• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہندو توا نظریے پر مبنی ہندی فلم “تن حاجی”۔۔۔ذوالفقار علی زلفی

ہندو توا نظریے پر مبنی ہندی فلم “تن حاجی”۔۔۔ذوالفقار علی زلفی

1992 کو بابری مسجد پر ہندو انتہا پسندوں کے حملوں نے جہاں بھارت کی سیکولر شناخت کو مسخ کردیا وہاں ہندی سینما پر بھی اس سانحے نے گہرے منفی اثرات مرتب کیے ـ ہندی فلموں کا وہ مسلمان جو پہلے ہندو کا پڑوسی یا دوست ہوا کرتا تھا رفتہ رفتہ “دوسرا” بنتا گیا ـ مردانہ برتری کے تصور کو لے کر مسلم لڑکی کو ہندو لڑکے کے کنٹرول میں دکھانے کی سعی کی گئی (فلم “بمبے” 1995) ، پاکستان کو دشمن قرار دے کر بھارتی/کشمیری مسلمانوں کو اس کا ایجنٹ دکھانے کی کوششیں کی گئیں ـ

نائن الیون کے حملوں کے بعد مسلم دہشت گرد فلموں کا موضوع بنا (مثلاً فلم “قربان” 2009) ـ نریندر مودی کے وزیرِاعظم بننے سے لے کر تاحال تاریخ کو نئے زاویے سے دکھانے پر توجہ دی جارہی ہے ـ یہ نیا زاویہ تاریخ کو ہندو نکتہِ نظر سے بیان کرنا ہے جس میں مسلمان بیرونی حملہ آور ہے ـ

مغلیہ اور دیگر مسلم حکمرانوں کی تہذیب کے پسِ منظر میں بنائی گئی فلمیں (” مغلِ اعظم” 1960 , “انارکلی” 1953 ، “پکار” 1939 , “رضیہ سلطان” 1983 وغیرہ”) پہلے ہندوستانیت کی نمائندگی کرتی تھیں ـ نریندر مودی کے بعد مسلم حکمرانوں کو قابض کی حیثیت سے دکھانے کا چلن شروع ہوا (فلم “پدماوت” 2018) ـ اس نئے ٹرینڈ میں ہندو حکمرانوں کی مزاحمت کو آزادی کے لیے زمین زادوں کی جدوجہد قرار دے کر ہندو توا کو تقویت فراہم کرنے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں (ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کا ماننا ہے 1947 کی آزادی ہزار سالہ غلامی کا اختتام تھا) ـ 2020 کی فلم “تانھاجی” اسی سلسلے کی کڑی ہے ـ

مرہٹہ ہیرو تانھاجی مالوسرے کی زندگی کے پسِ منظر میں بنائی گئی اس فلم میں نہ صرف برہمن برتری کا پروپیگنڈہ کیا گیا ہے بلکہ مغل سلطنت کو “دوسرا” مان کر اسے ہندوستان پر قابض قوت کے طور پر پیش کرکے اس کی فرقہ وارانہ تناظر میں مذمت کی گئی ہے ـ

سماجیات دانوں کے مطابق مالوسرے ایک کولی ذات ہے لیکن فلم میں ساوتری بائی (کاجول) کا لباس اور ان کی ثقافتی زندگی ایک برہمن عورت جیسی ہے ـ تانھاجی کی برہمن فلمی پیشکش برہمن ہندو توا پروپیگنڈے کا حصہ ہےـ ہدایت کار نے جان بوجھ کر کاجول کے کاسٹیوم کو برہمن عورت کے انداز میں ترتیب دیا ہےـ

اسی طرح اودیبان ٹھاکر (سیف علی خان) کے کردار کو بھی مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہےـ تاریخی لحاظ سے اودیبان ٹھاکر کی شناخت ایک راجپوت ہندو کی ہےـ فلم میں ان کی راجپوت شناخت کو دو طرح سے چھپایا گیا ہےـ

اول: فلم میں بتایا جاتا ہے اودیبان کی ماں نیچ ذات سے تعلق رکھتی تھی ـ گویا اودیبان ایک اصلی نسلی راجپوت نہیں تھا ـ ہندو توا نظریے کے مطابق اعلی ذات کا ہندو کبھی بھی نیچ قابضین (مسلم) کا ساتھ نہیں دیتا ـ اودیبان چونکہ مغل سلطنت کا کمانڈر تھا اس لیے اس کو نیچ ماں سے منسلک کرنا ہندو برہمن برتری کے تصور کو درست ثابت کرنے کے لیے ضروری ٹھہرتا ہے ـ

دوم: اودیبان کی شناخت کو مزید مسخ کرنے کے لیے اسے ایک اسٹیریوٹائپ مسلمان کی صورت دکھایا جاتا ہےـ وہ اسٹیریوٹائپ مسلم حکمرانوں کی مانند آنکھوں میں سرمہ لگاتا ہے (فلم “پدماوت” کا سلطان علاؤالدین خلجی)ـ ایک ہندو راجپوت کی مسلم شبیہ کو مزید مستحکم بنانے کے لیے اسے مسلم انتہا پسند تنظیم داعش کے کمانڈروں کی طرح سیاہ لباس پہنایا گیا ہے ـ فلم میں ہندو توا کی علامت زعفرانی رنگ کے پرچم کا بھی معنی خیز استعمال کیا گیا ہے ـ

مرہٹہ مغل کشمکش ایک تاریخی حقیقت ہے لیکن یہ دو حکمران طبقوں کے اقتدار کی لڑائی تھیـ یہ مکمل طور پر ایک سیاسی و معاشی جنگ رہی ہے جس کا فرقہ واریت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھاـ فلم میں اسے ہندو مسلم کشمکش کی صورت دکھانا ہندو راشٹریہ کے تصور کو نظریاتی بنیاد فراہم کرنا ہےـ جہاں مسلمان ایک بیرونی حملہ آور ہے جبکہ ہندو ہندوستانیت میں گندھا ایک وطن پرست. جیسے ایک جگہ سنجے مشرا کی آواز میں فلم بینوں کو بتایا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ نے چال چل کر ہندو کے خلاف ایک ہندو کو کھڑا کردیا ـ

Advertisements
julia rana solicitors

آخری تجزیے میں ہندی سینما تاریخی فکشن کو ایک نئے زاویے سے دکھا کر ہندو توا کا موثر پروپیگنڈہ کررہی ہےـ بدلتا ہوا ہندی سینما رفتہ رفتہ اپنی سیکولر شناخت سے دستبردار ہوتا جارہا ہے۔ “تانھاجی” فلم ہندو توا کا ہی پروپیگنڈہ ہے ـ افسوس یہ کہ غلاظت کے اس پلندے کو فلم بینوں نے وسیع پیمانے پر سراہا ہےـ بلاشبہ یہ خطرے کی گھنٹی ہےـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply