جین کا انتخاب ،جین سے بہتری اور جین میں ترمیم۔ جین (28)

اپریل 1990 میں ایک نئی تکنیک کا اعلان جینیات کی سائنس میں دھماکہ خیز واقعہ تھا۔ یہ حمل سے قبل ہی جینیاتی تشخیص کی ٹیکنالوجی تھی۔

جب ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کے ایمبریو کو عام طور پر چند روز کے لئے انکوبیٹر میں رکھا جاتا ہے اور پھر ماں کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ غیرمتنازعہ ہے، کوئی بھی اسے اختیار کر سکتا ہے اور دنیا بھر میں رائج ہے۔ پچھلے چالیس برس میں دنیا بھر میں اسی لاکھ سے زیادہ بچے اس طرح پیدا ہو چکے ہیں۔ کیا ان دنوں کے درمیان اس کا جینیاتی ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے؟

یہ تکنیک انسانی ایمبریولوجی کے دوران ایک عجیب مظہر کو استعمال کرتی ہے۔ ایک خلیہ تقسیم ہوتا ہے۔ تین دنوں میں آٹھ خلیے اور پھر سولہ۔ حیران کن طور پر اگر اس میں سے کوئی خلیے نکال بھی لئے جائیں تو باقی خلیے تقسیم ہو کر اس خلا کو پُر کر دیتے یہں اور یہ اس طرح نارمل طریقے سے بڑھتا رہتا ہے جیسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اپنی تاریخ کے ابتدائی کچھ حصے میں ہم ویسے ہوتے ہیں جیسے چھپکلی کی دم۔ ایک چوتھائی کاٹ بھی دیا جائے تو مکمل طور پر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

اس ابتدائی سٹیج پر یہ مظہر ایمبریو کی بائیوپسی ممکن کرتا ہے۔ اس میں سے کچھ خلیے نکالے جا سکتے ہیں اور ان کے جینیاتی ٹیسٹ کئے جا سکتے ہیں۔ جب ٹیسٹ مکمل ہو جائیں تو فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کو ماں کے جسم میں داخل کیا جائے یا نہیں۔

برطانیہ میں دو جوڑوں نے اس کو پہلی بار استعمال کیا۔ ایک کے خاندان میں شدید دماغی کمزوری کی تاریخ تھی۔ دوسرے میں دفاعی امییونولوجیکل سنڈروم کی۔ دونوں لاعلاج مرض تھے جو صرف لڑکوں میں ظاہر ہو سکتے تھے۔ انہوں نے لڑکی کا انتخاب کرنا تھا تا کہ یہ صحت مند بچے پیدا ہوں۔ یہ طریقہ دونوں نے اختیار کیا۔ دونوں کے پاس جڑواں بچیوں کی پیدائش ہوئی جو کہ صحت مند تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے اخلاقی مضمرات اس قدر چکرا دینے والے تھے کہ جلد ہی بہت سے ممالک میں اس طریقے پر بہت سی پابندیاں لگا دی گئی۔ ایسا کرنے والے ممالک میں سب سے پہلے جرمنی اور آسٹریا تھے جو بیسویں صدی میں جین کے نام پر قتل و غارت کا سیاہ دور دیکھ چکے تھے۔

منفی یوجینکس کا پراجیکٹ انسانی تاریخ کا شرمناک باب ہے اور ہمیں رُک کر سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ لیکن نازی جرمنی سے بھی کہیں زیادہ بڑے زخم کہیں اور نظر آتے ہیں۔ یوجینکس کے لئے کسی شقی القلب آمر کی ضرورت نہیں۔ انڈیا اور چین میں ایک کروڑ لڑکیاں غائب ہیں جو بلوغت تک نہیں پہنچیں۔ بچپن میں قتل، اسقاطِ حمل، بچیوں سے عدم توجہی ۔۔۔ جو بھی وجہ ہو، حقیقت یہ ہے کہ فطرت تو لڑکے اور لڑکیوں کے تناسب میں دنیا بھر میں تفریق نہیں کرتی لیکن آزاد شہریوں کو اپنی مرضی پر چھوڑ دیا جائے تو وہ بدترین یوجینکس خود ہی کرنے کے اہل ہیں۔

اور اگر انتخاب کی ٹیکنالوجی ہی مل جائے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت یہ طریقہ کئی مونوجینیٹک بیماریوں کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسی بیماریوں جو ایک جین کی وجہ سے ہوں اور جن کے ہونے کا امکان سو فیصد ہو۔ لیکن ایسی کوئی ٹیکنیکل وجہ نہیں کہ اس کا دائرہ وسیع نہ کیا جا سکے۔ پیدائش سے پہلے، حمل سے بھی پہلے ہم جینیاتی معلومات حاصل کر سکیں۔ اور اگر جان لیں تو فیصلہ کیسے اور کس بنیاد پر کریں گے؟

کبھی نہ کبھی، چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے ہم جین مینجمنٹ کی دنیا میں گھسیٹ لئے جائیں گے۔ اور یہاں پر سوال اور انتخاب آسان انتخاب نہیں ہو گے۔

ابھی تک تین ان کہے اصول جینیاتی تشخیص اور فیصلوں میں راہنمائی کرتے آئے ہیں۔ پہلا یہ کہ جینیاتی ویری انٹ کی وجہ سے امکان سو فیصد کے قریب ہو۔ جیسا کہ ڈاون سنڈروم یا سسٹک فائبروسس وغیرہ۔ دوسرا یہ کہ اس سے ہونے والی بیماری سے تکلیف غیرمعمولی ہو۔ تیسرا یہ کہ جو طریقہ اپنایا جائے، وہ قابلِ قبول ہو۔ معذور بچے کو پیدا ہونے کے گلا گھونٹ کر ہلاک کر دینا قابلِ قبول نہیں سمجھا جاتا، چھاتی کے کینسر کی جین کا پتا لگ جانے کے بعد دوا کا استعمال یا سرجری کروانے پر کسی کو اعتراض نہیں۔

مثلث کی یہ تین لکیریں اخلاقی حدود ہیں جن کو پار کرنے کو کوئی بھی کلچر تیار نہیں ہو گا۔ مستقبل میں کینسر ہو جانے کا امکان دس فیصد نکلنے پر ایمبریو کو ختم کر دینا، ریاست کی طرف سے جینیاتی ٹیسٹ کے نتیجے میں کوئی میڈیکل پروسیجر کروانے پر ریاست کا مجبور کئے جانا ان حدود کو پار کرنے کی مثالیں کہی جا سکتی ہیں جس پر ہر کوئی اتفاق کر سکتا ہے۔

حدود کی یہ مثلث ایک اچھی گائیڈ لائن ہو سکتی ہے۔ زیادہ پینیٹرنیس والی جینز، غیرمعمولی تکلیف اور بغیر جبر کے قابلِ قبول حل۔

لیکن غیرمعمولی تکلیف کیا ہے؟ نارمل اور ایبنارمل کی تفریق کیا ہے؟ کونسا طریقہ کس صورت میں قابلِ قبول ہے؟ یاد رہے کہ یہ پتھر کی لکیریں نہیں۔

جین سے بہتری؟ ۔

بیسویں صدی کے آخر میں ایک سٹڈی 5HTTLRP جین پر ہوئی۔ یہ ایک مالیکیول بناتی ہے جو چند خاص نیورونز کے درمیان سگنلنگ کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور اس کا تعلق ذہنی دباوٗ کے ریسپانس سے ہے۔ یہ جین دو طرح کی ہے۔ چھوٹی اور لمبی۔ چالیس فیصد آبادی میں اس کا چھوٹا ویری انٹ ہے۔ اس کی وجہ سے پروٹین پیدا ہونے کی مقدار خاصی کم ہوتی ہے۔ جن میں یہ ویری انٹ ہے۔ اس کی وجہ سے ڈیپریشن، نشہ، بے چینی، ٹراما اور ہائی رسک رویے کے امکان کا زیادہ ہونا ہے۔ خودکشی کے امکان میں اضافہ ہے۔ 2010 میں امریکہ کی ریاست جارجیا میں ایک غریب ترین علاقے میں رہنے والوں پر ایک پراجیکٹ سآف کے تحت ایک سٹڈی کی گئی۔ غربت، جرائم، منشیات اور تعلیم کی کمی اس علاقے کا نشان تھے۔ چھ سو خاندانوں کو دو گروپس میں تقسیم کیا۔ ایک گروپ کیلئے سات ہفتے کیلئے آگاہی، کونسلنگ اور نشے چھوڑنے کی ترغیب کے لئے سوشل پروگرام کئے گئے۔ دوسرا کنٹرول گروپ تھا۔ ان سب کی اس جین کو سیکونس کیا گیا۔

اس کا پہلا نتیجہ تو وہی تھا جس کا اندازہ تھا۔ جن بچوں میں اس کا چھوٹا ویری انٹ تھا، ان میں ہائی رسک رویے ۔۔۔ شراب نوشی، منشیات کا استعمال وغیرہ ۔۔۔ کا تناسب دگنا تھا۔ یہ پہلے کی سٹڈیز کی تصدیق کرتا تھا۔ لیکن دوسرا نتیجہ ایک اہم چیز اجاگر کرتا تھا۔

جن لوگوں پر سات ہفتے کے پروگرام کا سب سے زیادہ اثر ہوا، وہ تھے جن کی جین میں چھوٹا ویری انٹ تھا۔

یہی تجربہ ایک اور سٹڈی میں دہرایا گیا جو یتیم بچوں پر کی گئی تھی اور اس نے بھی یہی نتیجہ دیا۔ جو لوگ سب سے زیادہ متاثر تھے، وہی سوشل پروگرام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے تھے۔

ان دونوں سٹڈیز سے لگتا ہے کہ چھوٹا ویری انٹ ایک نفسیاتی حسیاسیت کا ایک سٹریس سینسر بناتا ہے اور اس کا حامل ماحول سے جلد اثر لیتا ہے۔ مثبت بھی اور منفی بھی۔ جو لوگ نازک ہیں، ان پر جلد اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ لچک کی اساس بھی جینیاتی ہے۔ کچھ لوگ مشکلات برداشت کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ان پر مداخلت بھی زیادہ کارگر نہیں ہوتی۔ جو حساس ہیں، وہ ماحول کے مطابق تبدیل بھی جلد ہو سکتے ہیں۔

لچک کی جین کا آئیڈیا سوشل انجنیرنگ میں داخل ہو رہا ہے۔ 2014 میں سائیکولوجسٹ جے بلسکی نے لکھا، “سوشل پروگرام بہت محدود وسائل رکھتے ہیں۔ کیا ہمیں ان بچوں کو ٹارگٹ کرنا چاہیے جو جن کے لئے یہ زیادہ فائدہ مند ہوں گے؟ میرے لئے تو اس کا جواب ہاں میں ہے۔ اگر ہمیں اپنے سوشل پروگرام موثر کرنے ہیں، زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنا ہے تو ہمیں ٹھیک انتخاب کرنے ہوں گے۔ ان نازک پھولوں کی حفاظت کرنا ہو گی جن کو توجہ کی زیادہ ضرورت ہے”۔

جے بلسکی کا آئیڈیا اچھا ہے اور اس کی مدد سے موثر پروگرام تشکیل دئے جا سکتے ہیں۔ اس پر عملدرآمد کر کے زیادہ بچوں کی مدد کی جا سکتی ہے؟ نازک پھول بچائے جا سکتے ہیں۔ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ بچوں کی جینوٹائپنگ۔ جین کی وجہ سے سلوک میں تفریق۔ اور جینوٹائپ کی بنیاد پر سوشل انجینرنگ؟ ہم جین کی مدد سے حساس شخص کو پہچان سکتے ہیں تو کیا جرائم، تشدد اور دوسرے چیزوں کے رجحان کی تمیز بھی کر لیں گے؟ یونی پولر ڈیپریشن اور بائی پولر شخصیت کی؟ اب اخلاقی مثلث میں غیرمعمولی تکلیف کی تعریف کیا ہو گی؟ اور کونسی مداخلت ٹھیک ہو گی؟

اور سب سے بڑھ کر ۔۔۔ نارمل کیا ہے؟ کیا والدین نارمل کا انتخاب کر سکیں گے؟ اور پھر ۔۔۔ جیسے نفسیات کے ہائزنبرگ کے اصول کی طرح ۔۔۔ مداخلت نارمل کی تعریف کی وسعت کو کم سے کم کرتی جائے گی؟ اس کا مطلب کیا ہے؟

اگرچہ ہم اس سے نظر چراتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے لیکن ہم اپنے جیسی جینز کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو ہم سا نہیں ہوتا، اس سے لڑتے ہیں۔ گروہ بندی کرتے ہیں۔ “گورا ایسا ہے، کالا ویسا ہے، پٹھان ایسے ہیں، پنجابی ویسے ہیں۔ ہمارے آباء ان کے آباء سے افضل ہیں۔ اس پوری دنیا میں ہم سا کوئی نہیں”۔ قوم پرستی، نسل پرستی یہی تو ہے۔ “وہ پستہ قد ہے۔ اس کی آنکھیں چھوٹی ہیں۔ کتنا شرمیلا ہے۔ بہت ہی غصیلا ہے۔ وہ تو دیوانہ ہے”۔ ہم سب میں فرق بہت بہت اور بہت ہی کم ہیں لیکن ہم دوسروں کو انہی معمولی فرق کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں۔ ہم ایبنارمل کی تعریف نارمل سے کرتے ہیں۔ ایبنارمل کو چھانٹنا نارمل کی تعریف مزید سکیڑ سکتا ہے۔ صرف شکل و صورت ہی نہیں، مزاج، خیالات، سوچ و فکر میں تنوع کو برداشت کرنا ہمارے لئے آسان نہیں۔ گروہ بندی اور قبائلیت ہماری سرشت میں گہری رچی بسی ہے۔

پچھلی صدی کی تاریخ نے ہمیں جینیاتی فٹنس کے تعین کے خطرات کا سبق سکھایا۔ یہ ہم طے کرتے ہیں کہ کون ہماری مثلث میں فٹ ہوتا ہے اور کون اس سے باہر ہے۔اب اگلا سوال یہ ہے کہ اس وقت کیا ہو گا جب یہ انتخاب فرد کے ہاتھ میں آ جائے گا؟ خوفناک امراض اور معذوری کا خاتمہ، افرادی اور اجتماعی خواہشات ۔۔ فرد اور معاشرے کے ساتھ پسِ منظر میں تیسرا بڑا خاموش کردار ہماری جینز کا ہے، جو خود ہماری خواہشات کو کنٹرول کرتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب واٹسن سے پوچھا گیا تھا کہ جب ہم جینوم کو پڑھ لیں گے اور اس میں ترمیم کے قابل ہو جائیں گے تو کیا ہو گا۔ انہوں نے جواب دیا تھا کہ “مجھے توقع ہے کہ ہم تھوڑے سے بہتر انسان بن جائیں گے”۔

ہم نے جینوم کو پڑھ لیا۔ اس کی پیشگوئی کی بنیاد پر انتخاب کرنے لگے ہیں۔ جین تھراپی کا استعمال نوے کی دہائی میں کیا گیا تھا اور اب اس ٹیکنالوجی کی اگلی دو جنریشنز آ گئی ہیں۔ اب انسانوں کی جرم لائن تک میں ایڈٹنگ کر کے ٹھیک ٹھیک ترمیم کر لینے کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کر لی گئی ہے۔

اس میں اہم موڑ دودھ اور دہی بنانے والے ادارے میں کام کرنے والے محققین کی اکیسویں صدی کی ایک اہم دریافت تھی۔ یہ دریافت جراثیم کی آپس کی جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جین میں ترمیم ۔ جین

ہماری زمین پر اربوں سال سے ایک جنگ لڑی جا رہی ہے جس سے کھربوں اموات ہر روز ہو رہی ہیں۔ اس قدیم خونی جنگ کے فریقین کامیابی کے لئے کئی انوکھے ہتھیار ایجاد کر چکے ہیں۔ ایسا نہیں کرتے تو زندہ نہ بچتے۔ ان کی آپس کی یہ دشمنی اب ان کی جینز پر نقش ہے۔ یہ جنگ وائرس اور بیکٹیریا کے درمیان ہے۔ وائرس بیکٹیریا پر حملہ کر کے انہیں قابو کرنا چاہتے ہیں، بیکٹیریا کو اپنی جان بچانی ہے۔ وائرس ایسے جینیاتی مکینزم بنا چکے ہیں جن سے بیکٹیریا پر حملہ کامیاب ہو سکے۔ بیکٹیریا وہ جین بنا چکے ہیں جو ان کا مقابلہ کر سکیں۔ ایک وائرس جب بیکٹیریا میں داخل ہو جائے تو اس کے مقابلے کے لئے پاس چند ہی منٹ ہیں۔

فرانس سے تعلق رکنے والے سائنسدانوں فلپ ہورواتھ اور رڈولف برانگو نے ڈنمارک کی فوڈ کمپنی ڈینسکو کے ملازم تھے۔ ان کی تحقیق دہی اور پنیر بنانے والے بیکٹیریا پر تھی۔ انہوں نے 2006 میں دریافت کیا کہ کچھ بیکٹیریل انواع ایک سسٹم بنا چکی ہیں جو حملہ آور وائرس کے جینوم کو بڑے طریقے سے کاٹ کر ان کو مفلوج کر دیتا ہے۔ یہ سسٹم مالیکیولر تلوار کی طرح ہے۔ یہ وائرس کو پہچان کر ٹھیک ٹھیک جگہ پر ضرب لگاتا ہے۔

بیکٹیریا کے اس دفاعی نظام کے دو اہم اجزاء تھے۔ پہلا تلاش کرنے والا۔ یہ ایک آر این اے تھا جو وائرل ڈی این اے کو پہچانتا تھا۔ اس کا طریقہ بائنڈنگ کا ہے۔ یعنی کہ یہ حملہ آور کے ڈی این اے کا معکوس ہے۔ جیسے آپ نے اپنے دشمن کی تصویر مستقل طور پر اٹھا رکھی ہو اور یہ اس کے جینوم میں کھدی ہوئی ہے۔ اگر یہ وائرس کے ڈی این اے میں فٹ ہو گیا تو پہچان لیا گیا کہ یہ حملہ آور ہے۔
اس کا دوسرا حصہ مہلک زخم لگانے والا پروٹین ہے۔ یہ پروٹین Cas9 ہے۔ پہچاننے والا اور مارنے والا مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ پروٹین صرف اس وقت حملہ کرتی ہے جب پہچان ہو جائے۔ جاسوس اور قاتل کی یہ ٹیم بیکٹیریا کا دفاع کرتی ہیں۔

ایمینوئل چارپنٹئے ایک بیکٹیریولوجسٹ ہیں۔ ان کی ملاقات جینیفر ڈاوڈنا سے 2011 میں ہونے والی مائیکروبائیولوجی کی کانفرنس میں ہوئی۔ دونوں کی دلچسپی بیکٹیریا کے دفاعی نظام میں تھی۔ انہوں نے ملکر اس پر کام شروع کیا۔ 2012 میں انہیں احساس ہوا کہ یہ سسٹم پروگرام کیا جا سکتا ہے۔ بیکٹیریا وائرس کی تصویر لے کر پھرتا ہے۔ اگر یہ تصویر بدل دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ کسی اور جینوم کو کاٹ دے۔ اور یہ ضروری نہیں وائرس کا ہو، کوئی بھی اور ہو سکتا ہے۔ ٹھیک جگہ سے جین کو ڈھونڈ کر کاٹا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جین میں اپنی مرضی کی جگہ پر کٹ؟؟ یہ کسی بھی ماہرِ جینیات کا خواب تھا۔ میوٹیشن رینڈم ہوتی ہے۔ آپ ایکسرے یا کاسمک رہے کو یہ نہیں بتا سکتے کہ سسٹک فائبروسس کی جین کو میوٹیٹ کر دیا جائے۔ لیکن ڈاوڈنا اور چارپنٹئے نے اس کا طریقہ دریافت کر لیا تھا۔ اپنی مرضی کی جگہ سے جین کو کاٹنے کا۔
اس سسٹم کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ جب ایک جین کٹ جاتی ہے تو ڈی این اے کے سرے کھل جاتے ہیں جیسے دھاگے کو کاٹنے سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جین نے اس کی مرمت کرنی ہے تا کہ انفارمیشن ضائع نہ ہو۔ جینوم انفارمیشن کو کنزرو رکھنے کے بارے میں بہت حساس ہے۔ عام طور پر اس طرح کھل جانے والی جین اپنی انفارمیشن اپنی بیک اپ کاپی سے حاصل کرتی ہے۔ اس وقت اگر اس خلیے میں بہت سا خارجی ڈی این اے داخل کر گیا ہو تو جین غلطی سے اس کی کاپی اٹھا لے گی، اس کو لگا کر اس کٹ کو بند کر لے گی اور یوں دھوکے سے اپنی مرضی کا ڈی این اے خلیے کا مستقل حصہ بن جائے گا۔ جیسے کسی کتاب سے کسی حصے کو مٹا کر اپنی مرضی کا متن لکھ دیا جائے۔

مائیکروب کے ڈیفنس سسٹم پر یہ پیپر “سائنس” میگیزین میں 2012 میں شائع ہوا اور اس نے فوری طور پر بائیولوجسٹس کی توجہ حاصل کر لی۔ تین سال بعد ان دونوں نے نوبل انعام جیت لیا اور اس پر ہونے والا کام اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئن سٹائن 1939 میں پرنسٹن یونیورسٹی میں بیٹھے غور کر رہے تھے کہ ایک انتہائی طاقتور ہتھیار کو بنانے کے اجزاء تو مکمل ہیں۔ یورینئم کو الگ کرنا، نیوکلئیر فشن، چین ری ایکشن، ری ایکشن کو بفر کرنا اور اس کو کنٹرول کرنا۔ صرف اس کو سیکونس کئے جانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ کرنے کا مطلب ایٹم بم ہے۔

سٹینفورڈ میں 1972 میں پال برگ نے خود کو اس مقام پر پایا تھا۔ جینز کو کاٹنا، الگ جانداروں کے جین ملا دینا، ان کو واپس بیکٹیریا میں اور پھر ممالیہ میں داخل کر دینا۔ صرف اس کو سیکونس کرنے کی ضرورت تھی اور انہوں نے بائیوٹیکنالوجی کا انقلاب برپا کر دیا۔

ڈاوڈنا اور چارپنٹئے کا پیپر بھی ایسا ہی وقت تھا۔ انسانی سٹیم سیل کو حاصل کر لینا (جو سپرم اور بیضہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں)۔ اس میں ٹھیک جگہ پر قابلِ اعتماد طریقے سے مرضی کی جینیاتی تبدیلی۔ تبدیل شدہ سٹیم سیل سے سپرم اور بیضہ حاصل کر لینا۔ ان کو ملا کر ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے انسان پیدا کر لینا۔ اور یوں آپ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ انسان حاصل کر لیتے ہیں۔

اس میں کوئی ہاتھ کی صفائی نہیں۔ یہ سب ٹیکنالوجی ہے۔ اس میں سے ہر قدم کے آگے سخت ریگولیشن اور پابندیاں ہیں۔ اس پر سب سے پہلا تجربہ 2015 میں سن یاٹ سن یونیورسٹی میں کیا گیا۔ اس میں کامیابی نہیں ہوئی لیکن اس کا اس قدر منفی ریسپانس آیا کہ نیچر، سیل اور سائنس جیسے جریدوں نے اس کے نتائج چھاپنے سے انکار کر دیا۔ اور اس کی وجہ تجربے میں سیفٹی اور ایتھکس کو ملحوظِ خاطر نہ رکھنا تھا۔ (یہ نتائج غیرمعروف آن لائن جریدے میں شائع ہوئے)۔ اس کے پہلے کامیاب تجربے کا اعلان 2018 میں چین سے کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس میں کسی کو شبک نہیں کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ انسان بنانے کی ٹیکنالوجی تیار ہے۔ اب سوال اخلاقی، سیاسی، سماجی اور قانونی نوعیت کے ہیں۔ سوال ذمہ داری کے ہیں۔

 

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply