم مل گیا جہاں میں تقریباٍ ً تین ماہ چھپتا رہا پھر میری اپنی ہی سستی سے میں نے یہ سلسلہ بند کردیا ۔شاہد عباس کاظمی کو روزنامہ ’’ نئی بات ‘‘ پلیٹ فارم میسر آیا جہاں وہ مسلسل تقریبا ًًً دو سال سے  زیادہ چھپتا رہا ۔اخبارات کی ادارتی صفحے کو کم کرنے کی پالیسی پر جہاں دوسرے اخبارات نے کہانیوں اور کالم کے سلسلوں کو کم کیا وہیں’’ نئی بات‘‘ نے بھی اس سلسلے کو بند کر دیا ۔
ایک دن میں ہنستے ہوئے کہا ’’ شاہد ! تم مبشر علی زیدی کا پیچھا کر رہے ہو لیکن تم ان تک نہیں پہنچ پاؤں گے ہاں ایک حل ہے اگر تم روزانہ دو سے تین کہانیاں لکھو ۔‘‘اور وہ چپکے سے ہنس دیا
اس کی ’’سو لفظوں کی کہانی ‘‘ ایک ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے اور میں سنچری کے قریب سستا رہا ہوں دور دور تک اس کے علاوہ اس مائیکرو فکشن کے میدان میں کوئی نہیں ۔وہ ہمت ہارے بغیر لفظوں کے گھوڑوں کو ایڑ لگائے دوڑائے جا رہا ہے ۔
مجھے امید ہے مستقبل میں جب بھی مائیکرو فکشن کی تاریخ مرتب کی جائے اس میں بلا مبالغہ مبشر علی زیدی کے بعد دوسرا نام شاہد عباس کاظمی کا ہو گا۔

Facebook Comments

کے ایم خالد
کے ایم خالد کا شمار ملک کے معروف مزاح نگاروں اور فکاہیہ کالم نویسوں میں ہوتا ہے ،قومی اخبارارات ’’امن‘‘ ،’’جناح‘‘ ’’پاکستان ‘‘،خبریں،الشرق انٹرنیشنل ، ’’نئی بات ‘‘،’’’’ سرکار ‘‘ ’’ اوصاف ‘‘، ’’اساس ‘‘ سمیت روزنامہ ’’جنگ ‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہو چکے ہیں روزنامہ ’’طاقت ‘‘ میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم ’’مزاح مت ‘‘ شائع ہوتا ہے۔ایکسپریس نیوز ،اردو پوائنٹ کی ویب سائٹس سمیت بہت سی دیگر ویب سائٹ پران کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔پی ٹی وی سمیت نجی چینلز پر ان کے کامیڈی ڈارمے آن ائیر ہو چکے ہیں ۔روزنامہ ’’جہان پاکستان ‘‘ میں ان کی سو لفظی کہانی روزانہ شائع ہو رہی ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply