چلتے چلتے نیکیاں کمائیں اور ساتھ پیسہ بھی۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

اچھے لوگ اپنی سوچ سے پہچانے جاتے ہیں ۔ آج میری نظروں سے ایسے ہی دو نوجواںوں آدم ران اور گال لاہت کی ایک موبائل ایپ گزری جنہوں نے ماحول کو صاف کرنے کے لئے یہ ایپ بنائی ہے ۔ آپ موبائل پر یہ ایپ ڈاؤن لوڈ کرلیں اور جب واک کرنے کو نکلتے ہیں تو ساتھ ایک بیگ بھی اٹھا لیں ، چلتے چلتے کچرا اٹھاتے جائیں اور اس کو اکٹھا کرکے اس کی تصویر بنا کر موبائل ایپ پر اپ لوڈ کردیں اس کے بدلے سکے آپکی ایپ میں بھیج دیے جائینگے اور آپ اس کو آن لائن  یا کسی بھی شاپنگ مال پر ادا کرکے کچھ بھی خرید سکتے ہیں ۔

اس ایپ کا نام ہے کلین کائن (Clean Coin) .صفائی اپنے گلی ، محلے ، شہروں اور ملک کی کریں اور اس کے بدلے پائیں پیسے ۔

بحیثیت مسلماں صفائی ہمارے تو ایمان کا حصہ ہے بلکہ آدھا ایمان ہے ۔ اور اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمارا ایمان ہر طرف بکھرا پڑا نظر آتا ہے ۔ سوچیں تو ہم کچرا نہیں پھینک رہے ہوتے بلکہ اپنے ایمان کو ضائع کر رہے ہوتے ہیں ۔

اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ہے ۔

ایک صبح میں سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چلتا آرہا تھا کہ میری نظر سائیڈ پر کھڑی ایک گاڑی پر پڑی تو میرے قدم تھم کر رہ گئے ۔

منظر کچھ یوں تھا کہ ایک خوبرو نوجوان ، کلین شیو ، پئنٹ شرٹ پہنے ، تھوڑا سا دروازہ کھولے مہران گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا ، دیکھنے میں وہ تعلیم یافتہ لگ رہا تھا۔

میں وہاں حیران کھڑا اس کا عمل دیکھنے لگا :

وہ اپنے والٹ اور گاڑی کے ڈیش بورڈ سے کاغذ نکالتا ، جو دیکھنے میں بینک کی رسیدیں اور لیٹرز لگ رہے تھے ، ان کو پڑھتا اور جو فضول سمجھتا اس کو پھاڑ کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے گاڑی کے کھلے دروازے سے نیچے گرا دیتا ، میں اپنے موبائل کے کیمرے سے اس کی وڈیو بنانے لگا ، دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سڑک پر بہت سارے کاغذوں کے ٹکڑے بکھیر دئیے تھے۔ گویا وہ اپنے ایمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے زمین بوس کررہا تھا۔

اچانک جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا ، اس کے چہرے پر غصے اور شرمندگی کے آثار ابھر آئے اور اس کی نظریں ان کاغذ کےپرزوں کی طرف جھک گئیں اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ تیکھی نظروں سے مجھے دیکھ رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ تم کون ہوتے ہو میری ویڈیو بنانے والے۔

میں اس کے دل کی حالت کو بھانپ گیا تھا میں نے اس کے بولنے یا اپنی جگہ سے ہلنے سے بھی پہلے ، اپنے موبائل کو بند کیا اور جا کر اس کی گاڑی کے پاس بیٹھ کر ان کاغذ کے ٹکڑوں کو چننے لگا ، اس کے زمین بوس ایمان کو اپنی پوروں سے سمیٹتے ہوئے ، دھیمی سی آواز سے اس کو کہا
“ناراض نہ ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو میری بھی وڈیو بنا سکتے ہیں” ۔

وہ خاموش اپنی سیٹ پر بیٹھا میری طرف دیکھے جا رہا تھا ، جب میں نے سب کاغذ کے ٹکڑے سمیٹ لئے اور میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تو اب غصے کی بجائے شرمندگی کے ساتھ اس کی نظروں سے ایک التجا جھلک رہی تھی کہ میری بھی عزت نفس ہے ، لگ رہا تھا کہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ کاش میری یہ ویڈیو نہ بنی ہوتی۔

میں نے کیمرا نکالا اور اس کے سامنے اس کی ویڈیو کو ڈیلیٹ کر کے کاغذ کے ٹکڑے تھامے چل دیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم تو اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ہر طرف اپنے ایمان کے پرخچے اڑا کے بے دردی سے پھینک رہے ہوتے ہیں ۔ ایمان کو تار تار کرنا بڑے پن کی نشانی سمجھتے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہمارے ایمان کے پرزوں کو سمیٹتی پھرے ۔
ہمارے ارد گرد کی صفائی بتاتی ہے کہ ہم کتنے مہذب ہیں ۔ اور ہمارے ارد گرد کے ماحول کی صفائی ہماری سوچ کی حالت کا پتا دے رہی ہوتی ہے کہ کتنی صاف اور پاکیزہ ہے ۔ سوچ ، بدن اور ماحول کی صفائی ہماری پاکیزگی کی عکاس ہوتی ہیں اور پاکیزگی اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply