جوابِ شاہنامۂ عمران

ثاقب ملک بھائی کی جانب سے دو اقساط پر مبنی مضمون سامنے آیا جس میں عمران خان کو معصوم عن الخطاء قسم کا مسیحا پیش کیا گیا۔ ثاقب بھائی سے پیار محبت اور تعظیم کا رشتہ ہے جس کی بنیاد پہ اختلاف رائے کی جسارت مناسب ترین پلیٹ فارم یعنی مکالمہ سے پیش خدمت ہے۔ مجھ سمیت شاید بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ قلم کا تھوڑا بہت حسن جو اللہ پاک عطا فرماتا ہے، اسے جانبداری کا شکار کرنا زنا بالقلم کے مترادف ہے۔ آسان سیاسی الفاظ میں جو معزز شخص یہ سمجھتا ہے کہ میاں صاحب پاک صاف تھے، ہیں اور رہیں گے اسے ہم صالح ظافر تو کہہ سکتے ہیں مگر غیر جانبدار قلمکار نہیں۔ بالکل ایسے ہی جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ عمران خان نیازی ہی پوتر ستی ساوتری ہے، اسے ہم شاہد مسعود کہہ سکتے ہیں غیر جانبدار لکھاری نہیں۔ اگر آپ وکیل بھی خود منصف بھی خود مدعی بھی خود اور گواہ بھی خود پہ یقین رکھتے ہیں تو رکئے، آگے پڑھنے سے گریز فرمائئے، میری جانب سے معزرت قبول فرمائیے۔ بصورت دیگر اطلاعاً عرض ہے کہ ریاست پاکستان میں ٹوٹا پھوٹا ہی سہی مگر ایک عدد قانون نافذ العمل ہے۔ یا تو آپ بشمول اسے ماننے سے یکسر انکار کر دیں اور ایک نئے آئین کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں۔ اس ضمن میں پشتو رنگین فلم “ٹوپک زما قانون” یعنی بندوق میرا قانون دیکھ کر آپ بہترین پلاننگ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ قانون کو مانتے ہیں تو پھر یہ ممکن نہیں کہ اپنی پسند کے فیصلوں پہ عدلیہ کو سر پہ بٹھا لیں اور باقی فیصلوں پر اسی عدلیہ کو رولنا ڈولنا شروع کر دیں۔
آپ نے پہلی شام انتخابی نتائج کو مان لیا۔ اگلے دن یو ٹرن لیا کیونکہ آپ کو دھاندلی کا وہم ہو چلا تھا۔ سنا تھا وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس نہیں لیکن دور جدید میں یہ بات غلط ثابت ہوئی۔ خان صاحب نے پینتیس پنکچر خود اپنے پہ ڈالے جبکہ چھتیسواں پنکچر نجم سیٹھی آپ کی ذات پہ لگا کہ چلتا بنا جب منصفین کے سامنے آپ نے بے شرم طریقے سے اعتراف کیا کہ وہ تو بس ایک سیاسی بیان تھا۔ معلوم نہیں ثاقب بھائی کو یہ شرمناک واقعہ یاد نہیں یا وہ ایسی باتیں یاد کرنا نہیں چاہتے۔ آپ نے پینتیس پنکچر کی بنیاد پہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر دھاندلی کا راگ الاپا اور بعد ازیں منکر ہوگئے، پھر بھی آپ صادق آپ امین اور میاں صاحب دھوکے باز۔
آپ سینکڑوں کانسپیریسی تھیوریوں کو بنیاد بنا کر مہاتما کو مہاتما ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہیں، حقائق مہاتما کی ناکامیوں بلکہ لگاتار ناکامیوں کی شکل میں سامنے آکر آپ کا منہ چڑاتے رہیں گے۔ حقیقت یہ رہے گی کہ آپ بوجہ اے بی یا سی پشاور اور میانوالی سے اپنی سیٹیں ہارے ہیں۔ حقیقت یہ رہے گی کہ پینتیس پنکچر والا سیاسی بیان نیازی صاحب کی شان میں قصیدے لکھنے والوں کے قلم توڑتا رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ نیازی صاحب نے اس وقت بوجہ کسی خاص مجبوری اپنی شادی کا اعلان کیا جب قوم اپنے ایک سو بیالیس معصوم بچوں کے بہیمانہ قتل کے سوگ میں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم سے جھوٹ نہ بولنے کا علی الاعلان وعدہ کر کے پہلے آپ نے اپنی شادی کی خبر کو جھوٹ قرار دیا، پھر حجلہ عروسی سے لائیو نشریات کا اہتمام کر کے اپنے وعدے کی بار بار خلاف ورزی کی۔ اپنی اہلیہ سے سابقہ اہلیہ تک کے سفر میں آپ نے کتنے ہی جھوٹ بولے جو ثاقب صاحب کو یاد نہ رہے شاید اس لئیے کہ وہ آپ کے ذاتی معاملات تھے، لیکن ذاتی معاملات حضرت عمر (ر) کی حکومت میں کبھی سننے میں بہرحال نہ آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب کی بادشاہت میں قائم صوبائی حکومت میں انہی کے وزراء پہ انہی کی پارٹی کرپشن کے الزامات لگاتی رہی جس پہ بجائے ایکشن لینے کے، آپ نے الزامات لگانے والوں بشمول بینک آف خیبر کے چئیرمین سے ہی جان چھڑا لی۔ حقیقت یہی رہے گی کہ خان صاحب پہلے آفشور کمپنیوں پہ قوم کو بیوقوف بناتے رہے لیکن اپنی آفشور کمپنیاں سامنے آنے پہ آپ اگر مگر کی تاویلوں کے پیچھے چھپ گئے۔ حقیقت یہی رہے گی جیسا کہ خان صاحب نے فرمایا: میں نے 2002 میں اسلام آبادمیں 300 کنال زمین 145000 روپےمیں خریدی، یعنی 483 روپےفی کنال اور 24 روپےمرلہ۔ حقیقت یہی رہے گی کہ آپ نے دھاندلی کے جن الزامات پہ دھرنا دیا بعد میں ایک قرارداد بھی ان کے سدباب پہ نہ پیش کر سکے۔ حقیقت یہی رہے گی کہ اکبر ایس احمد خان صاحب کی جماعت کا ہی ایک بندہ خدا ہے جو انہیں الیکشن کمیشن میں گھسیٹ رہا ہے وہ بھی مالی خورد برد کے الزام میں۔ حقیقت یہی رہے گی کہ وہ درزی، موچی اور مکینک جن کے اشتہار چلا کر آپ نے امیدوار بنانے کا جھانسہ دیا گیا، آج بھی درزی، موچی اور مکینک ہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے ثاقب صاحب کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے نام پر جو ڈھکوسلہ خان صاحب نے کیا وہ کوئی اور کرتا تو آپ بشمول تمام قصیدہ گو حضرات کے عتاب کا مرتکب ٹھہرتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی تحقیقات کے لیے جسٹس وجیہہ الدین کی سربراہی میں جو کمیشن خان صاحب نے بنایا تھا اسے اپنی اے ٹی ایم مشینز کے خلاف فیصلہ کرنے پر خان صاحب نے خود ہی تحلیل کیا تھا۔
ثاقب صاحب، یہ بات حقیقت ہے کہ آج کل کسی صحافی کی ڈوبتی کشتی کے سہارے کو شاہنامہ عمران بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اسی لیے ہمیں قصیدہ گوئی پہ ہرگز اعتراض نہیں۔ آپ کو قطرینہ کیف پسند ہو سکتی ہے آپ اس پہ ہجو لکھنے کو آزاد ہیں۔ آپ کو رابرٹ ڈی نیرو اچھا لگتا ہے، اٹھائیں قلم اور لکھ ڈالیں اس پہ ایک حسین داستان، لیکن خدارا قوم کو ایسے وقت میں مزید گمراہ نہ کریں جب ہر جانب دھول ہی دھول ہے اور ہر چہرہ غبار آلود ہے۔ حقائق کو مسخ خدارا نہ کیجئے۔ یہ یاد رکھیے کہ اختلاف رائے سب کا حق ہے۔ اس حق کی سرحد اس لکیر پہ ختم ہو جاتی ہے جہاں آپ اختلاف رائے کی بنیاد پہ اپنے مخالفین کو گاجر گوبھی یا جاہل پٹواری سمجھنے لگتے ہیں۔ اس لکیر کے اُس پار صرف حقارت، بد تہذیبی اور نفرت ہے حضور۔ آپ کی دو اقساط پہ مبنی قصیدہ گوئی کا لب لباب یہ تھا کہ عمران خان ایک مخلص اور کرپشن سے پاک انسان ہے اور اس پہ امت کا اجماع بھی ہے۔ بتانا یہی مقصود ہے ثاقب صاحب کہ عمران کے مخالفین کو نہ صرف اس کے خلوص کا یقین ہے اور نہ ہی اس بات پہ بھروسہ ہے کہ وہ کرپٹ نہیں۔ مہربانی فرما کر اس اختلاف کی بنیاد پر دوسروں کو جاہل پٹواری سمجھنا چھوڑ دیں۔ عمران خان ایک انسان ہے، اسے انسان رہنے دیں اور اس بات کا گمان رکھیے کہ عقل کل عمرانی ٹولے کے پاس نہیں، اللہ تعالی نے کچھ حصہ عمرانی مقلدین کے علاوہ بھی دنیا میں بانٹا ہوا ہے۔
( اگر کوئی اس مضمون کا جواب دینا چاہے تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں،مصنف کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ مدیر مسئول)

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply