• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسرائیل میں ابتدائے اسلام کی ایک اور قدیم مسجد دریافت ۔۔ منصور ندیم

اسرائیل میں ابتدائے اسلام کی ایک اور قدیم مسجد دریافت ۔۔ منصور ندیم

اسرائیل میں ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم Archaeologists team نے بحر الجلیل کے ساحل (Israel’s Sea of Galilee) کے پاس دنیا کی سب سے قدیم مساجد میں سے ایک مسجد ہے جو کہ دریافت ہوئی ہے۔ یہ مسجد اسرائیل کے شمالی شہر طبریہ Israel’s north city Tiberias کے مضافات میں واقع ہے۔ اس کی دریافت کا اعلان گذشتہ ہفتے ایک اکیڈمک کانفرنس میں کیا گیا۔ یروشیلم کی ہیبرو یونیورسٹی (Hebrew University of Jerusalem) کے ڈاکٹر کاٹیا سائٹرائن سلورمین (Dr. Katia Cytryn-Silverman) کی سربراہی میں ٹیم نے اس جگہ 11 سال تک کھدائی کی ہے۔

اس مسجد کی کھدائی کے ابتدائی آثار بازنطینی سلطنت Byzantine period کے دور کی ایک عمارت کی باقیات کے نیچے نظر آئے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین Archaeologists team نے پہلے ان باقیات کی شناخت آٹھویں صدی کی مسجد کے طور پر کی تھی، لیکن مزید کھدائی سے معلوم ہوا کہ وہ آثار ایک صدی پرانے تھے۔ اس جگہ پر پہلی کھدائی سنہء 1950 میں کی گئی تھی جب ایک ستونوں پر مشتمل ڈھانچہ دریافت ہوا جس کی شناخت بازنطینی عہد کے ایک بازار کے طور پر ہوئی تھی۔ تاہم بعد ازاں یہاں سے اسلام کے ابتدائی دور کے سکے اور برتنوں کے ٹکڑے دریافت ہوئے۔ اس شہر کے نیچے قدیم مسجد دراصل ساتویں صدی کی ایک قدیم مسجد ہے ، جب یہودیت ، عیسائیت اور اسلام ایک ساتھ یہاں پر پھیل رہے تھے۔

جب ساتویں صدی میں اسلام پھیلنا شروع ہوا تھا تو ، مشرق وسطی میں مساجد تعمیر کی گئیں تھیں اس وقت اسلام کے مشہور مراکز مکہ ، مدینہ ، یروشلم ، قاہرہ اور بصرہ شامل تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ شمالی اسرائیل میں طبریہ Tiberias بھی اس فہرست میں شامل ہوسکتا ہے ہیں کیونکہ حالیہ برسوں میں کھدائی سے اس شہر میں ساتویں صدی عیسوی کی قدیم مسجد کی پرانے آثار کا انکشاف ہوا ہے۔ ابتدائی دریافت میں ابتدائی اسلامی دور میں یہ آٹھویں صدی کی ایک مسجد کا خیال تھا، لیکن حالیہ برسوں میں حاصل ہونے والے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ یہ آثار اس سے بھی زیادہ پرانی مسجد ہے ، جو ساتویں صدی کی ہے۔

ڈاکٹر کاٹیا سائٹرائن سلورمین (Dr. Katia Cytryn-Silverman) کی ٹیم کے مطابق قدیم مساجد کی کھدائی کے بہت زیادہ امکانات نہیں ہیں کیونکہ یہاں وقت کی تبدیلی کے ساتھ بعد میں ان کے اوپر دوسری مساجد بھی تعمیر کی گئیں تھیں۔ صرف نیچے کی بنیادیں پرانی مسجد کی نیچے ہی باقی ہیں اور اس میں سے کچھ سنہء 2004 میں آثار قدیمہ کے ماہر یزہر ہرشفیلڈ (Yizhar Hirschfeld) نے نشاندہی کی تھیں۔ لیکن محققین کو نتیجے کو پوری طرح سمجھنے میں سالوں کا عرصہ لگا۔ محققین نے پچھلے سال کے دوران فرش کے نیچے بھرنے میں دریافت شدہ مزید آثار کے قدیم نمونوں کی مدد سے یہ یہ پرانی مسجد کے فعال ہونے کے بارے میں معلوم کیا۔

ان آثار و قرائن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ طبریہ Tiberias شہر اسلام میں ایک بہت اہم شہر تھا۔ فتح عرب کے بعد ، ابتدائی اسلامی دور میں یہ اردن کا فوجی ضلع “جند ال اردوان” کا دارالحکومت بن گیا۔ اسی عہد کے دوران ، یہ شہر ایک سیاسی اور معاشی مرکز تھا۔ طبریہ Tiberias آثار قدیمہ سے منسلک ہے۔ یہودیت کے لحاظ سے بھی یہ ایک اہم دور رہا تھا، یہ اس عہد کی جامع مسجد تھی، جو مرکزی شہروں میں بنی تھیں، اجتماعی مساجد جہاں مقامی سیاسی شخصیات خطبہ جمعہ پیش کرت رہے تھے اور جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوا اور پھیل گیا یہاں زیادہ سے زیادہ مساجد بنائی گئی تھیں۔

اس مسجد کے بارے میں اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ کو یقین ہے کہ ’یہ مسجد کئی صدیاں پہلے تعمیر ہوئی اور غالباً اسے شرحبیل بن حسنۃ نے تعمیر کیا جو اس وقت اسلامی فوج کے کمانڈر تھے جنہوں نے اس علاقے کو فتح کیا تھا۔ ڈاکٹر کاٹیا سائٹرائن سلورمین (Dr. Katia Cytryn-Silverman) کے مطابق

’ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اسے شرحبیل بن حسنۃ نے تعمیر کروایا، لیکن ہمارے پاس تاریخی مواد موجود ہے جس کے مطابق انہوں نے سنہ 635 میں طبریہ کو فتح کرنے کے بعد یہ مسجد بنوائی۔‘

اندازہ یہی ہے کہ یہ مسجد سنہ ھجری ۶۳۵ (A.D. 635) میں پیغمبر اسلام کے ایک صحابی نے تعمیر کی ہو جو اس مسلم فوج کے کمانڈر تھے جنہوں نے ساتویں صدی میں شام کے علاقوں کو فتح کیا، حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے،،انہوں نے دعوت اسلام کے آغاز میں اسلام قبول کیا تھا اور پہلے حبشہ کی ہجرت کی اور وہاں سے مدینہ آئے اور ماں کے تعلق سے بنی زریق میں قیام پزیر ہوئے،ان کا نام شرحبیل، اور ابوعبداللہ ان کی کنیت تھی، ان کے والد کا نام عبد اللہ تھا؛ لیکن والد شرحبیل کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور ان کی والدہ حسنہ نے سفیان انصاری سے شادی کرلی تھی، اس لیے شرحبیل باپ کی بجائے اپنی والدہ کی نسبت سے شرحبیل بن حسنہ مشہور ہوئے۔ ان کے کارناموں کا آغاز عہد صدیقی سے ہوتا ہے، شام کی فوج کشی میں صوبہ اردن پر یہی مامور تھے۔

حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ خلافت راشدہ کے ایک اہم کمانڈر تھے۔ آپ نے خلافت راشدہ کے دو اہم خلفاء ابوبکر صدیق اور عمر فاروق کے دور میں اپنی خدمات سر انجام دیں۔ انہوں نے ساتویں صدی عیسوی میں موجودہ ملک شام کی فتح میں چار سو افراد پر مشتمل فوج سے اہم کردار ادا کیا تھا، اندازہ یہی ہے کہ ان کی سپہ سالاری میں جو یہاں فتح ہوئی اسی عہد میں حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ نے اس مسجد کو بنوایا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: اس خبر کا بنیادی حوالہ جریدہ عرب ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply