کوانٹمی دنیا اور ہگز فیلڈ۔۔۔۔محمد شاہزیب صدیقی

یہ تو ہم جانتے ہیں کہ کائنات کے متعلق ہمارا علم ہردور میں نئی راہیں تلاش کرتا رہا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ہمیں اپنی ہی کائنات تک براہِ راست رسائی نہ ہونا ہے، ہم ہر لمحہ کائنات کے ماضی میں جھانک رہے ہوتے ہیں اور چاہ کر بھی کائنات کے حال کو نہیں دیکھ پاتےکیونکہ کائناتی حصوں سے ہم تک پہنچنے والی روشنی بہت پہلے وہاں سے چلی تھی، کائنات کے دُور دراز علاقوں کو چھوڑیں ہمارے اپنے سورج کی روشنی ہم تک 8 منٹ 20 سیکنڈ بعد پہنچتی ہے مطلب آپ آسمان پر جو سورج دیکھ رہے ہیں وہ بھی 8 منٹ پرانا ہوتا ہے، بات یہیں تک رہے تو ٹھیک بھی لگتی ہے، لیکن حیرت تب ہوتی ہے جب معلوم پڑتا ہے کہ کائنات تو کائنات انسان کو ابھی اپنے وجود کی اکائیوں کے متعلق بھی علم نہیں ہوسکا ۔

شروع میں حضرتِ انسان ایک طویل عرصے تک یہی سمجھتا رہا کہ ہماری زمین اور آسمان دراصل ہوا، پانی، مٹی اور آگ سے مل کر بنے ہیں۔ پوری کائنات میں ان چار اشیاء کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے،جتنی بھی چیزیں ہیں بنی ہیں وہ انہی چار Basic چیزوں کا مرکب ہیں۔یہ سوچ ایک لمبے عرصے تک قائم رہی، پھر یونانی فلاسفرز نےتصور پیش کیا کہ نہیں! کائنات میں ہر ٹھوش شےایٹم نامی ذرات سے مل کر بنی ہوئی ہے ،ایٹم solidہوتے ہیں اور ان کو مزید تقسیم نہیں کیا جاسکتا، وقت کا پہیہ چلتا رہا1897ء میں معلوم ہوا کہ ایٹم میں مزید ذرات موجود ہوتے ہیں، ایٹم کے مرکز میں پروٹان اور نیوٹران ہوتے ہیں جب کہ الیکٹران اس کے گرد چکر لگاتے ہیں، اُس وقت یہ ایک بہت بڑا انکشاف تھا جس نے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا کیونکہ ہم آج تک دنیا کو جیسا سمجھ رہے تھے وہ ویسی نہیں نکلی۔

اس امر نے سائنسدانوں کو تحریک دی اور کائناتی رازوں کو کھوجنے کے لئے مزید جوش و خروش سےتحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔ تقریباً 50 سال پہلے مزید حیرت انگیز انکشاف تب ہوا جب پتہ چلا کہ ایٹم کے نیوکلئیس میں موجود پروٹان اور نیوٹران بھی مزید چھوٹے ذرات سے مل کر بنے ہیں جنہیں ہم کوارکس کہتے ہیں، مزید یہ کہ ان کوارکس کی بھی آگے کئی اقسام ہیں لیکن ہمارا واسطہ عموماً اپ کوارکس اور ڈاؤن کوارکس سے پڑتا ہے۔ کوارکس کے علاوہ بھی دیگر ذرات موجود ہوتے ہیں جنہیں سائنسدانوں نے مختلف نام دیے ہیں، یہی سب کوانٹمی دنیا ہے ، کوانٹم لیول پر شدید طوفان برپا ہوا ہوتا ہےنئے پارٹیکلز بنتے ہیں اور فنا ہوتے ہیں، کوانٹمی دنیا ایک الگ ہی جہاں ہے۔بہرحال پروٹان 2 اپ اور ایک ڈاؤن کوارکس سے مل کر بنتے ہیں، جبکہ نیوٹران 2 ڈاؤن اور ایک اپ کوارکس سے مل کر وجود میں آتے ہیں۔کتنا خوبصورت احساس ہے کہ ہمیں ہزاروں سال تک خبرہی نہ تھی کہ بظاہر پُرسکون دِکھائی دینے والی دنیا اپنے اندر اس قدر ہیجان اور طوفان لیے برپا ہے۔یہاں پہنچ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوارکس کیسے وجود میں آتے ہیں

۔اس سوا ل کے جواب میں 2 نظریات ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں، ایک کو ہم کوانٹم فیلڈ تھیوری کے نام سے جانتے ہیں اور دوسرے کو سٹرنگ تھیوری کا نام دیاگیا۔ ہم آج کوانٹم فیلڈ تھیوری کے متعلق سمجھیں گے جبکہ سٹرنگ تھیوری کو پھر کسی مضمون میں سمجھیں گے۔سائنسدان جدید تحقیق کے بعد اب یہ مان رہےہیں کہ کائنات میں کوئی جگہ بھی خالی نہیں ہے بلکہ ہماری کائنات میں مختلف اقسام کی فیلڈز موجود ہیں، اور ان فیلڈز میں انرجی کے باعث پیدا ہونے والی ہلچل سے یہ کوانٹمی ذرات وجود میں آتے ہیں۔ کوانٹمی ذرات کے وجود میں آنے کا مطلب ہے کہ آپ کا، میرا اور پوری کائنات کا وجود میں آنا۔ فرض کیجئے کہ کائنات کے کسی علاقے میں اگر الیکٹران کی فیلڈ موجود ہے تو اس میں انرجی کے باعث اگر کوئی ہلچل (fluctuation)ہوگی تو الیکٹران وجود میں آجائے گا، ایسے ہی کوارکس کی فیلڈ میں ہلچل سے کوارکس پیدا ہوتے ہیں، برقی و مقناطیسی فیلڈ میں ہلچل سے فوٹانز پیدا ہوتے ہیں۔ کسی فیلڈ میں ہلچل کا اثر عموماً دوسری فیلڈ پر بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے کوانٹمی ذراتdecay ہوکر کسی دوسرے ذرے میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

سو اس سب سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اردگرد ہر وقت نہ نظر آنے والے جالے(فیلڈز)موجود ہیں،اورہم سب ان جالوں میں انرجی کے باعث پیدا ہونے والی fluctuations (ہلچل)ہیں۔یہ تمام فیلڈز عموماً کسی نہ کسی رُخ پہ موجود ہوتی ہیں، جیسے گریوٹی کی فیلڈکا رخ ہمیشہ مادے کی جانب ہوگا، ہم زمین سے چپکے ہوئے ہیں کیونکہ گریوٹی کی فیلڈ کا رُخ زمین کی جانب ہے۔ سائنسدانوں کا اندازہ تھا کہ ان تمام کے علاوہ ہگز فیلڈ نامی ایک فیلڈ بھی اس کائنات میں موجود ہے جو بقیہ فیلڈز کے برعکس کائنات کے ہر گوشے تک پھیلی ہوئی ہے، جس وجہ سے اسے سکیلر فیلڈ بھی کہا گیا ۔ ہگز فیلڈ کا کام کسی بھی پارٹیکل کو ماس provide کرنا ہے۔ اس کی غیرموجودگی میں تمام پارٹیکلز massless ہوتے اور روشنی کی رفتار پہ سفر کررہے ہوتے، یہ ہگز فیلڈز ہی ہیں جو بقیہ پارٹیکلز کو روشنی کی رفتار پہ سفر نہیں کرنے دیتیں، یہاں تک کہ ایک الیکٹران جیسا لطیف پارٹیکل بھی روشنی کی رفتار کا 99.9 فیصد ہی حاصل کرسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ اس کو ایسے سمجھا جاسکتا ہے کہ nature میں تمام پارٹیکلز روشنی کی رفتار سے سفر کررہے ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی پارٹیکل ہگز فیلڈ کے ساتھ interaction کرتا ہے تو اس کو resistance کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کی رفتار کم ہوجاتی ہے سو وہ massless نہیں رہتا، یہی ہگز فیلڈ کا کام ہے۔

ہگز فیلڈ کی غیرموجودگی میں ہر بنیادی پارٹیکلpairکیformمیں ہوتا ہے، مثلاً اپ کوارک ہگز فیلڈ کی غیرموجودگی میں رائٹ اپ کوارک اور لیفٹ اپ کوارک کی form میں ہوتے ہیں، لیکن ہگزفیلڈ کے ساتھ interactکرتے ہی رائٹ اپ کوارک ،لیفٹ اپ کوارک میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور لیفٹ اپ کوارک ، رائٹ اپ کوارک میں تبدیل ہوجاتے ہیں، یہ ادلا بدلی ایک سیکنڈ میں سو کھرب کھرب مرتبہ ہوتی ہے(یعنی 10 کے آگے25 صفر لگا دیں)، لہٰذا اپ کوارک ہمیں ایک کوانٹمی ذرے کی شکل میں نظر آتا ہے اور اسے کمیت عطا ہوجاتی ہے۔ہگز فیلڈ کے متعلق سائنسدان 50 سال پہلے پیشنگوئی کرچکے تھے لیکن اس متعلق کوئی ثبوت نہیں مل پارہے تھے،2012ء میں سرن لیبارٹری میں سائنسدانوں نے انتہائی طاقتور کولائڈر کی مدد سے جب پروٹانز کو ٹکرایا تو ایک سیکنڈ کے انتہائی قلیل حصے میں دیگر ذرات کے ساتھ ایک نئے ذرے کو ریکارڈ کیا گیا ، تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس ذرے کی خصوصیت بالکل وہی ہے جو ہگز بوزون نامی تصوارتی ذرے کی ہونی چاہیے تھی۔ یہ معلوم ہوتے ہی فزکس کی دنیا میں بھونچال آگیا اور اس discovery کو صدی کی سب سے بڑی دریافت میں شمار کیا گیا کیونکہ ہگز بوزون کے ذریعے ہگز فیلڈ کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی، اس کے ساتھ ہی فزکس کے سٹینڈرڈ ماڈل پر بھی تصدیق کی مہر لگ گئی، سائنسدانوں کو تسلی ہوئی کہ ہم ٹھیک سمت میں کام کررہے ہیں۔یاد رہے کہ Standard Model میں صرف یہی ذرہ باقی رہ گیا تھا اس کے ملنے سےسٹینڈرڈ ماڈل بھی مکمل ہوگیا۔

مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہگز فیلڈ پر درجہ حرارت کا بھی اثر ہوتا ہے، بہت زیادہ درجہ حرارت پر یہ فیلڈز “اُبل” جاتی ہیں،اسی خاطر بیگ بینگ کے شروعاتی لمحے میں بہت زیادہ درجہ حرارت ہونے کے باعث یہ فیلڈز اپنی اصل حالت میں قائم نہیں تھیں سو اس دوران تمام ذرات روشنی کی رفتار سے سفر کررہے تھے ، لیکن جیسے ہی درجہ حرارت کم ہواتو یہ فیلڈز اپنی جگہ واپس آگئیں اور ذرات کو کمیت عطا ہونا شروع ہوگئی۔ہگزبوزون کی دریافت کے بعد اب یہ کوئی تصوارتی فیلڈز نہیں رہیں بلکہ حقیقت بن چکی ہیں۔اگر ہگز فیلڈز اس کائنات میں نہ ہوتو ہماری کائنات کا نقشہ ہی بدلا ہوتا، تمام ذرات massless ہوتے، کبھی بھی کوارکس اور الیکٹران نہ بنتے، اگر کوارکس اور الیکٹران نہ بنتے تو ایٹم نہ بنتا، ایٹم نہ بنتا تو مالیکیول نہ بنتے، مالیکیول نہ بنتے تو آپ، میں، سورج، چاند، ستارے، الغرض کچھ بھی نہ بن پاتا، پوری کائنات میں صرف روشنیوں کا راج ہوتا، پوری کائنات ماس لیس ہوتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہگز فیلڈز کا کائنات کی بناوٹ میں کلیدی کردار ہے۔ہگز بوزون کے بعد سائنسدانوں کااگلا ہدف گریوٹیشنل فیلڈز کا کوانٹمی ذرہ “گریوٹان” ہے، ہمیں یہ بھی اندازہ ہے کہ گریوٹان کو کھوجنا فی الحال کی ٹیکنالوجی میں ممکن نہیں ہے، لیکن ہم اس کی propertiesسے واقف ہیں،

Advertisements
julia rana solicitors london

سائنسدانوں کو اندازہ ہےکہ ان کی properties فوٹانز جیسی ہونگی، گریوٹانز کے متعلق بہت زیادہ وثوق سے اس خاطر کہا جارہا ہے کیونکہ کچھ سال پہلے گریوٹیشنل ویوز کی دریافت کے بعد سائنسدانوں کو یقین ہے کہ ایسا ذرہ بھی ہماری کائنات میں موجود ہوسکتا ہےجوکہ شاید آج سے سو سال بعد دریافت ہوسکے۔ہمارے “اَندر” کی” کائنات” کتنی خوبصورت ہے اس کا سوچنا ہی ہمیں حیرت کے سمندر میں ڈبو دیتا ہے۔ انسان تحقیق کرنے نکلے تو سوچ میں پڑجاتا ہے کہ کائنات کو کھوجے یا اپنے اندرکے جہان کو جدھر اتنا طلاطم اور طوفان موجود ہے، یہی طوفان ہماری زندگی کو رواں رکھے ہوئے ہے۔خیال یہ بھی آتا ہے کہ ہم جس کو اتنا واضح دیکھتے ہیں محسوس کرتے ہیں،اس کی حقیقت محض ان فیلڈز کی ہلچل ہے،یہ ساری کائنات یہاں تک کہ ہم بھی اِن فیلڈز کی محض fluctuations ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply