• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کوئٹہ اور افغانستان کے ہزارہ کون ہیں؟: تاریخ، نژاد اورمذہب(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔حمزہ ابراہیم

کوئٹہ اور افغانستان کے ہزارہ کون ہیں؟: تاریخ، نژاد اورمذہب(دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔حمزہ ابراہیم

جینیاتی ورثہ
انسانی ارتقاء اور جینیات کا علم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ سال پہلے انسانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ مشرقی افریقہ سے ہجرت کر کے مغربی ایشیاء میں آیا اور انکی اولاد اگلے ہزاروں سالوں میں دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اس دوران انسانوں میں معمولی جینیاتی تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہیں جن کی وجہ سے مختلف نسلی گروہ سامنے آتے گئے۔ فروری دو ہزار آٹھ میں معروف تحقیقی جریدے ”سائنس“ میں شائع ہونے والے مقالے
“Worldwide Human Relationships Inferred from Genome-Wide Patterns of Variation”
میں دنیا کے مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے جینیاتی مواد پر کی جانے والی مفصل سائنسی تحقیق کے نتائج پیش کئے گئے(25) ۔ اس تحقیق کا مقصد اکیاون مختلف نسلی آبادیوں کی گروہ بندی کرنا تھا تاکہ ان اقوام کے تاریخی ورثے کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ اس مطالعے کے نتیجے میں ہزارہ اور سینکیانگ (کاشغر) کے ایغور جینیاتی اعتبار سے ایک گروہ میں نظر آئے۔ اس گروہ میں شامل باقی نسلیں بروشو، کالاش، پختون، پنجابی و سندھی، مکرانی، براہوی اور بلوچ تھیں۔ سائنسدانوں کے مطابق ہزارہ اور ایغور مشترکہ جینیاتی ورثہ رکھتے ہیں اور یہ لوگ افغانستان کے اصلی باشندے ہیں۔ ان میں یورپی اور جنوب مشرقی ایشیاء کی اقوام کے جینز چند ہزار سال پہلے ان علاقوں سے آنے والے لوگوں کے ساتھ ہونے والے ارتباط کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں۔ دوسری طرف منگول جینیاتی اعتبار سے اروکن، یاکوت، ہان (چینی)، جاپانی، کمبوڈین اور مشرقِ بعید سے تعلق رکھنے والی باقی نسلوں کے گروہ میں شامل نظر آئے۔

کوئٹہ اور افغانستان کے ہزارہ کون ہیں؟ تاریخ، نژاد اورمذہب(حصہ اوّل)۔۔۔حمزہ ابراہیم
اس کے بعد سن دو ہزار دس میں وسطی ایشیاء کی چھ مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والی چھبیس آبادیوں پر کی جانے والی جینیاتی تحقیق ”یورپین جنرل آف ہیومن جنیٹکس“ میں شائع ہوئی۔ مقالے کا عنوان تھا:
“In the heartland of Eurasia: the multilocus genetic landscape of Central Asian populations” (26).
اور اس تحقیق کا محور وسطی ایشیاء کے علاقے سے تعلق رکھنے والی چھبیس مختلف آبادیاں تھیں۔ اس مطالعے کے نتیجے میں بھی یہی بات سامنے آئی کہ ہزارہ اور ایغور کا جینیاتی ورثہ منگولوں کے بجائے وسطی ایشیاء ہی کی دوسری اقوام سے ملتا ہے۔ ہزارہ اور ایغور جینیاتی فاصلے کے اعتبار سے ازبک، تاجک، کرغز اور کازک لوگوں کی نسبت منگولوں سے زیادہ دوری پر ہیں۔ ان تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ جغرافیائی اعتبار سے قریب رہنے والی اقوام جینیاتی اعتبار سے بھی قریب تھیں اور یہ خیال کہ منگولوں نے ہزارہ جات کی ساری مقامی آبادی کو ختم کر کے وہاں اپنے لوگ بسائے تھے، غلط تھا۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہزارہ چنگیزی نہیں ہیں بلکہ جن علاقوں پر افغانستان قائم ہوا، ان کے قدیم اور اصلی باشندوں میں سے ہیں ۔یہ مفروضہ کہ منگولوں نے کسی علاقے کی آبادی کا مکمل خاتمہ کیا ہو، آثارِ قدیمہ کے مطالعے سے بھی ثابت نہیں ہو سکا ہے کیونکہ کسی بڑے علاقے میں ہزاروں سربریدہ یا بدن دریدہ ڈھانچے نہیں ملے ہیں جن کی کاربن ڈیٹنگ انہیں منگولوں کے دور سے منسوب کرتی ہو۔ اگرچہ منگول لشکر اپنے راستے میں آنے والے بڑے شہروں کو تباہ کرتا رہا لیکن اس دور میں کسی بڑے علاقے کے تمام شہروں، دیہاتوں اور خانہ بدوش آبادیوں کی نسل کشی ممکن نہ تھی کیونکہ یہ کام جدید اسلحے اور انجن کے زور پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کی کوئی عقلی توجیہ بھی ممکن نہیں ہے کہ منگول لشکر نے اپنی فوج کے ایک حصے کو اپنے آبائی علاقے سے ہزاروں میل دور ہزارہ جات کے علاقے میں بسا یا ہو مگر کسی اور جگہ ایسی آبادکاری کا اہتمام نہ کیا ہو، جبکہ ان کی عسکری مہم ایشیاء اور یورپ کے وسیع علاقوں پر پھیلی ہوئی تھی اور انہیں آگے جانے کیلئے افرادی قوت بھی درکار تھی۔

انسانوں کے کسی گروہ کی شناخت میں ایک اہم عنصر مادری زبان ہوتا ہے۔ انسان اپنےبچپن میں اپنے والدین اور قریبی لوگوں کی آواز اور برتاؤ سے مادری زبان سیکھتا ہے۔ اگرچہ آج کی دنیا میں جدید وسائل کی مدد سے کسی بچے کو دوسری زبانیں سکھانا ممکن ہے اور بعض اوقات والدین بچوں کو اپنی مادری زبان کے بجائے کوئی اور زبان سکھا دیتے ہیں، جیسے اردو یا انگریزی، لیکن ماضی میں انسانی معاشروں میں روابط اتنے تیز نہ تھے۔ چنانچہ لوگوں کی مادری زبانیں کئی ہزار سال گزارنے کے بعد آنے والی تبدیلیوں کے باوجود زبانوں کے اسی خاندان میں رہی ہیں جن سے انکا جینیاتی تعلق ہے۔ مثلاً ہزاروں سال پہلے جغرافیائی طور پر بچھڑنے والے آریائی لوگ ایران و برصغیر میں ہوں یا یورپ میں، انکی زبانیں اپنے جوہر میں باقی آریائی زبانوں سے ملتی جلتی ہیں۔ دوسری طرف آریا اور دراوڑ نسلوں کے لوگ ہندوستان میں کئی ہزار سال سے جغرافیائی طور پر اکٹھے رہ رہے ہیں لیکن دراوڑی زبانوں کا تعلق الگ لسانی گروہ سے ہے۔ ہزارہ کی زبان بھی آریائی زبانوں میں شمار ہوتی ہے لیکن منگول زبان آریائی نہیں ہے۔ منگولوں نے باقی حملہ آوروں کی طرح ہزارہ پر بھی اتنے ہی جینیاتی اور لسانی اثرات چھوڑے جتنے باقی اقوام پر چھوڑے ہیں۔

بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسمے ہزارہ کا اہم تاریخی ورثہ اور سیاحتی قدر تھے۔ ماضی میں مختلف مسلمان حملہ آور بامیان میں مہاتما بدھ کے مجسمے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ سب سے پہلے بابر اور پھر اورنگزیب اور اس کے بعد نادر شاہ نے بت شکنی کے نام پر اس تاریخی شناخت کو ختم کرنا چاہا ۔ اورنگزیب و نادر شاہ کی توپیں ان کو صرف معمولی نقصان پہنچا سکیں۔1891ء میں امیر عبد الرحمن خان نے نسبتاً جدید اسلحے سے گولہ باری کر کے ان مجسموں کے چہروں کو مسخ کر دیا، جن میں ان کو بنانے والے ہزارہ کے چہروں کا عکس اس زمین پر ہزارہ کے تاریخی حق کو ثابت کرتا تھا۔ مارچ 2001ء میں ملا عمر نے بارود نصب کروا کے دونوں مجسموں کو تباہ کر دیا۔اس سے بامیان کی سیاحتی قدر و قیمت گر گئی اور اس کے تاریخ میں سے ایک اہم باب کے مادی آثار نہ رہے۔

مذہبی ورثہ
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ازمنہٴ قبلِ تاریخ میں وسطی ایشاء کے لوگ بکری کی پوجا کرتے تھے(27)۔ تاریخ کے ابتدائی عرصے میں وسطی ایشیاء کے لوگ زرتشت(پارسی) مذہب کے پیروکار ہو گئےتھے، جسے ہخامنشی سلطنت نے رواج دیا تھا(28) ۔ سکندر کی طرف سے یونانیوں کو مشرق میں بسانے اور تہذیبوں کو ملانے کی کوشش نے وسطی ایشیاء میں یونانی خیالات اور فنون، جیسے مجسمہ سازی، کو رواج دیا۔ تیسری صدی قبلِ مسیح میں شہنشاہ چندر گپت موریا کے پوتے اَشُوکِ اعظم نے اڑیسہ میں ہونے والی خونی لڑائی کے بعد توبہ کر کے بدھ مت کو اپنا لیا تھا۔ 250 قبلِ مسیح میں موجودہ ہندوستانی صوبہ بہار کے علاقے میں بدھ مت کی تیسری شوریٰ کا اکٹھ ہوا جس میں مختلف علاقوں میں بدھ مت کے مبلغین بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں چند صدیوں میں ایشیاء کا وسیع علاقہ بدھ مت کا پیرو بن گیا(29) ۔ اَشوک نے سلطنت کے مختلف حصوں میں مینار بنوا کر ان پر بدھ مت کی تعلیمات بھی کندہ کرائیں۔ موجودہ افغانستان میں بدھ مت موریا سلطنت کے زیر سایہ متعارف ہوا۔ قندھار کے علاقے شہرِ کہنہ سے پتھر کے کتبوں پر اَشوک کے کئی فرامین ملے ہیں جن میں سے ایک کے مطابق:
”تقویٰ اور ضبطِ نفس ہر مسلک کی تعلیمات کا حصہ ہے۔ جوشخص اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے وہ اپنے نفس کا حاکم ہے۔ انہیں نہ اپنے بارے میں شیخیاں بگھارنی چاہئیں نہ اپنے پڑوسی کو کسی حوالے سے کمتر سمجھنا چاہئیے، کیوں کہ یہ ایک فضول کام ہے۔ اس اصول پر کاربند رہ کر وہ اپنی عزت بڑھا اور اپنے پڑوسیوں کے دل جیت سکتے ہیں۔ ان اصولوں سے روگردانی کرنے والے اپنی عزت گنوا بیٹھتے ہیں اور پڑوسیوں کو اپنا دشمن بنا لیتے ہیں۔ اپنی بڑائی بیان کرنے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو پست کہنے والے لوگ خود پرستی میں مبتلا ہیں، جو دوسروں کے مقابلے میں برتر دکھائی دینے کی کوشش میں اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ شائستہ یہی ہے کہ آپس میں عزت سے پیش آیا جائےاور ایک دوسرے سے سیکھا جائے۔ ہر معاملے میں دوسروں کی بات کو سمجھنے کیلئے تیار ہونا چاہئیے اور دوسروں کو وہ بات سمجھانے کی کوشش بھی کرنی چاہئیے جسے وہ سمجھ سکتے ہوں۔ وہ لوگ جواس راہ پر قدم بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ یہ پیغام آگے پہنچانے میں کسی تردد کا شکار نہیں ہوں گے یہاں تک کہ ہر طرف تقویٰ اور نیکی کا بول بالا ہو جائے۔

پادشاہ نے اپنی حکومت کے آٹھویں سال کالینگاہ کو فتح کیا۔ ڈیڑھ لاکھ انسان قیدی بنائےیا بے دخل کئے۔ایک لاکھ لوگ قتل ہوئےاور اتنے ہی اس جنگ کے اثرات کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ اس پر رحم اور ہمدردی کے جذبات نے غلبہ پا لیا اور اس کو بہت دکھ ہوا ۔ یہاں تک کہ اس نے کسی ذی روح کو قتل کرنے پر پابندی لگا دی اور نیکی کو عام کرنے کی ٹھان لی۔ اسی دوران اس نےوہاں رہنے والے برہمنوں اور سرمنوں کی ریاضت کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ۔ انہیں بادشاہ کے مفادات کا خیال رکھنا چاہئیے، اپنے اساتذہ، باپ اور ماں کا ادب و احترام بجا لانا چاہیے۔ اپنے دوستوں سے محبت اور وفاداری کا برتاؤ کرنا چاہئیے۔ انھیں اپنے غلاموں اور وابستگان کے ساتھ جتنا ممکن ہو اچھا سلوک کرنا چاہیے۔
اگر وہاں مصروفِ کار افراد میں سے کوئی انتقال کر جائے یا بے دخل کیا گیاہو اور دوسرے لوگ اس کو معمولی حادثہ سمجھیں، تو یہ امر بادشاہ کو ناگوار گزرتا ہے۔ان کے علاوہ دوسرے لوگوں میں ۔“

یہاں مسلک سے مراد بدھ مت کے مختلف فرقے ہیں- کالینگاہ (موجودہ اڑیسہ) کی فتح کے ذکر میں لاکھ کا ہندسہ مبالغے کیلئے استعمال ہوا ہے، ورنہ اس زمانے میں ہندوستان کی مجموعی آبادی ہی چند لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ یہ فرمان دو زبانوں، آرامی اور یونانی میں لکھا گیا ہے۔ آرامی زبان کو ہخامنشی سلطنت نے اور یونانی کو سلطنتِ مقدونیہ نے اس علاقے میں رواج دیا تھا۔ یہاں یونانی زبان کے بولے جانے سے اس بات کا بھی پتا چلتا ہے کہ یونانیوں کی بڑی تعداد مقامی آبادی کا حصہ بن گئی تھی ۔ اسی قسم کے کتبے جلال آباد اور ٹیکسلا میں بھی ملے ہیں جو آرامی اور سنسکرت زبان میں لکھے گئے تھے(30) ۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اخلاقیات اور اچھے کردار کو خدا پرستی سے مشروط نہیں کیا گیا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ بدھ مت میں دیوتا یا معبود کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اسی طرح آخرت، قیامت اور عالم ِبالا کا بھی کوئی تصور نہیں ہے، اس کے بجائے وہ تناسخ، یعنی دوسرے جنم پر یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ اخلاقیات کا مقصد خدا کی خوشنودی کا حصول نہیں بلکہ مادی زندگی کے معیار کو بلند کرنا ہے۔اسی طرح بدھ کو خدا کا بھیجا ہوا پیام بر نہیں بلکہ ایک روشن ضمیر انسان (مہاتما) مانا جاتا ہے۔

اگرچہ اَشوک کی وفات کے بعد موریا سلطنت زوال کا شکار ہو گئی لیکن ایشیاء میں بدھ مت تیزی سے پھیلتا رہا۔ پہلی صدی عیسوی میں قائم ہونے والی سلطنتِ کوشان اور شاہراہِ ریشم پر ہونے والی تجارت نے بدھ مت کے پیغام کو بحیرہ خزر سے چین و جاپان تک پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری صدی عیسوی میں بدھ مت کے رہنماؤں کی چوتھی شوریٰ کشمیر میں طلب کی گئی جس کی سربراہی کوشان شہنشاہ کَنِشک نے کی۔ اس شوریٰ نے بدھ مت کے کئی نئے مسالک کو رسمی طور پر قبول کیا اور وسطی ایشیاء میں بدھ مذہب کو عام کرنے کا منصوبہ بنایا (31)۔ بامیان و کابل کا علاقہ بدھ مت کے پیروکاروں کا روحانی و تخلیقی مرکز بن گیا۔ گندھارا کے فن پارے ایک معنوی کہکشاں کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔ کوشان سلطنت کے زوال کے بعدساسانیوں نے وسطی ایشیاء میں دوبارہ زرتشت مذہب کو رواج دیا اور بدھ مت کے بارے میں مختلف نیم آزاد سلطنتوں کا رویہ مختلف رہا۔ باقی علاقوں میں بدھ مت زوال کا شکار ہو گیا لیکن بامیان اور وادئ سندھ میں بدھ مت کی شمع پوری آب و تاب سے جلتی رہی۔ ماہرین آثارِ قدیمہ کے مطابق بامیان میں پہاڑ کو تراش کر بنائے گئے مہاتما بدھ کے معروف مجسمے تیسری اور پانچویں صدی عیسوی میں بنائے گئے (32) ۔ ان کو تراشنے کا مقصد پوجنا نہیں بلکہ مہاتما بدھ کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔سن 400ء میں بامیان یا کاشغر سے چینی بدھ صوفی فاھیان کا گذر ہوا ۔ اس نے بادشاہ کے دربار میں منعقد ہونے والی ایک مذہبی تقریب میں ایک ہزار کے قریب بدھ صوفیا کی شرکت کا ذکر کیا ہے(33) ۔

اگرچہ علم ہمیشہ آگے بڑھتا ہے لیکن انسانی تاریخ ہمیشہ آگے نہیں بڑھتی۔ 430ء میں تاتاروں کے حملے کے آغاز اور 484ء میں ساسانی فوج کی حتمی شکست کے بعد سو سال تک سابقہ سلطنتِ کوشان کے علاقے پر ان کا اقتدار سلطنتِ کوشان کی تہذیب پروری کے برعکس وحشت اور جہالت کا راج ثابت ہوا۔ انہوں نے اپنے زیر اثر علاقے میں بدھ مت کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیا(34) ۔ لیکن 565ء میں ساسانیوں کے فیصلہ کن حملے اور تاتار اقتدار کے خاتمے کے بعد بامیان پر ایک آزاد سلطنت قائم ہوئی۔ گندھارا میں برہمنوں نے تاتاروں کے ساتھ تعاون کیا تھا اور ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہاں برہمن اقتدار دوبارہ سے قائم ہو گیا۔ لیکن چونکہ برہمن ذات پات پر یقین رکھتے تھے اور اپنے مذہب میں کسی دوسری ذات کے لوگوں کو شامل کرنے کے قائل نہ تھے لہٰذا عوام کی اکثریت بدھ مت ہی کی پیروکار رہی۔

سن 632ء میں بامیان سے گزرنے والے بدھ سالک اور موٴرخ ہیون سانگ (Xuan Zang) نے یہاں بدھ مت کے ہزاروں پیرو کاروں، دسیوں معبدوں اور پہاڑ میں بنائے گئے مہاتما بدھ کے کئی فٹ بلند مجسموں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے ۔ اسکی روداد سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر دوبارہ ایک تجارتی مرکز بن چکا تھا اور یہاں پڑھنے لکھنے والے لوگ بھی موجود تھے(9) ۔
افغانستان میں اسلام حضرت علیؑ کے دور میں آیا جب غوری قبائل کے سربراہ مہاوی سوری نے ایک وفد کے ہمراہ کوفہ کا دورہ کیا اور حضرت علیؑ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ طبری نے اس حوالے سے دو روایات بیان کی ہیں۔ پہلی روایت میں وہ ابو جعفر سے نقل کرتے ہیں کہ جنگِ صفین کے دوران مہاوی حضرت علیؑ سے ملنے آئے اور امن معاہدہ کرنے بعد خراسان واپس لوٹ گئے۔ دوسری روایت میں ابنِ اسحاق سے نقل کرتے ہیں کہ مرو کے گورنر مہاوی جنگ جمل کے بعد حضرت علیؑ سے ملنے آئے اور حضرت علیؑ نے مرو میں موجود مسلمان لشکر کے سالار کے نام خط میں حمد و ثنا کے بعد لکھا:
” غور کے والی مہاوی سے میری ملاقات ہوئی ہے اور میں اس سے راضی ہوں۔ یہ خط 36 ہجری میں لکھا گیا“(35) ۔

خراسان کے لوگ محب اہلبیت تھے۔ جب بنی امیہ کی حکومت میں تمام علاقوں میں حضرت علیؑ کو گالیاں دینے کا حکم دیا گیا تو یہ واحد خطہ تھا جہاں کے لوگوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا(36) ۔ بعد میں بنی امیہ کے زوال میں اسی خطے سے اٹھنے والے ابو مسلم خراسانی نے اہم ترین کردار ادا کیا-
آٹھویں صدی عیسوی میں بامیان آنے والے کوریائی سیاح ہائی چو (Hyecho) نے بامیان کو بدھ مت کا ثقافتی مرکز بتایا ہے(10) ۔ البتہ دسویں صدی عیسوی کے دوران وسطی ایشیاء میں اسماعیلی شیعہ داعی بہت متحرک تھے جنہوں نے ہزارہ علاقوں میں شیعہ اسلام کی اسماعیلی شاخ کے منظم فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ افغانستان میں پہلی اسماعیلی تبلیغی مہم غیاث نامی ایک اسماعیلی داعی کے نویں صدی عیسوی کے آخر میں فارس سے بالا مرغاب کے علاقے میں آنے سے شروع ہوئی۔ بعد میں ناصر خسرو نے اسماعیلی دعوت کو خراسان میں منظم کیا جس کی جڑیں آج تک باقی ہیں۔ ناصر خسرو یہاں کی فارسی بولی (ہزارگی/درّی) کے شاعر اور نثر نگار بھی تھے(37) ۔

بامیان سے بدھ سلطنت کا خاتمہ گیارہویں صدی عیسوی میں غزنوی سلطنت کے ہاتھوں ہوا، جو شد و مد سے سنی حنفی اسلام کو پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس سیاسی غلبے نے شمالی ہندوستان کی طرح یہاں بھی اسلام کے فروغ میں کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:
”ہندوستان میں اسلام سیاسی حکومت قائم ہونے کے بعد پھیلا۔ لوگ اس لئے مسلمان ہوئے کہ اپنی جاگیریں اور مراعات کو محفوظ کر لیں، یا اس لئے کہ انہیں حکومت کی ملازمتیں مل جائیں۔ نچلی ذات کے لوگ اس امید پر مسلمان ہوئے کہ شاید نئےمعاشرے میں انہیں سماجی طور پر عزت مل جائے۔کچھ لوگ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر بھی مسلمان ہوئے۔ یہ بھی دستور تھا کہ اگر سیاسی قیدی مذہب بدل لیتے تو انہیں معافی دے دی جاتی تھی۔ اس لئے مقامی آبادی آہستہ آہستہ کافی تعداد میں مسلمان ہوئی“ (38)۔
”سندھ میں اسلام پھیلنے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں مسلمانوں کی آمد کے وقت اکثریت بدھ مت کی ماننے والی تھی۔ بدھ مت ایک فلسفیانہ طرز کا مذہب ہے، جس میں وسعت و کشادگی اور رواداری ہے۔ اس کے مقابلے میں شمالی ہندوستان میں ہندو مذہب کا زور تھا جسے صدیوں کی روایات نے انتہائی پختہ بنا دیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ سندھ اور شمالی ہندوستان میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ سندھ میں قبائلی نظام تھا اور برہمن ذات کو غلبہ حاصل نہیں تھا۔ اس لئے جب قبیلے کا سردار مسلمان ہو جاتا تو پورا قبیلہ اسلام قبول کر لیتا تھا“ (39)۔
1306ء میں ہلاکو خان کے پڑپوتے غزن خان نے شہزادوں سمیت اسلام قبول کر لیا۔ وہ شیعہ اسلام میں کافی دلچسپی رکھتا تھا اور آئمہ اہلبیتؑ کے مزارات کی زیارت کرنے جایا کرتا تھا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے الجائتو نے بھی اس علاقے میں شیعیت کی سرپرستی کی۔ ہزارہ قبائل کا شیعہ اسلام کی جانب مائل ہونا غزن خان کے زمانے میں شروع ہوا اور یہ سلسلہ شاہ عباس صفوی کے دور میں مکمل ہوا۔ پشتون اور سنی امیروں کی حکومت میں ہزارہ اثناعشری اور اسماعیلیوں کو جبروستم کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ امیر عبدالرحمن خان نے 1891ء سے 1893ءکے دوران اور افغان طالبان نے اپنے دور حکومت میں افغانستان کی شیعہ ہزارہ آبادی کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا(37) ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حوالہ جات
1. R. Thapar, “Early India”, p. 156–160, Penguin Books, (2003).
2. Ibid, p. 176.
3. Marcus Junianus Justinus, “Epitome of Pompeius Trogus”, Libre XLI 4 (5).
4. R. Thapar, “Early India”, p. 217, Penguin Books, (2003).
5. Ibid, p. 221.
6. Ibid, p. 280.
7. Ibid, p. 286.
8. L. Dupree, “Afghanistan”, pp.302 – 303, Princeton University Press, (1980).
9. T. Watters, “On Yuan Chwang’s travels in India”, pp. 115 – 122, Royal Asiatic Society, London (1904).
10. http://hyecho-buddhist-pilgrim.asian.lsa.umich.edu/bamiyan.php
11. L. Dupree, “Afghanistan”, p.314, Princeton University Press, (1980).
12. N. Dupree, “Bamiyan”, p. 61–63, Afghan Tourist Organization, (1967).
13. L. Dupree, “Afghanistan”, p.317, Princeton University Press, (1980).
14. Z. M. Babur, “Babur-nama”, pp. 207, 214, 218, 221, 251–53, 300, Lahore (1987).
15. L. Dupree, “Afghanistan”, p.336, Princeton University Press, (1980).
16. ڈاکٹر مبارک علی ، ”گمشدہ تاریخ“، صفحات 101 تا 107 ، فکشن ہاؤس لاہور ، (2005) ۔
17. L. Dupree, “Afghanistan”, p. 409, Princeton University Press, (1980).
18. Hamza Alavi, “Ironies of History: Contradictions of the Khilafat Movement”, Comparative Studies of South Asia, Africa and the Middle East 17 (1): 1–16, (1997).
19. L. Dupree, “Afghanistan”, p. 418, Princeton University Press, (1980).
20. Hasan K. Kakar, “Government and Society in Afghanistan: The Reign of Amir Abd Al-Rahman Khan”, p. 158–161, University of Texas Press, (2011).
21. Ibid, pp. xxiii–xxiv.
22. L. Dupree, “Afghanistan”, p. 435, Princeton University Press, (1980).
23. Ibid, Ch. 20.
24. Hasan K. Kakar, “Government and Society in Afghanistan: The Reign of Amir Abd Al-Rahman Khan”, p. 250, University of Texas Press, (2011).
25. Jun Z. Li, et. al., “Worldwide Human Relationships Inferred from Genome-Wide Patterns of Variation”, Science, Vol. 319, Issue 5866, pp. 1100-1104, Feb. (2008).
26. B. Martínez-Cruz, et al., “In the heartland of Eurasia: the multilocus genetic landscape of Central Asian populations”, European Journal of Human Genetics, Vol. 19, pp. 216–223, (2011).
27. L. Dupree, “Afghanistan”, p. 435, Princeton University Press, (1980).
28. Ibid, p. 272.
29. R. Thapar, “Early India”, p. 181, Penguin Books, (2003).
30. L. Dupree, “Afghanistan”, pp. 286 – 288, Princeton University Press, (1980).
31. R. Thapar, “Early India”, p. 222, Penguin Books, (2003).
32. L. Dupree, “Afghanistan”, p. 305, Princeton University Press, (1980).
33. H. A. Giles, “The Travels of Fa Hsien”, pp. 7–8, Cambridge University press, (1923).
34. R. Thapar, “Early India”, p. 287, Penguin Books, (2003).
35. Tabari, “Tarikh-i Tabari”, IV, 263; VI, 2494.
36. محمد قاسم فرشتہ، ”تاریخِ فرشتہ“، جلد 1، صفحہ 81، عثمانیہ یونیورسٹی پریس، حیدرآباد (1926ء) ۔
37. Yahia Baiza, “The Hazaras of Afghanistan and their Shi’a Orientation: An Analytical Historical Survey”, Journal of Shi’a Islamic Studies, vol. 7, no. 2, pp. 151 – 171, (2014).
38. ڈاکٹر مبارک علی، ”برصغیر میں مسلمان معاشرے کا المیہ“، صفحہ 45، (2005ء) ۔
39. ڈاکٹر مبارک علی، ”سندھ کی تاریخ کیا ہے؟“، صفحہ 44، (2004ء) ۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply