اب کچھ دہائیاں قبل بیگ بینگ کا نظریہ پیش کیا گیا تھا تو اس میں کچھ سقم موجود تھے لیکن اب ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ ان کا جواب ملتا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ انفلیشن تھیوری نامی نظریہ بھی سائنسدانوں کے سامنے آیا اورآج اس کو بیگ بینگ نظریے کی extension بھی کہاجاتا ہے۔ انفلیشن تھیوری کے متعلق کچھ ماہ پہلے تفصیلی آرٹیکل لکھا تھا جس میں ذکر کیا گیا تھا کہ کیسے انفلیشن تھیوری بیگ بینگ میں موجود خامیوں کوپُر کرتی دکھائی دیتی ہے، اُس آرٹیکل کا لنک
https://www.mukaalma.com/36214
بہرحال انفلیشن تھیوری ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات بیگ بینگ کے پہلے ہی سیکنڈ کے اربویں حصے میں انتہائی تیزی سے یکایک پھیل کر کھربوں گنا وسیع ہوگئی تھی، انفلیشن تھیوری کے ذریعے ہمیں ایک اور سوال کابھی ممکنہ حل ملا۔اکثر طلباء کے سامنے جب یہ کہا جاتا ہے کہ بیگ بینگ کا آغاز ایک نقطے (singularity) سے ہوا تو ان کےذہن میں کشمکش پیدا ہوجاتی ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کائنات میں موجود سارا مادہ ایک نقطے میں بند ہوجائے اور نقطہ بھی ایسا جو کہ ایک الیکٹران سے کروڑ گنا چھوٹا ہو۔ اس گُتھی کو سُلجھانے کے لئے آپ کو انفلیشن تھیوری اور کوانٹم فزکس کا سہارا لینا پڑے گا، ہمیں معلوم ہے کہ ہماری کائنات میں موجود خلاء “حقیقی خلاء “نہیں ہے بلکہ یہ “جھوٹی خلاء” ہے، اسے “جھوٹی خلاء” کا خطاب اس لئے دیا گیا کیونکہ بظاہر یہ ہمیں خالی دکھائی دیتی ہے، مگر حقیقتاً یہ خالی نہیں ہے بلکہ یہ مختلف قسم کی کوانٹم فیلڈز سے بھری ہوئی ہے،
بیگ بینگ تھیوری کے متعلق تفصیلی مضمون
https://www.mukaalma.com/13924
یہی وجہ ہے کہ ہر سیکنڈ کے کروڑویں حصے میں خلاء کے اندر کوانٹم ذرات بنتے ہیں اور مٹتے رہتے ہیں، اس مظہر کو ہم quantum fluctuations کہتے ہیں، اسی خاطر اب ہمارا خیال ہے کہ یہی کوانٹم فلیکچیویشنز بیگ بینگ واقعے کی اصل وجہ ہیں، چونکہ کائنات میں پہلی روشنی بیگ بینگ واقعے کے تقریباً 4 لاکھ سال بعد پھُوٹی تھی لہٰذاہم اگر بھاری بھرکم ٹیلی سکوپ لے کر ماضی میں جھانکنا چاہیں بھی تو بیگ بینگ تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ ہماری حد بیگ بینگ سے 4 لاکھ سال پہلے ہی ختم ہوجائے گی کیونکہ ہم دیکھنے کےلئے روشنی کے محتاج ہیں اور روشنی تو بیگ بینگ واقعے کے 4 لاکھ سال بعد پھُوٹی تھی، اُس روشنی کو آج ہم کاسمک مائیکرویو بیک گراؤنڈ ریڈیشنز (CMBR) کے نام سے جانتے ہیں، یہ ریڈیشنز پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں اور بیگ بینگ کی باقیات ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم مشاہداتی طور پہ نہیں جان سکتے کہ بیگ بینگ کے بعد 4 لاکھ سال تک اس کائنات میں کیا ہوتا رہا،لیکن ہم کائنات میں رائج قوانین کو سمجھ کر ایک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہاں ! ایسا ہواہوگایا بیگ بینگ کے بعدایسا ہونا چاہیے تھا۔ اسی اندازے کے تحت آج ہم کہتےہیں کہ بیگ بینگ کے تقریباً 3 منٹ بعد جب ہماری کائنات کا درجہ حرارت ایک ارب ڈگری کم ہوا ہوگا تو ہائیڈروجن، ہیلیم اور لیتھیم کے ایٹمز بنے ہونگے۔۔۔۔
بہرحا ل موضوع کی جانب واپس آتے ہیں، سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ کوانٹم فلیکچیویشنز بیگ بینگ کی اصل وجہ ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ کائنات میں موجود تمام فورسز بیگ بینگ کے وقت یکجا تھیں اور ایک فورس کی شکل میں موجود تھیں، اب تک چار basic فورسز کو ہم جانتے ہیں، جن میں گریوٹی، سٹرانگ نیوکلئیرفورس، ویک نیوکلئیر فورس اور الیکٹرومیگنیٹک فورس شامل ہے، ہم گریوٹی کے سوا بقیہ تین فورسزکو یکجا کرچکےہیں، جن سے معلوم ہوتا ہےکہ ہم تحقیق کی راہداریوں میں صحیح راستے پہ گامزن ہیں۔لہٰذا اب ہمارا اندازہ ہے کہ بیگ بینگ کے وقت خلاء کے کسی گوشے میں کوانٹم فلیکچیویشن پیداہوئی، ان کوانٹم فلیکچیویشن کو inflation نامی ذرے نے پھیلا کر کوانٹمی سطح سے کائناتی سطح جتنا بڑا کر دیا،جیسے ہی یہ کوانٹم فلیکچیویشنز کائناتی پیمانے جتنی وسیع ہوئیں تو یہ واپس عدم کو نہ لوٹ سکیں اور “فریز “ہوگئیں، اب اُُس نقطے میں کچھ مقامات پہ کوانٹم فلیکچیویشن زیادہ تھیں جبکہ کچھ مقامات پہ کوانٹم فلیکچیویشنز کم تھیں، لہٰذا جب یہی کوانٹم فلیکچیویشنز بیگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے اربویں حصے میں پھیل کر کائنات جتنی بڑی ہوگئیں،تو جن مقامات پہ فلکیچیویشنز کی density زیادہ تھی وہاں الیکٹران اور دیگر ذرات بننا شروع ہوگئے، جو بعد میں لاکھوں سال کی “ریاضت” کے بعد ستارے اور سیاروں میں تبدیل ہوگئے،جبکہ جن جگہوں پہ کوانٹم فلیکچیویشن نہ ہونے کے برابر تھی وہ خالی رہ گئیں اور آج ہم اسے خلاء کے نام سے جانتے ہیں۔
کوانٹم فیلڈاور ہگز بوزون کے متعلق تفصیلی مضمون
https://www.mukaalma.com/29842
اب تک انفلیشن کی وجہ بننے والاinflaton نامی ذرہ دریافت نہیں کیا جاسکتا،2012ءمیں سائنسدانوں کو لگا کہ ہم نے یہ ذرہ دریافت کرلیا ہے مگر بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا کہ دریافت ہونے والا ذرہ ہگز بوزون ہے۔سائنسدانوں کے ایک طبقے کا یہ بھی خیال ہے کہ کائنات میں repulsive gravity نامی فورس بھی موجود ہے اور بیگ بینگ کے شروعاتی دور میں اسی فورس نے کائنات کو اس کوانٹمی ذرے سے نکال کر پھیلایا ۔اگریہ انفلیشن کا دور وقوع پذیر نہ ہوتا ہےاور کائنات آرام سے پھیلتی تو کائنات کی آج شکل کچھ اور ہی ہوتی، کائنات کے وجود میں آنے کے لئے انفلیشن اس خاطر بھی ضروری تھی کیونکہ جب کائنات اس نقطے سےپھیلی ، اگر انفلیشن کا دور رونما نہ ہوتا تو کائنات اپنی ہی شدید کشش ثقل کے باعث دوبارہ collapseہوکر اسی نقطے میں بند ہوجاتی!۔اکثر سوال یہ بھی کیاجاتا ہے کہ ہماری کائنات کے باہر کیا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ ہم نہیں جانتے! ہماری کائنات کا کنارہ کہاں ہے؟ ہم نہیں جانتے!لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ ہماری کائنات کے باہر حقیقی خلاء موجودہے جہاں کچھ بھی موجود نہیں ہےیہاں تک کہ کوانٹم فلیکچیویشن بھی نہیں ہیں، جبکہ ہماری کائنات جھوٹی خلاء کا منبہ ہے،جس میں ہر آن کوانٹم فلکیچیویشنز وقوع پذیر ہورہی ہیں، کوانٹم ذرات بن رہے ہیں اور مٹ رہے ہیں،سو ہوسکتا ہے کہ ہماری کائنات کسی حقیقی خلاء میں پھیل رہی ہو۔لہٰذا ہم کوانٹم فلیکیچیویشنزکو سمجھ کے جان سکتے ہیں کہ کیسے یہ کائنات اور یہ سارا مادہ ایک نقطے میں بند تھا۔کیسے کائنات عدم سے وجود میں آئی ، اسی خاطر کارل ساگان نے ہمیں stardust کہا کیونکہ آج آپ میں اور مجھ میں ، ہم سب میں ایک ایک ایٹم کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی ستارے کا حصہ تھا، ہم ستاروں کی باقیات ہیں لہٰذا ہم سب نایاب ہیں، ہم سب بہت قیمتی ہیں، ہمارے وجود کے لئے ان خوبصورت ستاروں کو قُربان ہونا پڑاہے،سو اپنے سے محبت کیجیئے، دوسروں سے محبت کیجیے، کائنات سے محبت کیجئے.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں