ڈے کیئر سینٹر یا ٹارچر سیل۔۔۔عائشہ یاسین

سوشل میڈیا کی خبر گرم ہے۔ دل اداس سے زیادہ چوکنا  ہوگیا ہے۔ ان ویڈیوز کو میں نے بڑے غور سے بار بار دیکھا۔ ایک دفعہ پھر ہمارے معاشرے کا بھیانک چہرہ سامنے آگیا ہے جہاں انسانیت نام کو بھی  باقی نہیں رہی ہے۔ ہمارا معاشرہ کس طرف چل پڑا ہے، وہ کون سے عوامل ہیں جس نے ہمارے دلوں کو مسخ کردیا ہے۔ آج بھی میرا موضوع معصوم بچے ہیں۔ وہ خلق جس کو ہم عام زبان میں فرشتے کے لقب سے پکارتے ہیں ۔

ڈے کیئر سینٹرز وہ ادارے ہیں جہاں تلاشِ معاش میں نکلنے والی خواتین اپنے شیرخوار بچوں  کو چھوڑ کر نوکری پر  جاتی ہیں، ان اداروں کا کام ان بچوں کی دیکھ بھال ہوتا ہے اور گھراُنہیں  جیسا ماحول مہیا کرنا ہوتا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ یہ وہ ادارے ہیں جو  بھاری رقم   وصول کرتے ہیں اور مائیں ان کے پاس اپنا قیمتی ترین سرمایہ  اس یقین کے ساتھ چھوڑ کے جاتی ہیں کہ وہ  محفوظ ہاتھوں میں ہیں ۔ لیکن ٹھہریے کیا ان معصوم پھولوں کو ایسے اداروں کے پاس چھوڑنے سے قبل کسی قسم کا لائسنس یا سرٹیفکیٹ  چیک کیا جاتا ہے؟۔ کیا  ہمیں علم ہوتا ہے کہ وہاں موجود عملہ نرسنگ کے شعبے میں تربیت  یا سند یافتہ  ہے؟ ۔۔یا جو سربراہ اس ادارے کو چلا رہا ہے وہ کتنی اہلیت رکھتا ہے؟

نہیں۔ ہم اس بنیادی جانچ  پڑتال اور تحقیق کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے اور اللہ واسطے اپنے بچے اُن کے رحم و کرم پر  چھوڑ جاتے ہیں۔

میں اس معاملے پر کافی دیر سوچتی رہی کہ ماں اور بچے کا رشتہ آخر کیا ہوتا ہے۔ ان واقعات سے یہ بھی پتہ چلا کہ ہر عورت ماں نہیں ہوتی یا کوئی عورت دوسرے بچے کی ماں نہیں بن سکتی۔ عورت صرف اپنی  کوکھ سے جنم لینے والے بچے کی ماں ہوتی ہے اور اس کی مامتا اس بچے تک محدود ہوتی ہے ۔

پھر خیال آتا  ہے کہ کوئی عورت کسی مجبوری کے  تحت ہی اپنے جگر گوشے کو کسی غیر کے ہاتھوں چھوڑتی ہوگی۔۔ روزگار کی تلاش اور معمولات زندگی میں اپنے شریک حیات کا ہاتھ بٹانے اور اپنے نا سازگار حالات سے نبردآزما ہونے کو، لیکن ان خواتین کا کیا جو شوق کی ماری ہیں اور اپنے کیریئر کو اپنے بچوں پر فوقیت دیتی ہیں؟۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے آج مذہب اسلام پر مجھے اور بھی فخر  محسوس ہورہا ہے کہ ہمارے مذہب نے عورت کو اپنے بچے کا محافظ بنایا۔ ماں وہ واحد ہستی ہے جو اپنے بچے کی بہتر حفاظت کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ڈے کیئر ،یہ نوکر چاکر ہمارے بچوں کے محافظ نہیں، یہ ہم ہیں جس کو قدرت نے ذمہ داری سونپی کہ ایک گوشت کے لوتھڑے کو پروان چڑھائیں،اس کی دیکھ بھال کریں ،اس کی پرورش اور تربیت کریں۔ اس کو آدمی سے انسانیت  کی معراج پر پہنچائیں۔

کبھی سوچا ،تربیت اور پرورش عورت کے حصے میں کیوں آئی؟۔ کیوں اس کو اتنی بھاری زمہ داری دی گئی؟۔ نہیں ہم اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے متعلق نہیں سوچتے۔ ہم عورتیں صرف یہ سوچتی ہیں کہ ہم نے وہ کام کرنے ہیں ،جو مرد کرسکتا ہے، ہم یہ غور نہیں کرتیں کہ ہمیں  کس کام کے لیے اور کیوں بنایا گیا۔۔

ہم پر یہ ذمہ داری اس لیے ڈالی گئی کہ ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم اس کی اہل ہیں۔ ماں کا وصف رب نے عورت کے نصیب میں رکھ کر  یہ ثابت کیا کہ ایک ماں 1/70 واں حصہ میرا وصف رکھتی ہے۔ ہم پر ایک نسل کی تربیت کا بار ڈالا گیا، تا کہ ہم اپنی مامتا کی چھاؤں اور تربیت سے اللہ کے نیک بندوں کی نسل تیار کریں۔ جو اللہ کی بندگی کرتا ہو، جو جانتا ہو کہ میں کیوں پیدا کیا گیا ہوں۔

عورت ہونا ایک اعزاز ہے۔ ایسا اعزاز جس کے پیروں تلے جنت رکھ دی گئی۔ کیا اس فانی دنیا میں   اس سے بھی اونچا کوئی  مقام ہوسکتا ہے؟۔ جنت، جس کے لیے ساری محنت اور جدوجہد جاری ہے وہ ایک ماں ،ایک عورت کے قدموں تلے رکھ دی گئی۔ واہ کیا شان ہے دین اسلام کی۔ اتنی عزت ،اتنا مرتبہ اور کہاں ملے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں عورتوں کو مخاطب کرکے صرف ایک بات کہنا چاہوں گی کہ آپ بہت عظیم اور انمول ہیں۔ اپنے رتبے کو پہچانیے۔ اپنے منصب کو پہچانیے۔ 7 سال تک بچے کو ماں کی گود کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کو کسی غیر کے ہاتھ کا کھلونا نہ بننے دیں۔ خدارا ان معصوموں کی خود حفاظت کریں ۔ ہمارے بچے ہماری ذمہ داری ہیں، کسی غیر کی نہیں ۔ یہ ہمارے پاس ہمارے رب کی امانت ہیں ۔ ان میں خیانت نہ ہونے دیں۔ اپنے مقام کو برتر سمجھیں اور خود کو خوش نصیب سمجھیں کہ اللہ نے آپ کو ایک ماں بناکر دنیا و آخرت  میںایک کو اعلی درجہ عطا کیا۔
اللہ ہمارا حافظ و ناصر ہو
آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply